Dawnnews Television Logo

پاکستان، کھیل کا میدان اور سال 2021ء

آئیے ایک نظر دوڑاتے ہیں پچھلے سال پر کہ کھیل کے میدان سے ہمیں اس میں کیا کچھ دیکھنے کو ملا؟
اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2021 02:17pm

سال 2021ء کے آخری ایام جاری ہیں اور ہم نئے عزائم اور نئے حوصلوں کے ساتھ نئے سال میں قدم رکھنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ نیا سال ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے اور اس کی مدد سے آئندہ کے لیے بہتر منصوبہ بندی کا موقع دیتا ہے۔ نئے سال کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ آئیے ایک نظر دوڑاتے ہیں پچھلے سال پر کہ کھیل کے میدان سے ہمیں اس میں کیا کچھ دیکھنے کو ملا؟ کون سے لمحات ایسے تھے جو ذہن پر تادیر، بلکہ شاید تاعمر، نقش رہیں گے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ وطنِ عزیز میں کھیل کا مطلب ہے کرکٹ! 90 فیصد خبریں اسی کھیل کی ہوتی ہیں اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی آج سالنامے کا یہ حصہ بس کرکٹ نامہ ہی ہوگا۔ سال 2020ء کے مقابلے میں دیکھیں تو ہمیں 2021ء مجموعی طور پر ایک بہتر سال لگا۔ وبا کے اثرات اور شدت میں کمی آنے کی وجہ سے ملک میں کھیل کے میدانوں کی رونقیں بھی بحال ہوئیں۔ بلاشبہ اتار چڑھاؤ آئے، لیکن مجموعی طور پر تماشائیوں کی میدانوں میں واپسی اور ایک شاندار ٹی 20 ورلڈ کپ کی وجہ سے 2021ء کو عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔

مایوس کُن آغاز

پاکستان کرکٹ کے لیے سال 2021ء کا آغاز بہت ہی مایوس کُن انداز میں ہوا۔ یہ دورہ نیوزی لینڈ کا دوسرا ٹیسٹ تھا جو دراصل 2021ء میں کھیلا گیا پاکستان کا پہلا میچ تھا۔ یہاں پاکستان کو ہوئی ایک اننگ اور 176 رنز کی کراری شکست، اور ساتھ ہی سیریز میں ‏2-0 کی ہار بھی سہنا پڑی۔ نیوزی لینڈ نے اپنی واحد اننگ میں 659 رنز بنائے جس میں کپتان کین ولیم سن کی 238 رنز کی یادگار اننگ بھی شامل تھی۔ پاکستان 2 مرتبہ کھیل کر بھی نیوزی لینڈ کے مجموعے کے قریب تک نہ بھٹک پایا اور دوسری اننگ میں محض 168 رنز پر ڈھیر ہوکر شکست کا طوق گلے میں ڈال لیا۔

جنوبی افریقہ کی 'بھرپور' میزبانی

نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پے در پے زخم کھانے کے بعد پاکستان کو اب ایک تاریخی سیریز کھیلنا تھی کیونکہ جنوبی افریقہ 2007ء کے بعد پہلی بار پاک سرزمین پر کھیلنے کے لیے آ رہا تھا۔ یہاں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بدلے ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ سے لیے۔ کراچی میں 'ہوم بوائے' فواد عالم کی سنچری کی بدولت پاکستان نے 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور پھر راولپنڈی ٹیسٹ حسن علی کی تباہ کن باؤلنگ اور محمد رضوان کی پہلی ٹیسٹ سنچری کی بدولت 95 رنز سے جیت لیا اور یوں سیریز بھی ‏2-0 سے اپنے نام کرلی۔

گوناگوں مسائل سے دو چار جنوبی افریقہ میں ماضی والا دم خم نظر نہیں آیا اور پاکستان نے ٹی 20 سیریز میں بھی ‏2-1 سے کامیابی حاصل کرکے دورہ نیوزی لینڈ کا غم کافی حد تک ہلکا کردیا۔

جوابی دورہ، نتیجہ وہی

کوئی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ہوم گراؤنڈ کی بدولت جنوبی افریقہ سے اتنی آسانی سے جیت گیا، لیکن اپریل میں جوابی دورے میں بھی پاکستان نے 3 ون ڈے میچوں کی سیریز میں ‏2-1 اور 4 مقابلوں پر مشتمل ٹی 20 سیریز میں ‏3-1 سے کامیابی حاصل کی۔

