Dawnnews Television Logo

نئی درآمدی پابندی: کیا ماہواری پیڈز خواتین کی دسترس میں نہیں رہیں گے؟

حکومت نے سینیٹری پیڈز میں استعمال ہونے والے خام مال کو غیر ضروری لگژری آئٹمز کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اپ ڈیٹ 27 مئ 2022 05:46pm

ماہواری، ملک کی تقریباً نصف آبادی کے لیے ایک ماہانہ آزمائش ہے، کوئی انتخاب نہیں۔ اس لیے ہم حیران ہیں کہ حکومت کی جانب سے سینیٹری مصنوعات میں استعمال ہونے والے خام مال کو 'لگژری' قرار دیا گیا ہے۔

حالیہ درآمدی پابندی میں حکومت نے سینیٹری پیڈز میں استعمال ہونے والے خام مال کو غیر ضروری لگژری آئٹمز کی فہرست میں شامل کیا ہے جس کی وجہ سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو ہر ماہ درکار چیز سے محروم کردیا گیا ہے۔

سینیٹری نیپکن یا پیڈ پاکستانی خواتین کی اکثریت کے لیے آسان انتخاب ہے۔ پاکستانی سینیٹری نیپکن کی مارکیٹ میں دو بڑے نام ہیں پی اینڈ جی جو آلویز (Always) بناتا ہے اورسینٹیکس جو بٹر فلائے (Butterfly) بناتا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں حکومت کی جانب سے عائد کردہ درآمدی پابندی کے نتیجے میں سخت متاثر ہوئی ہیں۔ `[**دستیاب معلومات**][2]` کے مطابق دونوں برانڈز کا مشترکہ طور پر پاکستان میں سینیٹری نیپکن کے مارکیٹ شیئر کا 84 فیصد حصہ ہے۔

سنگین صورتحال:

بٹر فلائے پیڈز بنانے والی کمپنی سینٹیکس کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد کامران نے ’ڈان امیجز‘ کو بتایا کہ ’اگرچہ ہماری تمام مصنوعات پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں مگر نیپکن کی تیاری میں استعمال ہونے والے دو بنیادی خام مال درآمد کیے جاتے ہیں، اس پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ فیکٹری کو بالآخر بند کرنا پڑے گا کیونکہ ہم ان کو مزید تیار نہیں کرسکیں گے‘۔

انہوں نے بتایا کہ زیر بحث خام مال سیپ پیپر اور ویڈنگ سیلولوز فائبر ہیں جنہیں ایچ ایس کوڈ 4803.000 کے تحت درآمد کیا جاتا ہے، وزارت تجارت کے مطابق جس پر پابندی عائد کی گئی ہے، یہ صرف بنیادی خام مال ہیں جو خواتین کے سینیٹری نیپکن کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، یہ نہ تو ٹشوز ہیں اور نہ ہی لگژری بلکہ ایس آر او کے سیریل نمبر 63 میں شامل ہیں۔

محمد کامران نے خام مال یا نیم تیار شدہ مصنوعات کو غیر منصفانہ طور پر تیار شدہ مصنوعات کی فہرست میں شامل کرنے اور انہیں بطور لگژری اشیا کے طور پر تسلیم کرنے سے اتفاق نہیں کیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی کمپنی اس صورتحال سے کس طرح نمٹ رہی ہے، تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے یونیسیف اور حکومت سندھ سے ملاقات کی ہے، ہمیں کہا گیا ہے کہ چار سے پانچ متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کرکے حکام کو درخواست ارسال کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے وزارت تجارت کو ایک درخواست بھیجی ہے جس کا جائزہ لینے میں 15 سے 20 روز لگیں گے۔ ہم مثبت جواب کی امید کر رہے ہیں۔‘

امیجز نے تبصرے کے لیے پی اینڈ جی پاکستان سے رابطہ کیا لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو، پی اینڈ جی کے پاس 2020 تک 60 فیصد مارکیٹ شیئر تھا اور درآمدی پابندی کے بعد ان کا ردعمل اہم ہوگا کہ ان کی پیداوار اس پابندی کی وجہ سے کتنی متاثر ہوئی۔

ہم یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں گروسری اسٹورز میں موجود آلویز تمام کی مصنوعات مقامی طور پر تیار نہیں کی جاتیں، پاکستان میں پیڈز کی چند ہی اقسام بنائی جاتی ہیں۔

مقامی متبادل:

خواتین کی جانب سے پیڈ کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سے بخوبی واقف ہیں اور اس سے انہیں سہولت ہوتی ہے، اس کے متبادل فائدہ مند ہوسکتے ہیں، خاص کر جہاں تک ماحولیاتی اثرات کا تعلق ہے لیکن وہ بالکل نئے ہیں، جو کسی اور چیز کے انتخاب کو مشکل بنا دیتے ہیں۔

تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپشنز پر غور کرنا شروع کردیں، ایسے میں کہ جب پابندی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر پیڈز کی تیاری ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

اس میں ہمارے پاس دوبارہ استعمال کے قابل کپڑوں کے پیڈ، ماہواری کے کپ اور پیریڈ پینٹیز موجود ہیں۔

کپڑے کے پیڈ:

