Dawnnews Television Logo
حیدرآباد میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوانوں کے خلاف پولیس کاروائی کرتی نظر آرہی ہے — فوٹو: اے پی

سندھ پولیس کا ہر 18واں اہلکار کورونا کا شکار

سندھ میں پولیس اہلکاروں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 22 ہزار 923 ہے، جس میں سے 6 ہزار 821 اہلکار وبا کا شکار بنے۔
اپ ڈیٹ 14 جنوری 2022 12:38pm

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اس وقت پاکستان کو بھی کورونا کی زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم ’اومیکرون‘ کا سامنا ہے جو بدقسمتی سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو متاثر کر رہی ہے۔

اگر ’اومیکرون‘ سے ہٹ کر کورونا پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ وبا کا گڑھ رہا اور یہاں تیزی سے لوگ کورونا کا شکار ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ سندھ میں عام لوگوں کے مقابلے پولیس اہلکار سب سے زیادہ کورونا کا شکار ہوئے اور ان کے وبا سے متاثر ہونے کی شرح عام افراد سے تقریبا 8 گنا زیادہ رہی۔

چوں کہ پولیس اہلکار فرنٹ لائن ورکر کے طور پر لاک ڈائون کو کامیاب بنانے کے لیے سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں موجود تھے اور ان کا سامنا ہر طرح کے افراد سے ہوتا تھا، اس لیے ان کی کورونا سے متاثر ہونے کی شرح بھی عام افراد سے زیادہ رہی۔

پاکستان میں 3 جنوری 2022 تک کورونا کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 97 ہزار 235 تھی جو کہ مجموعی آبادی کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں۔

مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر 160 افراد میں سے ایک شخص کورونا کا شکار ہوا اور مجموعی طور ملک کی محض نصف سے کچھ زیادہ آبادی وبا کا شکار ہوئی مگر اس کے برعکس سندھ پولیس میں کورونا تیزی سے پھیلا اور پولیس اہلکاروں کے کورونا میں شکار ہونے کی شرح عام پاکستانیوں کے مقابلے 8 فیصد زائد ریکارڈ کی گئی۔

سندھ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 کے اختتام تک مجموعی طور پر 6 ہزار 821 اہلکار کورونا سے متاثر ہوئے، جن میں سے تقریبا تمام ہی یعنی 6 ہزار 758 اہلکار ایک سے ڈیڑھ ماہ تک بیمار رہنے کے بعد صحت یاب ہوئے۔

سندھ میں کورونا کا پہلا کیس فروری 2020 کے آخر میں سامنے آیا تھا، جس کے چند دن بعد ہی صوبائی حکومت نے سخت حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے مارچ 2020 کے آغاز میں ہی پولیس کو سڑکوں پر مامور کردیا تھا۔

مارچ 2020 سے دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر سندھ پولیس کے 6 ہزار 821 اہلکار و افسران کورونا کا شکار ہوئے، جس میں سے بدقسمتی سے 41 اہلکار زندگی کی بازی ہار گئے۔

اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر عام افراد کے مقابلے پولیس میں زیادہ تیزی سے کورونا پھیلا اور فرنٹ لائن ورکر ہونے کی حیثیت میں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

سندھ پولیس کے مجموعی اہلکاروں و افسران کی تعداد ایک لاکھ 22 ہزار 923 ہے، جس میں سے 6 ہزار 821 افراد کورونا کا شکار ہوئے۔

سندھ پولیس کے مجموعی طور پر ساڑھے پانچ فیصد اہلکار وبا کا شکار ہوئے اور ہر اٹھارہواں اہلکار کورونا میں مبتلا ہوا۔

ہر 18 واں پولیس اہلکار کورونا کا شکار ہوا

کورونا میں مبتلا ہونے والے سندھ پولیس کے اہلکاروں میں حیدرآباد کے نیاز بھی ہیں جو کورونا کی پہلی لہر یعنی مارچ 2020 میں ہی کورونا سے متاثر ہوئے تھے۔ کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد وہ دو ہفتوں تک اپنے بچوں، اہلیہ اور والدین سمیت رشتے داروں اور دوستوں کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دور رہے۔

نیاز کو اس وقت خود کو ایک کمرے میں بند کرنا پڑا تھا جب مئی کے وسط میں دوران ڈیوٹی ان کا ٹیسٹ کیا گیا جس میں ان میں کورونا کی تشخیص ہوئی تھی۔وہ سندھ پولیس کے ان ہزاروں پولیس اہلکاروں میں سے ایک تھے، جنہیں اس وقت لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کے لیے سڑکوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔

