شائع September 20, 2022

دنیا کے تقریباً تمام اہم ممالک کے سربراہان، مختلف خطوں کے شاہی خاندان، لاکھوں سوگواران اور 10 دن پر محیط تعزیتی تقریبات، یہ سب حصہ تھے ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات کے جن کی بالآخر پیر کو تدفین کردی گئی۔

دنیا بھر میں آخری رسومات کو براہِ راست نشر کیا گیا اور بلاشبہ کروڑوں لوگوں نے تاج برطانیہ پر 70 سال راج کرنے والی ملکہ کی تدفین کا تاریخی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات میں دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت اور وفود شریک ہوئے۔ عالمی رہنمائوں کے علاوہ یورپ کے شاہی خاندانوں کے افراد نے بھی اس تاریخی ایونٹ میں شرکت کی۔ یورپ کے شاہی خاندانوں میں سے ڈچ بادشاہ ولیم الیگزینڈر، بیلجیم کے کنگ فلپ، ناروے کے بادشاہ ہرالڈ پنجم، ڈنمارک کی ملکہ مارگریتھ دوم اور اسپین کے بادشاہ فلیپ ششم، ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات میں شریک ہوئے۔

پیر کے روز ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات کے دوران ویسٹ منسٹر ایبی، اطراف کے علاقوں اور ونڈسر کاسل کے قریب لاکھوں افراد موجود رہے جو ملکہ کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ یہ لوگ صرف اسی موقع پر اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل بھی جب ملکہ کا تابوت ویسٹ منسٹر ہال میں 4 روز تک موجود رہا اس دوران لاکھوں سوگواران نے ان کے تابوت کی زیارت کی اور بہت سے لوگوں کو اس طویل قطار میں 14 گھنٹے تک بھی انتظار کرنا پڑا۔

قطار مختلف اوقات میں گھٹتی اور بڑھتی رہی لیکن مجموعی طور پر اس کی طوالت 4 سے 5 میل رہی اور بے شمار لوگ ٹھٹرتی راتوں میں سرد موسم اور تیز ہوا کے باوجود قطاروں میں موجود رہے۔ چونکہ قطار مسلسل چل رہی تھی اس لیے ان لوگوں کا درمیان میں بیٹھنا اور سستانا ممکن نہ تھا۔ اس موقع پر ملکہ کے تابوت کی زیارت کرنے والوں کے لیے 500 عارضی ٹوائلٹس کا بھی انتظام کیا گیا۔ ویسٹ منسٹر ایبی کے اطراف سیکیورٹی اور ٹریفک کنٹرول کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے تاکہ معمولاتِ زندگی بھی رواں دواں رہیں۔

برطانیہ بھر سے آنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک تاریخی موقع تھا۔ وہ ملکہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرکے ان تاریخی لمحات کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ سابق برطانوی فٹ بال کپتان ڈیوڈ بیکھم لوگوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے جو 12 گھنٹے قطار میں انتظار کے بعد ویسٹ منسٹر ہال کے اندر پہنچے اور ملکہ کے تابوت کا آخری نظارہ کیا۔

انہی کی طرح لاکھوں دیگر افراد بھی اس دوران مسلسل سڑکوں پر رہے، وہ اپنے ساتھ ملکہ کی تصاویر اور پھول اٹھائے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں برطانیہ کا قومی پرچم اور دیگر برطانوی اکائیوں کے پرچم بھی موجود تھے۔

ان راتوں میں خاص کر ایک طرح کی فیسٹیویٹی کا سا سماں تھا۔ اگرچہ ملکہ الزبتھ کی موت سے فضا بوجھل اور سوگوار بھی تھی لیکن ان سے عقیدت رکھنے والوں کی پُرجوش محبت سے ویسٹ منسٹر اور سنٹرل لندن کسی میلے کا سماں پیش کررہا تھا۔ پورے پورے خاندان سڑکوں، فٹ پاتھوں اور پارکس میں موجود تھے۔

ملکہ سے منسوب ہر تاریخی عمارت کے اردگرد پھولوں کی بہتات تھی۔ دوکانوں، شاپنگ سینٹرز، مرکزی جگہوں اور عوامی مقامات پر ملکہ الزبتھ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔ مقامی کونسلز میں دعائیہ تقریبات ہوئیں اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔

جنازے سے قبل آخری رات، یعنی اتوار کو رات 8 بجے ملک بھر میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی جس دوران تمام معمولاتِ زندگی معطل کرکے برطانوی شہری ملکہ الزبتھ دوم کے اعزاز میں خاموش کھڑے ہوئے۔

یہ تو تھا تدفین سے قبل کا احوال جبکہ جنازے کا دن بھی سرگرمیوں اور شاہی روایات کی پاسداری سے بھرپور تھا۔ ملکہ الزبتھ کو اسٹیٹ فیونرل یعنی سرکاری تدفین سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز برطانیہ میں عموماً شاہی خاندان یا سلطنت کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کرنے والے افراد ہی کو دیا جاتا ہے۔ ملکہ الزبتھ سے قبل آخری بار سرکاری تدفین سر ونسٹن چرچل کی ہوئی تھی جنہیں 1965ء میں بھرپور قومی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

