Dawnnews Television Logo

یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں

شائقین سوال کر رہے ہیں کہ آخر میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکلا کب؟ لیکن سوال یہ ہے کہ مقابلہ پاکستان کی گرفت میں آیا کب تھا؟
اپ ڈیٹ 29 اگست 2022 12:45pm

اور ایک بار پھر پاکستانی شائقین یہی کہتے رہ گئے

یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں، وہ رہا نہیں


کاش وہ کیچ پکڑ لیا جاتا، اگر اس گیند پر آؤٹ دے دیا جاتا، وہ ریویو ہمارے حق میں جاتا اور اتنے ’کاش‘ اس لیے جمع ہوگئے کیونکہ پاکستان ایڑی چوڑی کا زور لگا کر بھی بھارت کو شکست نہیں دے پایا۔

کیوں؟ اس ایک کیوں کے پیچھے بہت کچھ ہے: ایک کمزور مڈل آرڈر، ناقص فیلڈنگ، فاسٹ باؤلنگ، آل راؤنڈر کی کمی اور سنسنی خیز مراحل میں اعصاب پر قابو نہ رہنا۔


غلطی کی گنجائش نشتہ، لیکن؟


دبئی میں پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش بہت کم تھی، کیونکہ وہ صرف 148 رنز کا ہدف دے پایا تھا۔ جس پچ پر افغانستان نے 106 رنز کا ہدف 11ویں اوور کی پہلی گیند پر حاصل کر لیا تھا، اسی وکٹ پر یہ ہدف کچھ نہیں تھا۔

لو اسکورنگ مقابلوں میں تو ویسے بھی لمحے بھر کی چُوک میچ کا فیصلہ کردیتی ہے۔ لیکن پاکستان نے ’پیٹ بھر کر‘ غلطیاں کیں۔ شروع میں ویراٹ کوہلی کا کیچ چھوڑا، پھر چند مس فیلڈز بھی کیں بلکہ ایک بار تو چوکا بھی دے دیا، پھر پوری فیاضی کے ساتھ 8 وائیڈز سمیت 12 فاضل رنز بھی دیے۔ اس کے بعد بھی میچ آخری اوور تک گیا ہے تو یہ بڑی بات تھی۔


میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکلا کب؟


شائقین سوال کر رہے ہیں کہ آخر میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکلا کب؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مقابلہ پاکستان کی گرفت میں آیا ہی کب تھا؟

گزشتہ سال یہیں، متحدہ عرب امارات ہی کے میدانوں پر ٹی20 ورلڈ کپ میں زیادہ تر میچ ان ٹیموں نے جیتے جنہوں نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی تسلسل ایشیا کپ میں بھی نظر آنے کا امکان ہے اور ہم افغانستان اور سری لنکا کے مقابلے میں دیکھ بھی چکے ہیں کہ کس طرح پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے افغانستان نے سری لنکا کو صرف 105 رنز پر ڈھیر کیا۔ تو شاہین آفریدی کے بغیر کھیلنے والی قومی ٹیم آدھا مقابلہ تو سکّہ اچھالتے ہی ہار گئی تھی۔


کھیل میں اتار چڑھاؤ


پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان نے ابتدائی 4 اوورز میں 16 ڈاٹ بالز کھیلیں اور پاور پلے میں بابر اعظم اور فخر زمان دونوں کی وکٹ بھی کھو بیٹھا۔ پھر معاملات کسی حد تک سنبھل گئے، 12 اوورز میں 87 رنز تک صرف 2 کھلاڑی آؤٹ تھے۔ افتخار احمد کا ہاتھ بھی کھل چکا تھا اور پاکستان آخری 8 اوورز کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر آتا تھا لیکن یہاں ہاردک پانڈیا آ گئے تے چھا گئے۔

انہوں نے نہ صرف 45 رنز کی رضوان-افتخار پارٹنرشپ کا خاتمہ کیا بلکہ 2 اوورز میں ان دونوں سیٹ بلے بازوں کے علاوہ خوشدل شاہ کو بھی چلتا کردیا۔ پاکستان کی آدھی ٹیم اسکور کو تہرے ہندسے تک پہنچانے سے بھی پہلے میدان سے واپس آچکی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب نے اٹھتی ہوئی گیندوں پر وکٹیں دی۔ شارٹ پچ بالز پر پاکستانی بلے بازوں کی کمزوری تو سامنے آئی ہی، ساتھ مڈل آرڈر کی مضبوطی کی قلعی بھی کھل گئی۔