سندھ پولیس کے اہلکاروں نے ہیلتھ ورکرز کی طرح فرنٹ لائن ورکر کے طور پر خدمات سر انجام دیں
سندھ پولیس کے اہلکاروں نے ہیلتھ ورکرز کی طرح فرنٹ لائن ورکر کے طور پر خدمات سر انجام دیں

نیاز سندھ پولیس کے ان چند پولیس اہلکاروں میں سے ایک ہیں جو کورونا کی پہلی لہر میں اس کا شکار بنے۔

انہوں نے خود کو قرنطینہ میں رکھنے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ ان میں کوئی شدید علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں مگر وہ تنہا رہ جانے اور اس وقت پھیلنے والی افواہوں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو چکے تھے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ابتدائی طور پر وہ بھی کورونا کو مذاق یا جھوٹ سمجھ رہے تھے مگر جب وہ خود اس کا شکار ہوئے اور انہوں نے اپنی طبیعت میں بدلی بدلی علامات دیکھیں تو انہیں یقین ہو چلا کہ کوئی نئی بیماری ان کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔

نیاز نے بتایا کہ جیسے ہی انہیں کورونا ہوا، ان کے بعد ان کے دو تین قریبی رشتے دار بھی اس میں مبتلا ہوئے مگر وہ ان کی وجہ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے کورونا کا شکار ہوئے۔

مجموعی طور پر سندھ پولیس کے ساڑھے 5 فیصد اہلکار کورونا کا شکار ہوئے

انہوں نے بتایا کہ کورونا کا شکار ہونے والے ان کے ایک رشتے دار ڈاکٹر تھے مگر وہ کچھ ہی عرصے بعد وبا کے باعث انتقال کر گئے اور ان کی موت نے سب کی آنکھیں کھولیں اور سب انتہائی محطاط ہوگئے۔

اگرچہ نیاز دو ہفتوں بعد صحت یاب ہوگئے تھے مگر تب سے لے کر اب تک ان کے والدین سمیت ان کے بڑے بھائی بھی کورونا کا شکار بن چکے ہیں۔

نیاز خود سمیت اپنے والدین اور بڑے بھائی کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں کہ وہ کورونا سے بچ گئے، کیوں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے رشتے داروں بلکہ دوستوں اور دوسرے لوگوں کو بھی کورونا سے مرتے دیکھا۔

نیاز کورونا سے صحت یاب ہونے کے بعد دوسری، تیسری اور چوتھی لہر کے بعد تاحال اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں مگر وہ اب زیادہ محتاط ہوچکے ہیں اور وہ اب ہر وقت فیس ماسک پہن کے رکھنے کے علاوہ سماجی فاصلے کو بھی یقینی بناتے ہیں۔

نیاز نے بتایا کہ 2021 کے آغاز میں جیسے ہی کورونا کی ویکسین پاکستان میں آئی اور پولیس کو فرنٹ لائن ورکرز ہونے کی وجہ سے دیگر لوگوں سے پہلے ویکسین لگانے کا کام شروع ہوا تو انہوں نے افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے پہلی فرصت میں خود کو محفوظ کرلیا۔

سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہلکار متاثر ہوئے—— فوٹو: رائٹرز
سب سے زیادہ ٹریفک پولیس اہلکار متاثر ہوئے—— فوٹو: رائٹرز

ان کا کہنا تھا کہ افواہوں کی وجہ سے وہ پہلے ہی کورونا کا شکار ہو چکے تھے اور رشتے داروں کو مرتا دیکھنے کے بعد مزید غلطیاں کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔

نیاز نے خود کو ویکسین لگوانے کے بعد اپنے عمر رسیدہ والدین، بڑے بھائی اور ان کی اہلیہ سمیت اپنی بیوی کو بھی ویکسین لگوائی اور انہوں نے رشتے داروں کو بھی ویکسینیشن پر آمادہ کیا۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے نیاز واحد پولیس اہلکار نہیں تھے جو کورونا کا شکار ہوئے بلکہ وبا سےحیدرآباد کے دیگر 729 اہلکار بھی اس کا شکار بنے، جن میں سے 720 اہلکار صحت یاب بھی ہوئے مگر بدقسمتی سے 6 اہلکار زندگی کی بازی ہار گئے۔

سندھ پولیس کی جانب سے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا کی وبا آنے سے دسمبر 2021 کے اختتام تک 41 پولیس اہلکار زندگی کی بازی ہار چکے تھے اور 22 اہلکار کورونا میں مبتلا تھے، جن کا گھروں اور ہسپتالوں میں علاج جاری تھا۔