ایک وقت تھا کہ جنوبی افریقہ دنیائے کرکٹ کی مضبوط ترین ٹیم شمار ہوتا تھا، لیکن اب تو یہ ماضی کی عظیم ٹیم کی محض پرچھائی ہے۔ ویسے صرف ایک دہائی پہلے کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پاکستان جنوبی افریقہ کو اُسی کی سرزمین پر ون ڈے اور ٹی 20 دونوں سیریز میں اس طرح ہرائے گا۔ خیر، کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں!

پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف 3 ون ڈے میچوں کی سیریز میں ‏2-1 اور 4 مقابلوں پر مشتمل ٹی ٹوئںٹی سیریز میں ‏3-1 سے کامیابی حاصل کی—فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف 3 ون ڈے میچوں کی سیریز میں ‏2-1 اور 4 مقابلوں پر مشتمل ٹی ٹوئںٹی سیریز میں ‏3-1 سے کامیابی حاصل کی—فوٹو: اے ایف پی

ایک مرتبہ پھر زمبابوے

پاکستان نے گزشتہ چند سالوں میں جس تواتر کے ساتھ زمبابوے کے دورے کیے ہیں، غالباً کسی دوسری ملک کے نہیں کیے ہوں گے۔ اپریل میں پاکستان ایک مرتبہ پھر زمبابوے میں کھیلتا نظر آیا، جہاں 3 ٹی 20 سیریز میں ‏2-1 سے کامیابی سمیٹی اور پھر دونوں ٹیسٹ میچ بھی باآسانی جیت لیے۔ یعنی ہر مرتبہ ایک میچ زمبابوے کو دینے کی روایت برقرار رکھی۔ شکر ہے سیریز میں ون ڈے میچ نہیں تھے، ورنہ رواں سال ون ڈے میں پاکستان نے جیسی کارکردگی دکھائی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہاں نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا۔

پاکستان نے زمبابوے کو 3 میچوں کی ٹی 20 سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں 24 رنز سے شکست دے کر سیریز 1-2 سے جیتی تھی—فوٹو: پی سی بی ٹوئٹر
پاکستان نے زمبابوے کو 3 میچوں کی ٹی 20 سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں 24 رنز سے شکست دے کر سیریز 1-2 سے جیتی تھی—فوٹو: پی سی بی ٹوئٹر

انگلینڈ کے سامنے چِت

زمبابوے سے واپسی کے بعد کھلاڑیوں نے متحدہ عرب امارات کا رخت سفر باندھا جہاں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا میلہ سجا، لیکن بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کا اگلا ہدف پی ایس ایل کے بعد دورہ انگلینڈ تھا۔ یہاں 3 ون ڈے اور اتنے ہی ٹی 20 میچ کھیلے گئے اور نتیجہ توقعات کے برعکس، یا یوں کہہ لیں کہ عین مطابق، ہی سامنے آیا۔ ون ڈے میں تمام میچوں میں شکست اور ٹی 20 میں برتری حاصل کرنے کے بعد ‏2-1 سے ناکامی۔ فیصلہ کن تیسرے ٹی 20 میں انگلینڈ اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے 3 وکٹوں سے جیت گیا جبکہ پاکستان کے باؤلرز فیصلہ کن وار نہیں کرپائے۔

قومی ٹیم انگلینڈ میں ون ڈے میں تمام میچوں میں ناکام ہونے کے بعد ٹی 20 میں برتری حاصل کرنے کے بعد سیریز ‏2-1 سے ہار گئی
قومی ٹیم انگلینڈ میں ون ڈے میں تمام میچوں میں ناکام ہونے کے بعد ٹی 20 میں برتری حاصل کرنے کے بعد سیریز ‏2-1 سے ہار گئی