پیر کے روز، آنجہانی ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات، شاہی چرچ ویسٹ منسٹر ایبی میں دن 11 بجے کے قریب شروع ہوئیں۔ اس دوران سیکیورٹی کے مثالی انتظامات کیے گئے تھے۔ آخری رسومات میں شور سے بچنے کے لیے کچھ دیر کے لیے پروازیں روک دی گئیں جبکہ ویسٹ منسٹر ایریا کے قریب ترین انڈر گراؤنڈ اسٹیشن بھی بند کردیے گئے۔

ملکہ کا جنازہ، تدفین اور آخری رسومات، تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ انتظامی لحاظ سے بذاتِ خود ایک بہت بڑا اور نمایاں آپریشن تھا۔ حفاظتی اقدامات کے پیش نظر 10 ہزار سے زائد پولیس اہلکار سیکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کےعلاوہ برطانیہ کی دیگر پولیس فورسز سے سیکڑوں اضافی اہلکار طلب کیے گئے تھے۔ بلاشبہ برطانیہ اور دنیا بھر سے لاکھوں سوگواروں کے ساتھ ساتھ سربراہان کی آمد برطانیہ کی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک غیر معمولی چیلنج تھا جسے اس نے بخوبی نبھایا۔

جنازے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سوگواران نے پہلے ہی سے سینٹرل لندن اور جنازے کے روٹ کے اطراف جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ اگرچہ یہ لوگ ملکہ کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن عقیدت کے اظہار کے لیے یہاں موجود تھے۔ چونکہ برطانیہ بھر میں پیر کے دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اس لیے ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد نے ملکہ کے آخری دیدار کے لیے لندن کا رخ کیا۔

ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات دکھانے کے لیے ٹی وی چینلز نے بھی خصوصی انتظام کیے تھے جبکہ برطانیہ بھر میں بہت سے عوامی مقامات اور سینما گھروں میں بھی یہ مناظر براہِ راست دکھائے گئے۔

ملکہ الزبتھ دوم کی میت دعائیہ تقریب کے بعد ویسٹ منسٹر ایبی سے لندن کے ہائیڈ پارک کارنر میں واقع ولنگٹن آرچ کے لیے روانہ ہوئی جہاں سے اسے آخری منزل ونڈسر کاسل لے جایا گیا۔ اس دوران شاہی گارڈز اور برطانوی مسلح افواج کے دستے، چابک دستی اور بھرپور شاہی اعزاز کے ساتھ ملکہ کی میت کے ساتھ چلتے رہے۔

لندن سے ونڈسر کاسل تک قدم قدم پر برطانوی شاہی روایات کے تاریخی نظارے دیکھنے کو ملے، جیسے

  • تابوت کو گن کیرج میں رکھ کر گھوڑوں یا موٹر کے بجائے نیوی کے 142 اہلکاروں کا اپنے ہاتھوں سے کھینچنا،
  • شاہی فوج سے تعلق رکھنے والے مختلف دستوں کی اپنی منفرد وردیوں کے ساتھ جنازے میں شرکت،
  • میت کے اطراف موجود دھنیں بکھیرتے سازندے جن کی دھنوں سے سارا ماحول مزید سوگوار ہوتا رہا،
  • تاریخی گرجا گھروں میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقاریب،
  • میت کے احترام میں دیے گئے گن سیلوٹ،
  • لندن کے تاریخی بگ بین کی وقفے وقفے سے خلافِ معمول بجنے والی مخصوص گھنٹی،
  • شاہی خاندان کے افراد کا میت کے ساتھ پیدل مارچ اور
  • سڑکوں کے اطراف کھڑے، آنسو بہاتے، ملکہ کو یاد کرتے لاکھوں سوگواران۔

ہمارے عہد کے بہت سے لوگوں نے اس سے قبل یہ سب، ایک ساتھ شاید فلموں اور ناولوں میں ہی دیکھا ہو لیکن پیر کے روز یہ خصوصی مناظر لندن کی سڑکوں پر نظر آئے اور میڈیا کے توسط سے پوری دنیا میں دیکھے گئے۔

ونڈسر کاسل پہنچنے کے بعد ملکہ کے تابوت کو سینٹ جارج چیپل منتقل کیا گیا جہاں آخری دعائیہ تقریب منعقد ہوئی۔ اسی دوران ملکہ کی بادشاہت کا اعلان ان کا بارعب تاج اور شاہی چھڑی بھی ان کے تابوت سے الگ کردی گئی اور ملکہ کے تابوت کو رائل والٹ میں اتارا گیا، جہاں اسی شام ملکہ کو ان کے شوہر شہزادہ فلپ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں ملکہ الزبتھ کے والد شاہ جارج ششم، والدہ اور بہن شہزادی مارگریٹ بھی دفن ہیں۔

احمد شاہین

لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