سندھ میں پہلا پولیس اہلکار اپریل 2020 کے آغاز میں کورونا میں مبتلا ہوا تھا اور پہلا کیس دارالحکومت کراچی میں رپورٹ ہوا تھا۔

عام افراد کے مقابلے پولیس اہلکاروں میں کورونا میں مبتلا ہونے کی شرح 8 گنا زیادہ رہی

سندھ میں پولیس کے اہلکار 22 مارچ 2020 کو لاک ڈائون کو کامیاب بنانے کے لیے فرنٹ لائن ورکر کے طور پر ڈیوٹیوں پر تعینات کیے گئے اور اہلکاروں کے سڑکوں پر آنے کے کچھ ہی دن بعد پہلا اہلکار کورونا سے متاثر ہوا تھا۔

سندھ کے محکمہ داخلہ نے 10 مئی 2020 کو نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے جہاں لاک ڈائون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا، وہیں نوٹی فکیشن میں پولیس کی تعیناتی اور انہیں دی گئی ذمہ داریوں کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔

اسی دوران ہی حکومت پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرتے ہوئے اس میں پولیس کا کردار اور اس کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کردیا تھا۔

پولیس کی وجہ سے ہی لاک ڈاؤن کامیاب ہوا— فوٹو: اے ایف پی
پولیس کی وجہ سے ہی لاک ڈاؤن کامیاب ہوا— فوٹو: اے ایف پی

اس وقت پوری حکومتی مشینری کی توقعات ہیلتھ ورکرز کے بعد سیکیورٹی فورسز سے تھیں اور پولیس نے لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے کے لیے جب سندھ پولیس کے اہلکار روڈوں پر تعینات کیے گئے تھے اس وقت محکمہ پولیس کے پاس صرف 200 سے بھی کم حفاظتی لباس تھے اور روڈوں پر تعینات کیے گئے اہلکاروں کی تعداد 50 ہزار تک تھی۔

اس وقت سندھ پولیس کے عہدیداروں نے ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس کے پاس صرف 186 حفاظتی لباس ہیں، جنہیں افسران اور اہلکاروں میں تقسیم کیا گیا۔

حفاظتی لباسوں کے بغیر عوام کو روکنے کے لیے سڑکوں پر ڈیوٹیاں کرنے والے اہلکاروں میں اس قدر تیزی سے کورونا پھیلنے لگا کہ 20 اپریل 2020 تک کراچی میں مزید 15 پولیس اہلکاروں میں کورونا کی تشخیص ہوئی تھی۔

بیک وقت 15 پولیس اہلکاروں اور افسران میں کورونا کی تشخیص کے بعد پولیس کی اعلیٰ انتظامیہ نے اہلکاروں کے حفاظتی انتظامات سخت کیے، تاہم اس کے باوجود اہلکاروں کے کیسز سامنے آتے رہے۔

ڈان کو فراہم کردہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں سب سے زیادہ دارالحکومت کراچی کے اہلکار کورونا سے متاثر ہوئے، جن کی تعداد اب تک 2 ہزار 473 تک پہنچ چکی ہے اور کورونا سے انتقال کرجانے والے تقریبا نصف سے زائد اہلکاروں کا تعلق کراچی سے ہی تھا۔

ایک لاکھ 22 ہزار 923 میں سے 6821 اہلکار وبا کا شکار بنے

پولیس کے تمام محکموں میں سب سے زیادہ ٹریفک کا محکمہ متاثر ہوا، جس کے دسمبر 2021 کے آغاز تک 848 اہلکار متاثر جب کہ 4 انتقال کر چکے تھے۔

صوبے بھر میں کورونا سے اب تک 41 اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے 20 کا تعلق دارالحکومت کراچی سے تھا۔

صوبائی دارالحکومت میں جہاں عام پولیس اہلکار کورونا کا شکار ہوئے، وہیں انسپکٹرز سمیت ’سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس‘ (ایس ایس پی) اور ’ڈپٹی انسپکٹر جنرل‘ (ڈی آئی جی) لیول کے افسران بھی اس سے متاثر ہوئے۔

کراچی کے سب انسپکٹر محمد شفیع بھی ان افسران میں سے ایک ہیں جو کہ کورونا کی پہلی لہر کا شکار بنے۔