سال کی بدترین شکست؟

اگر ہم اسے سال کے سنسنی خیز ترین ٹیسٹ میچوں میں شمار کریں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ وسط اگست میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا پہلا مقابلہ تھا کہ جس میں پاکستان نے حریف کو 168 رنز کا ہدف دیا تھا۔ جب صرف 16 رنز پر ویسٹ انڈیز کے ابتدائی تینوں بلے باز آؤٹ ہوگئے تو لگتا تھا پاکستان اس ہدف کا دفاع باآسانی کرلے گا، لیکن ویسٹ انڈیز نے وکٹیں گرنے کے باوجود اپنے حواس پر قابو رکھا۔ یہاں تک کہ آخری وکٹ نے 17 قیمتی رنز کا اضافہ کر کے ایک یادگار کامیابی حاصل کی۔ جی ہاں! ویسٹ انڈیز نے یہ مقابلہ صرف ایک وکٹ سے جیتا۔ گو کہ پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میں 109 رنز سے سے بڑی فتح حاصل کی، لیکن سیریز جیتنے کا سنہری موقع وہ پہلے میچ ہی میں گنوا چکا تھا اور یہ کامیابی بھی سیریز جتوانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوسکی۔

پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میں 109 رنز سے سے بڑی فتح حاصل کی، لیکن سیریز جیتنے کا سنہری موقع وہ پہلے میچ ہی میں گنوا چکا تھا—اے ایف پی
پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میں 109 رنز سے سے بڑی فتح حاصل کی، لیکن سیریز جیتنے کا سنہری موقع وہ پہلے میچ ہی میں گنوا چکا تھا—اے ایف پی

جب نیوزی لینڈ نے 'دھوکا' دے دیا

لیکن ذرا ٹھہریے، ابھی تو سال کے سب سے افسردہ اور غمزدہ کرنے والے لمحات کا ذکر باقی ہے۔ ستمبر میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے 18 سال بعد 3 ون ڈے اور 5 ٹی 20 میچ کھیلنے کے لیے پاکستان میں قدم رکھے۔ اس سیریز کی جہاں تاریخی اہمیت تھی، وہیں ٹی 20 ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لیے بھی بہت اہم سمجھی جا رہی تھی۔ لیکن جس دن راولپنڈی میں پہلا ون ڈے کھیلا جانا تھا، اسی روز نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی بنیادوں پر اچانک اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔

یہ خبر پاکستان کرکٹ کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ قومی کرکٹ کے بڑے ناموں سے لے کر عام شائقین تک، سب نے نیوزی لینڈ کے اس فیصلے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا کیونکہ اس کے اثرات بہت دُور تک جاسکتے تھے اور ایسا ہوا بھی، نیوزی لینڈ سے 'شہہ' پاتے ہوئے انگلینڈ نے بھی پاکستان کا طے شدہ دورہ مؤخر کردیا۔

انگلینڈ کو اکتوبر کے وسط میں، ٹی 20 ورلڈ کپ سے محض چند دن پہلے پاکستان میں 2 ٹی 20 میچ کھیلنے تھے، لیکن 'حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے!'

اور سارے غم غلط ہوگئے!

اس دل گرفتہ صورتحال میں پاکستان بنا کسی تیاری کے ٹی 20 ورلڈ کپ 2021ء کھیلنے کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچا۔ یہاں پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف بھارت سے تھا، یعنی ایسی ٹیم سے جس کے خلاف وہ کبھی ٹی 20 ورلڈ کپ میں کوئی میچ نہیں جیت پایا۔ لیکن اس مرتبہ پاکستان نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔

دبئی میں ہونے والے 'سال کے سب سے بڑے مقابلے' میں پاکستان نے بھارت کو پوری 10 وکٹوں سے شکست دے کر ایسی فتح حاصل کی جو نہ پاکستان نے کبھی ٹی 20 کرکٹ میں پائی تھی اور نہ کبھی بھارت کو کسی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

شاہین آفریدی نے پہلے اوور میں روہت شرما، دوسرے اوور میں لوکیش راہُل اور پھر آخر میں ویرات کوہلی کی بڑی وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پھر پاکستانی اوپنرز محمد رضوان اور کپتان بابر اعظم کی 152 رنز کی ناقابلِ شکست پارٹنرشپ نے مہرِ تصدیق ثبت کی۔

یہ جیت پاکستانیوں کو مدتوں یاد رہے گی، بلکہ بھارتیوں کو بھی۔ درحقیقت 2021ء کو پاکستان کرکٹ کا یادگار سال قرار دینے کے لیے یہ ایک فتح ہی کافی ہے۔