کپڑے کے پیڈ بنیادی طور پر اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح ڈسپوزایبل پیڈ کرتے ہیں، سوائے اس کے کہ آپ انہیں دوبارہ استعمال کرنے کے لیے ضائع کرنے کے بجائے دھو لیں۔ اس سے پانی اور پیسے کی بچت ہوگی، پلاسٹک اور توانائی کے استعمال کو کم کرے گا، دوبارہ قابل استعمال پیڈز میں کم زہریلے مادے ہوتے ہیں جو کہ ایک محفوظ متبادل آپشن ہے۔

اس کے علاوہ یہ 80 کی دہائی میں ڈسپوزایبل پیڈ متعارف ہونے سے پہلے پاکستان میں خواتین کے استعمال میں تھے۔

’ریڈ کوڈ‘ ایک مقامی کاروبار ہے جو ‘سستی، ماحول دوست اور ثقافتی طور پر ذمہ دار حفظان صحت کی مصنوعات‘ کا ذریعہ فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے، ان کے پاس مختلف سائز اور خاص طور پر ڈیزائن کردہ رات کے وقت کے پیڈز بھی ہیں۔

ماہواری کے کپ:

ماہواری کا کپ بھی قابل استعمال آپشن ہے جو کہ ایک ٹیمپون کی طرح ماہواری کا خون جمع کرنے کے لیے اندام نہانی میں داخل کیا جاتا ہے، جسے دن میں 2 مرتبہ خالی کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، مناسب دیکھ بھال کے ساتھ، ایک فرد ایک کپ کو 6 ماہ سے 10 سال تک استعمال کرسکتا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ انتہائی کفایتی آپشن ہے اور اس کا ماحول دوست ہونے کا اضافی فائدہ بھی ہے۔

’ری سرکل‘ ماہواری کے کپ کا مقامی فروخت کنندہ ہے، جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا درآمدی پابندی کی وجہ سے صارفین نے اس آپشن کی طرف رخ کیا ہے تو جواب نے ہمیں حیران کردیا۔ کمپنی کی شریک بانی واسمہ عمران نے کہا کہ 'ہماری فروخت میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا'۔

اگرچہ ماہواری کے کپ ایک شاندار سرمایہ کاری ہیں لیکن اس کو عملی طور استعمال کرنے کے حوالے سے لوگ اس سے دور ہوتے ہیں۔ ہم نے واسمہ عمران سے پوچھا کہ وہ کسی ایسے فرد سے کیسے بات کرتے ہیں جو پیڈز سے کپ کی طرف آنے سے ڈرتا ہے اور اس عمل کو آسان بنانے کے لیے کیا بتاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہماری ویب سائٹ پر اس عمل کے حوالے سے رہنمائی موجود ہے ہیں اور ہم عمومی طور پر پائے جانے والے خدشات اور سوالات پر ایک سوشل میڈیا سیریز کرتے ہیں، میں ذاتی طور پر ایسا محسوس کرتی ہوں کہ اگر ہمیں بحیثیت خاتون اپنی جسمانی ساخت کے بارے میں جانتے ہوں تو ٹیمپون یا کپ لگانے سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایک نئے صارف کے لیے بہت سے خدشات عام ہیں جیسے 'کیا یہ (کپ) میرے اندر کھو جائے گا؟' جو بنیادی طور پر جسمانی طور پر ناممکن ہے۔ ایک اور بات جو عام طور پر خواتین کرتی ہیں کہ 'جب کپ میری اندام نہانی کے اندر ہوگا تو میں پیشاب کیسے کرسکوں گی؟' درحقیقت انہیں علم نہیں ہے کہ پیشاب کی نالی دراصل اندام نہانی کے اندر ایک مختلف سوراخ ہوتا ہے۔‘

واسمہ عمران نے انکشاف کیا کہ جنسی تعلیم اور تولیدی تعلیم کی کمی کی وجہ سےکپ داخل کرنے کا عمل بہت سی خواتین کے لیے باعث خوف ہوتا ہے، لہذا میں یہ کہوں گی کہ ماہواری کے کپ کے استعمال سے متعلق خدشات کو واضح کیا جائے، یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے تولیدی نظام اور جنسی تعلیم کے بارے میں آگاہی دیں۔

پیریڈ پینٹیز:

پیریڈ پینٹیز سے متعلق زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، یہ وہ پینٹیز ہیں جو آپ اپنی مدت کے دوران کسی اور پروڈکٹ کی ضرورت کے بغیر پہن سکتی ہیں، ہپ آرام دہ ہیں، پیڈ سے زیادہ جذب کرنے والی اور پائیدار ہوتی ہیں۔

اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ بہاؤ والی خواتین کے لیے موزوں آپشن نہیں ہوسکتیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تاثیر کم ہوتی جاتی ہے، جتنا زیادہ آپ انہیں دھوتے ہیں، اتنی ہی تیزی سے وہ اپنی اندرونی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کھودیتی ہیں۔

لوشا ایک مقامی آن لائن شاپ ہے جس میں منتخب کرنے کے لیے کئی آپشن موجود ہیں۔

اگر آپ کو اس کے علاوہ بھی کوئی اور متبادل معلوم ہے تو آپ انہیں کمنٹ سیکشن میں درج کریں۔