کراچی کے علاقے اجمیر نگری میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے محمد شفیع بھی 2020 کے وسط میں کورونا کا شکار ہوئے تھے اور زائد العمر ہونے کی وجہ سے انہیں سخت تکلیف بھی پہنچی تھی۔

پولیس اہلکاروں نے سخت حالات کے باوجود ڈیوٹیاں سر انجام دیں—فوٹو: شاہزیب احمد
پولیس اہلکاروں نے سخت حالات کے باوجود ڈیوٹیاں سر انجام دیں—فوٹو: شاہزیب احمد

57 سالہ محمد شفیع نے بتایا کہ وہ ایک ماہ تک کورونا میں مبتلا رہے اور ان میں سخت علامات ظاہر ہوئیں، یہاں تک ان کے گردے اور پھیپھڑے بھی شدید متاثر ہوئے اور کچھ ہفتوں تک انہیں سانس لینے میں بھی پریشانی رہی۔

محمد شفیع کے مطابق ان سمیت دیگر چند ساتھیوں میں بھی بیک وقت کورونا کی تشخیص ہوئی مگر خوش قسمتی سے ان کے اہل خانہ یا رشتے داروں میں سے کوئی اس کا شکار نہ ہوا۔

محمد شفیع نے بتایا کہ ان سے قبل ان کے کم عمر بھانجے جو کہ ایئرپورٹ پر ملازمت کرتے ہیں وہ بھی کورونا کا شکار ہو چکے تھے اور انہیں بیماری کی حساسیت کا علم تھا۔

محمد شفیع کے بھانجے کے علاوہ ان کے بھتیجے جو کہ ڈاکٹر ہیں، وہ بھی کورونا کا شکار بنے مگر خوش قسمتی سے وہ سب ہسپتال جانے سے بچ گئے لیکن زائد العمر ہونے کے باعث محمد شفیع کو ہسپتال داخل کرانا پڑا۔

ایک سوال کے جواب میں محمد شفیع نے بتایا کہ کورونا ہوجانے کے بعد اعلیٰ افسران انہیں فون کرتے رہے اور محکمے نے ہی انہیں گھر سے ہسپتال منتقل کروایا جب کہ کورونا الائونس کی مد میں ان کی مالی مدد بھی کی گئی۔

محمد شفیع کے مطابق کورونا سے صحت یاب ہونے کے بعد انہیں حفاظتی لباس بھی فراہم کیا گیا جب کہ تاحال سینیٹائزرز اور فیس ماسکس بھی محکمے کی جانب سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بھی اس بات پر شکرانے ادا کیے کہ وہ ان اولین افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے کورونا سے تحفظ کی ویکسین لگوائی۔

سب سے زیادہ ٹریفک اہلکار شکار ہوئے، سب سے متاثر ریجن کراچی رہا

محمد شفیع نے بتایا کہ افواہوں کے برعکس انہیں لگتا ہے کہ ویکسین نے زائد العمری کی وجہ سے ان کی سانس لینے میں ہونے والی تھوڑی بہت تکلیف کو بھی بہتر بنایا ہے اور انہیں کسی طرح کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوا۔

نیاز اور محمد شفیع کی طرح دیگر کئی پولیس اہلکار اور افسران بھی کورونا کا شکار ہوئے اور تاحال سندھ پولیس میں نئے کیسز آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سندھ پولیس اب بھی فرنٹ لائن ورکر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی ہے، تاہم اب پہلے جیسے سخت حالات نہیں لیکن اب کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ سے کچھ خوف کی فضا قائم ہونے لگی ہے۔

پولیس کے فرنٹ لائن ورکر کے طور پر حفاظتی لباس کے بغیر کام کرنے پر وبا کے ابتدائی دنوں میں ہی عالمی اداروں سمیت صحت کے معاملات دیکھنے والی تنظیموں نے پولیس کی حفاظت سے متعلق خدشات کا اظہار کیا تھا۔

وبا کے آغاز کے دنوں میں ہی پاکستان پولیس کو درپیش مسائل سے متعلق اقوام متحدہ (یو این) کے ذیلی ادارے یونائٹڈ نیشنز آفس آن ڈرگس اینڈ کرائم (یو این ڈی سی) نے اپنی ایک تجویزی رپورٹ میں تجاویز پیش کرتے ہوئے پولیس فورس کو نہ صرف حفاظتی لباس فراہم کرنے پر زور دیا تھا بلکہ انہیں وبا کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تربیت فراہم کرنے کی تجویز بھی دی تھی مگر ان پر عمل کرنے کے لیے پولیس کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے اور نہ ہی حکومت نے اس ضمن میں کوئی مکمل اور طویل المدتی منصوبہ بندی بنائی، جس وجہ سے سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے پولیس اہلکار بھی کورونا کا شکار ہوئے۔