بھارت کے خلاف کامیابی نے پاکستان کے کھلاڑیوں میں بجلی سی بھر دی۔ اگلے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو بھی ہرا دیا اور یوں اپنے گروپ کے دونوں مشکل ترین میچ ابتدا ہی میں جیت کر تہلکہ مچا دیا۔

افغانستان کے مقابلے میں شکست کے جبڑوں سے فتح چھیننے کے بعد پاکستان نے نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کو بھی ہرایا اور بغیر کوئی شکست کھائے سیمی فائنل تک پہنچ گیا۔ عین اس موقع پر جب لگتا تھا کہ آئندہ مقابلے محض خانہ پُری ہوں گے، پاکستان تو ورلڈ کپ جیتا ہوا ہی ہے، ہمیشہ کی طرح آسٹریلیا پاکستان کے آڑے آ گیا۔

سیمی فائنل میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2010ء کی کہانی دہرا دی گئی اور آسٹریلیا پاکستان کو روندتے ہوئے فائنل تک پہنچ گیا، جہاں وہ پہلی بار ٹی 20 ورلڈ چیمپیئن بھی بن گیا۔

مشن بنگلہ دیش

ورلڈ کپ سے دل گرفتہ ہو کر واپس آنے کے بعد پاکستان کا اگلا مشن دورہ بنگلہ دیش تھا، جسے ہم کئی لحاظ سے ایک یادگار دورہ کہہ سکتے ہیں۔ تمام ٹی 20 میچ جیتنے کے بعد پاکستان نے چٹاگانگ اور ڈھاکا میں ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچ بھی بخوبی جیتے۔

لیکن مقابلے بہت جاندار اور شاندار ہوئے۔ پہلے ٹی 20 میں پاکستان کی آخری اوور میں محض 3 وکٹوں سے کامیابی سے لے کر ڈھاکا میں کھیلے گئے آخری ٹیسٹ کے آخری لمحات میں کامیابی سمیٹنے تک، یہ ایک بہت دلچسپ سیریز رہی۔

سال کا اختتام اپنی سرزمین پر

پاکستان نے سال کا اختتام پر ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کے ساتھ کیا، جو 3 ٹی 20 میچ کھیلنے کے لیے کراچی پہنچا تھا۔ یہاں مایوس کن حد تک خالی میدانوں میں پاکستان نے سیریز جیت لی۔ ویسٹ انڈیز کو اپنے مشہور ترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں تھی، جو ورلڈ کپ میں شریک تھے۔

کامیابیاں، ناکامیاں، اعداد و شمار

پاکستان نے سال بھر میں کُل 9 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 7 میں کامیابی حاصل کی جبکہ 2 میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں یہ نتائج بہت بہتر تو نظر آتے ہیں لیکن مضبوط حریف نیوزی لینڈ سے شکست اور بے دست و پا جنوبی افریقہ، کمزور زمبابوے، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے خلاف کامیابیاں شاید اتنی اہمیت کی حامل نہ ہوں۔ پھر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست تو سال کی سب سے مایوس کن ہار ہوگی، جسے بھلانا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔

انفرادی سطح پر دیکھیں تو ٹیسٹ میں سال میں سب سے زیادہ رنز عابد علی نے بنائے۔ عابد کے لیے یہ ایک یادگار سال تھا لیکن اس کا اختتام بہت ہی دل خراش انداز میں ہوا۔ 15 ٹیسٹ اننگز میں 695 رنز بنانے والے عابد کو دسمبر میں قائد اعظم ٹرافی کے ایک میچ کے دوران انہیں سینے میں تکلیف ہوئی، جس پر انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دل کے ایک عارضے میں مبتلا پائے گئے اور ان کی انجیو پلاسٹی کی گئی۔ اب عالم یہ ہے کہ عابد کے کیریئر پر ایک تلوار لٹک رہی ہے اور خدشہ ہے کہ ان کا کرکٹ کیریئر ہی ختم ہوجائے گا۔

دوسرے نمبر پر فواد عالم رہے کہ جنہوں نے 13 اننگز میں 571 رنز بنائے۔ رنز کم ہونے کے باوجود ان کا اوسط 57.10 عابد سے بہتر ہے، بلکہ اِس سال پاکستان کے کسی بھی دوسرے بلے باز سے زیادہ رہا۔ اس کے علاوہ فواد نے رواں سال سب سے زیادہ 3 سنچریاں بھی بنائیں۔