فیصلہ کُن مرحلہ


پاکستان نے میچ مکمل طور پر گنوایا انہی درمیانے اوورز میں، جہاں 13ویں اوور کے آغاز کے بعد صرف 30 گیندوں پر گرین شرٹس نے 5 وکٹیں طشتری میں رکھ کر پیش کیں۔ درحقیقت پاکستان مقابلہ یہیں ہار گیا تھا۔ اگر آخر میں شاہنواز ڈاہانی اور حارث رؤف کچھ بلّے نہ چلاتے تو پاکستان ہرگز 147 رنز تک نہ پہنچتا۔

حیرت کی بات دیکھیے کہ پوری اننگ میں سب سے زیادہ اسٹرائیک ریٹ سے یہی 2 بیٹسمین کھیلے اور انہی کی بدولت پاکستان آخری 5 اوورز میں 47 رنز بنانے میں کامیاب ہوا۔ لیکن جنہیں یہ کام کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا یعنی خوشدل شاہ، آصف علی اور شاداب خان، سب ناکام و نامراد لوٹے۔


باؤلرز کی قد سے بڑی کارکردگی


بھارت نے آخری اوور میں پاکستان کو آل آؤٹ کیا اور اس کے فاسٹ باؤلرز کو تاریخ میں پہلی بار کسی حریف کی تمام 10 وکٹیں ملیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح افغان بلے بازوں نے سری لنکن باؤلنگ لائن کے پرخچے اڑا دیے تھے، پاکستان کا بھی وہی حال ہوتا، لیکن نسیم شاہ کے ابتدائی اوور نے ہی سنسنی پھیلا دی۔ اپنے پہلے ٹی20 انٹرنیشنل کے پہلے ہی اوور میں نسیم نے لوکیش راہُل کو کلین بولڈ کیا اور پھر ویراٹ کوہلی کو بھی سلپ میں کیچ آؤٹ کرا دیتے، اگر فخر زمان کچھ پھرتی دکھاتے ہوئے کیچ پکڑ لیتے۔

بہرحال، ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی باؤلرز نے اپنے قد سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔ نسیم شاہ کے علاوہ محمد نواز کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی، جنہوں نے روہت شرما، ویراٹ کوہلی اور رویندر جدیجا کی قیمتی وکٹیں لیں۔ اگر حارث رؤف 19 ویں اوور میں 3 چوکے نہ کھاتے تو نواز کے پاس آخری اوور میں دفاع کرنے کے لیے صرف 7 رنز نہ ہوتے۔


نئے قانون نے پھنسوا دیا


اگر یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے باؤلرز نے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی، خاص طور پر نسیم شاہ، محمد نواز، شاداب خان اور شاہنواز ڈاہانی نے، لیکن قسمت پاکستان کے ساتھ نہیں تھی، ٹاس سے لے کر آخر میں دیگر عوامل تک۔

مثلاً آخری 3 اوورز میں، جب بھارت کو 32 رنز کی ضرورت تھی اور میچ خاصی حد تک برابر تھا، تب پاکستان کو سلو اوور ریٹ پر پنالٹی پڑ گئی اور سزا یہ ملی کہ وہ دائرے سے باہر 4 سے زیادہ فیلڈرز نہیں رکھ سکتا۔ لگتا ہے یہ نیا قانون پاکستان کو پھنسانے کے لیے ہی بنایا گیا تھا، بہرحال امپائروں کے اس فیصلے نے گویا میچ کا خاتمہ ہی کردیا۔


ایک کے بعد دوسرا زخمی


اس پاک-بھارت مقابلے میں ہمیں ایک عجیب منظر بھی دیکھنے کو ملا۔ سب سے پہلے محمد رضوان، پھر حارث رؤف اور آخر میں نسیم شاہ، سب cramps یعنی پٹھوں میں اینٹھن کی وجہ سے سخت مشکل سے دوچار دکھائی دیے۔ یوں جس وقت پاکستان کو 200 فیصد کارکردگی درکار تھی، کھلاڑی 50 فیصد فٹنس کے ساتھ باؤلنگ کرواتے رہے اور ہاردک پانڈیا اور رویندر جدیجا نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔


ارمانوں پر اوس


ان تمام عوامل کی بدولت پاکستان کے شائقین کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی، جو پچھلے سال ٹی20 ورلڈ کپ والی کارکردگی دہرانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ بہرحال، ایشیا کپ ابھی جاری ہے اور پاک-بھارت مقابلہ دوبارہ بھی ہوگا، الّا یہ کہ ہانگ کانگ کوئی بڑا اپ سیٹ کردے۔

لیکن قومی ٹیم کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا، تبھی وہ آگے بڑھ پائے گی۔ آج وہ خود سے کہیں مضبوط ٹیم کے خلاف چند غلطیوں کی وجہ سے ہاری ہے، لیکن اگر ان پر قابو پالیا گیا تو پھر سپر 4 میں زیادہ اعتماد کے ساتھ کھیلی گی اور کیا معلوم اس شکست کا بدلہ بھی لے لے؟