خواتین پولیس اہلکار

سندھ پولیس سعید آباد کالج سے 2018 میں ٹریننگ مکمل کرنے والے 735 اہلکاروں میں متعدد خواتین بھی شامل تھیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
سندھ پولیس سعید آباد کالج سے 2018 میں ٹریننگ مکمل کرنے والے 735 اہلکاروں میں متعدد خواتین بھی شامل تھیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اگرچہ سندھ پولیس کے 6 ہزار 821 اہلکار کورونا میں مبتلا ہوئے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنی خواتین اہلکار تھیں؟

خواتین اہلکاروں کے کورونا میں مبتلا ہونے اور ان کا ڈیٹا مانگے جانے پر سندھ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل پریس اظہر جوکھیو نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو ایسا ڈیٹا دینے سے معذرت کی۔

اظہر جوکھیو نے کوئی عقلی یا قانونی دلیل دیے بغیر کہا کہ وہ خواتین اہلکاروں سے متعلق ڈیٹا فراہم نہیں کر سکتے۔

خواتین پولیس اہلکاروں کا کورونا سے متعلق ڈیٹا فراہم نہ کرنا ان کی حفاظت سے متعلق سوال اٹھاتا ہے جب کہ ایسے ڈیٹا کی عدم فراہمی صنفی تفریق کو بھی ظاہر کرتی ہے لیکن اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا سے زیادہ تر مرد حضرات ہی متاثر ہوئے ہیں۔

لیڈیز کانسٹیبلز سے متعلق ڈیٹا دستیاب نہیں تھا

اگرچہ سندھ پولیس نے لیڈیز کانسٹیبلز سے متعلق ڈیٹا فراہم نہیں کیا، تاہم ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ سمیت ملک بھر میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد انتہائی کم ہے جو کہ مجموعی طور پر بمشکل 10 ہزار تک ہے۔

کورونا کے آغاز میں ملک بھر میں فیس ماسکس سمیت سینیٹائزرز کی بھی قلت رہی—فوٹو: اے پی پی
کورونا کے آغاز میں ملک بھر میں فیس ماسکس سمیت سینیٹائزرز کی بھی قلت رہی—فوٹو: اے پی پی

نیشنل پولیس بیورو (این پی بی) کے جنوری 2020 کے ڈیٹا کے مطابق اس وقت تک ملک بھر میں صرف 5 ہزار 731 خواتین پولیس میں خدمات سر انجام دے رہی تھیں۔

سندھ پولیس نے سال 2020 میں 1600 جب کہ سال 2021 میں بھی تقریبا اتنی ہی خواتین پولیس میں بھرتی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ڈائریکٹر پریس سندھ پولیس نے جہاں خواتین اہلکاروں سے متعلق ڈیٹا فراہم نہیں کیا، وہیں وہ متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود وہ پولیس کی حالیہ نفری سے متعلق ڈیٹا فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔

پاکستان بھر میں لیڈیز کانسٹیبلز کی تعداد 10 ہزار تک ہے

ایک سوال کے جواب میں اظہر جوکھیو صاحب نے دعویٰ کیا کہ سندھ پولیس کی تمام نفری کی ویکسینیشن مکمل کی جا چکی ہے، تاہم انہوں نے اس ضمن میں بھی کوئی ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

سندھ پولیس کی آفیشل ویب سائٹ پر کورونا کا شکار ہونے والے پولیس اہلکاروں سے متعلق آخری بار ستمبر 2021 میں مختصر پریس ریلیز جاری کی گئی تھی، جس میں متاثرین اہلکاروں کا سرسری ذکر کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں ویب سائٹ پر سندھ پولیس کی حالیہ نفری سے متعلق بھی کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں، پولیس نفری سے متعلق ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا نومبر 2019 کا ہے، جس میں تنخواہ لینے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 22 ہزار سے زائد بتائی گئی تھی اور یقینا جنوری 2022 تک مذکورہ ڈیٹا میں تبدیلی واقع ہوچکی ہوگی۔

سندھ پولیس کے نوجوان لاک ڈاؤن کے دوران ہر وقت سڑکوں پر موجود رہے—فوٹو: اے ایف پی
سندھ پولیس کے نوجوان لاک ڈاؤن کے دوران ہر وقت سڑکوں پر موجود رہے—فوٹو: اے ایف پی