اظہر علی 549 رنز کے ساتھ پاکستان کے تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے۔

فواد نے رواں سال سب سے زیادہ 3 سنچریاں بھی بنائیں— فوٹو بشکریہ پی سی بی
فواد نے رواں سال سب سے زیادہ 3 سنچریاں بھی بنائیں— فوٹو بشکریہ پی سی بی

اظہر علی 549 رنز کے ساتھ پاکستان کے تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے— فوٹو: اے ایف پی
اظہر علی 549 رنز کے ساتھ پاکستان کے تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے— فوٹو: اے ایف پی

ٹیسٹ باؤلنگ دیکھیں تو یہ شاہین آفریدی کا سال تھا۔ انہوں نے 17 اننگز میں کُل 47 وکٹیں حاصل کیں۔ حسن علی 41 کے ساتھ دوسرے نمبر جبکہ نعمان علی مہر 19 وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئے۔

ون ڈے میں پاکستان کے لیے مجموعی طور پر یہ ایک مایوس کُن سال رہا۔ اسے 6 میں سے صرف 2 میچوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور 4 میں شکست کھائی۔

یہاں انفرادی سطح پر سال میں سب سے زیادہ رنز بابر اعظم نے بنائے، جنہوں نے صرف 6 اننگز میں 405 رنز اسکور کیے۔ اس میں 158 رنز کی بہترین اننگز بھی شامل ہے۔

فخر زمان 365 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ وہ اپنے کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری کے بھی بہت قریب پہنچے، لیکن 193 رنز پر آؤٹ ہوگئے۔

امام الحق 6 اننگز میں 189 رنز کے ساتھ پاکستان کے لیے ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ بنانے والوں میں تیسرے نمبر پر رہے۔

باؤلنگ میں حیران کن طور پر حارث رؤف سب سے آگے نظر آتے ہیں، جنہوں نے 6 اننگز میں 13 وکٹیں حاصل کیں۔ شاہین آفریدی نے اتنے ہی میچوں میں 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ حسن علی 7 وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں سال کے سب سے اہم فارمیٹ کی یعنی ٹی 20 کی، اہم اس لیے کہ یہ ٹی 20 ورلڈ کپ کا سال تھا۔ ایک ایسا ورلڈ کپ جو بارہا مؤخر ہوتے ہوتے اب 2021ء تک پہنچ گیا تھا اور اس مرتبہ تو مزا ہی آ گیا!

آسٹریلیا نے جہاں ٹی 20 ورلڈ کپ پر بھی اپنا ہاتھ صاف کرلیا، وہیں پاکستان کی کارکردگی نے سب کے دل جیت لیے۔ پاکستان نے سال بھر میں کُل 29 ٹی 20 انٹرنیشنل میچ کھیلے جن میں سے 20 میں کامیابی حاصل کی اور صرف 6 میں شکست کھائی۔

انفرادی سطح پر محمد رضوان عروج پر دکھائی دیے۔ انہوں نے 26 ٹی 20 انٹرنیشنل میچوں میں 73 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 1326 رنز بنائے، وہ بھی تقریباً 135 کے اسٹرائیک ریٹ، ایک سنچری اور 12 نصف سنچریوں کی مدد سے۔ یعنی کوئی مقابل نہیں دُور تک بلکہ بہت دُور تک!

ان کے بعد بابر اعظم ہیں جنہوں نے اتنی ہی اننگز میں 939 رنز بنائے۔ گو کہ ان کا اوسط بہت کم یعنی 37.56 رہا لیکن ان کے ریکارڈ پر ایک سنچری اور 9 نصف سنچریاں ضرور ہیں۔

رواں سال بابر اعظم نے اپنی مجموعی اننگز میں 939 رنز بنائے—فائل/فوٹو: اے پی
رواں سال بابر اعظم نے اپنی مجموعی اننگز میں 939 رنز بنائے—فائل/فوٹو: اے پی

فخر زمان 415 رنز کے ساتھ سال میں سب سے زیادہ ٹی 20 رنز بنانے والے پاکستانی بلے بازوں میں تیسرے نمبر پر رہے۔ باؤلنگ میں ون ڈے کی طرح ٹی 20 میں بھی حارث رؤف چھائے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے 21 اننگز میں 25 وکٹیں حاصل کیں، وہ بھی صرف 25.48کے اوسط سے اور 22 رنز کے 4 وکٹوں کی بہترین کارکردگی کے ساتھ۔

حسن علی کے لیے گو کہ یہ سال ایک لحاظ سے اچھا نہیں رہا۔ ورلڈ کپ کے اہم ترین میچوں میں انہیں پاکستان کی شکست کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا لیکن مجموعی طور پر رواں سال ان کی اچھی کارکردگی رہی: 17 اننگز میں 25 وکٹیں۔ اس میں کسی بھی پاکستانی باؤلر کی سال کی بہترین کارکردگی 18 رنز دے کر 4 وکٹیں بھی شامل ہے۔

شاہین آفریدی گو کہ اپنے چند یادگار باؤلنگ اسپیلز کی بدولت سال میں سب سے نمایاں رہے لیکن وہ وکٹوں کے معاملے میں حارث اور حسن دونوں سے پیچھے تیسرے نمبر پر رہے۔ انہوں نے سال بھر میں 21 اننگز میں 23 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

لیکن کوئی کارکردگی شاہین آفریدی کے اس باؤلنگ اسپیل کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتی جو انہوں نے بھارت کے خلاف ٹی 20 ورلڈ کپ کے پہلے مقابلے میں پھینکا تھا۔ ایسی کارکردگی جو دیکھنے والوں کو ہمیشہ یاد رہے گی۔

رضوان کا سال

اگر ہم 2021ء کو محمد رضوان کا سال کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے رواں سال جس چیز کو ہاتھ لگایا وہ 'سونے' کی ہوگئی۔ پاکستان سپر لیگ میں وہ ملتان سلطانز کو پہلی بار چیمپیئن بنا گئے، پھر اپنی پہلی ٹیسٹ اور ٹی 20 سنچری سے لے کر آخر میں کئی ریکارڈز کا حصہ بننے تک، ہر ہر جگہ ہمیں رضوان کا نام نظر آیا ہے۔

رواں سال وہ ایک سال میں ٹی 20 کرکٹ میں 2 ہزار سے زیادہ رنز بنانے والے تاریخ کے پہلے کھلاڑی بنے۔ صرف انٹرنیشنل ٹی 20 میں ہی ان کے رنز کی تعداد 1326 ہے۔ یاد رہے کہ وہ ٹی 20 فارمیٹ میں سال کے دوران ایک ہزار رنز کا ہندسہ عبور کرنے والے پہلے بلے باز ہیں۔

پھر ایک سال میں 13 مرتبہ 50 یا اس سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

بابر اعظم کے ساتھ ان کی جوڑی نے بھی اس سال خوب ہنگامہ مچایا۔ دونوں نے کُل 25 اننگز میں 57.50 کے اوسط سے 1380 رنز بنائے۔ اس میں جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین میں 197 رنز کی ریکارڈ شراکت داری سے لے کر بھارت کے خلاف تاریخی مقابلے میں 152 رنز کی ناقابلِ شکست اور ناقابلِ فراموش ساجھے داری تک شامل ہے۔

سال کا سب سے شاندار لمحہ

یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے والی بات ہے؟ بلاشبہ پاک-بھارت مقابلہ، اس میں بھی شاہین آفریدی کے ہاتھوں بھارت کے روہت شرما، راہُل اور کوہلی کا آؤٹ ہونا۔

سب سے مایوس کُن لمحہ، بلکہ لمحات

نیوزی لینڈ کا پہلے ون ڈے کچھ دیر قبل دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان اور اس کے بعد انگلینڈ کا اُس کی پیروی کرنا۔ اس کے علاوہ انگلینڈ کے دورے پر پاکستان کی انتہائی خراب کارکردگی۔ بقول شخصے پاکستان انگلینڈ کی 'سی ٹیم' سے ہارا اور واقعی ہی ایسا ہوا کیونکہ انگلینڈ کے پاس نہ ایون مورگن تھے، نہ ہی جو روٹ، جانی بیئرسٹو، جوس بٹلر، جوفر آرچر، کرس ووکس، معین علی، عادل رشید اور جیسن روئے، کوئی کھلاڑی نہیں تھا۔

تیسرا سب سے افسوس ناک مرحلہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست تھی۔ اسی میدان پر جہاں پاکستان نے چند روز پہلے بھارت کو تاریخی شکست دی تھی، وہیں پر قومی باؤلرز 177 رنز کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ وہ بھی 96 رنز پر 5 وکٹیں لینے کے باوجود۔ 19 ویں اوور میں میتھیو ویڈ کے شاہین آفریدی کو لگائے گئے ناقابلِ یقین چھکے اسی طرح دل پر چھریاں چلاتے رہیں گے، جیسے پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ 2010ء کے سیمی فائنل کے مائیکل ہسی کے چھکے چلاتے تھے۔

اب نئے سال میں نیا کیا؟

اگلے سال کے لیے پاکستان کے پاس پہلے سے خوش خبریاں موجود ہیں۔ آسٹریلیا نے مارچ میں 3 ٹیسٹ، 3 ون ڈے اور ایک ٹی 20 میچ پر مشتمل ایک بھرپور دورے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسی سال کے اواخر میں انگلینڈ بھی 3 ٹیسٹ اور کافی سارے ٹی 20 میچ کھیلنے کے لیے پاکستان کا رخ کرے گا اور کے اس کے بعد نیوزی لینڈ بھی دو ٹیسٹ اور 3 ون ڈے کھیلنے کے لیے آئے گا۔ یعنی یہ سال کافی گرما گرم رہے گا۔

پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ سال بھی ٹی 20 ورلڈ کپ کا ہے۔ اکتوبر میں آسٹریلیا کے میدانوں پر ایک مرتبہ پھر یہ معرکہ آرائی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو آسٹریلیا سے بدلے کا موقع مل جائے؟ وہ بھی آسٹریلیا ہی کے میدانوں پر؟ خیر، ہماری دعا تو یہی ہوگی کہ ایسا 'موقع' نہ ہی آئے تو بہتر ہے، ورنہ آئی سی سی ٹورنامنٹس کے ناک آؤٹ مرحلے میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کا حالیہ ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔

اولمپکس کا سال

سال 2021ء اولمپکس کا سال تھا۔ حالانکہ اولمپکس کا انعقاد 2020ء میں ہونا تھا لیکن کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اولمپک مقابلوں کا انعقاد جولائی و اگست 2021ء میں ممکن ہو پایا۔

پاکستان 1992ء سے لے کر آج تک اولمپکس میں کسی تمغے سے محروم ہے۔ پاکستان غالباً دنیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہوگا کہ جسے اولمپکس میں کوئی تمغہ نہیں ملا۔ مجموعی طور پر 7 رکنی دستے میں اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کی کہ جن میں سے 3 خواتین تھیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم مسلسل دوسری مرتبہ اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے پاکستان کی تمغے کی واحد بڑی امید موجود نہیں تھی۔ پھر بھی رواں سال پاکستان کے چند کھلاڑیوں نے سب کے دل جیت لیے۔ ویٹ لفٹنگ میں طلحہ طالب اور جیولن تھرو میں ارشد ندیم اپنے ایونٹس کے فائنل تک پہنچے اور تمغے کے بہت قریب بھی پہنچے لیکن یہ تمنّا پوری نہ ہوسکی۔

طلحہ طالب نے ٹوکیو اولمپک میں اپنی کارکردگی سے پاکستانیوں کے دل جیت لیے—فوٹو: اے پی
طلحہ طالب نے ٹوکیو اولمپک میں اپنی کارکردگی سے پاکستانیوں کے دل جیت لیے—فوٹو: اے پی

ارشد ندیم جیولین تھرو کے فائنل میں پانچویں نمبر پر رہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ارشد ندیم جیولین تھرو کے فائنل میں پانچویں نمبر پر رہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کھلاڑیوں کی کارکردگی نے عوام کو بتایا ہے کہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل بھی ہیں، وہیں اولمپکس کے حوالے سے کرتا دھرتا اداروں کی غفلت کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ اگر ان کھلاڑیوں کو اچھی سہولیات اور تربیت میسر ہوتی تو بلاشبہ یہ آج اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کرتے۔


فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