کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ 2012ء کے بعد دوسری مرتبہ قومی کرکٹ ٹیم کوئی بھی فائنل جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے، اس سے پہلے 2017ء میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی پاکستان نے اپنے نام کی تھی۔

2012ء کے بعد یہ 8واں موقع تھا جب پاکستان کسی بھی ایونٹ میں فیصلہ کن میچ تک پہنچا، مگر اس عرصے میں چیمپئنز ٹرافی کے سوا کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ویسے تو ایشیا کپ کا فائنل جیت کر اس سلسلے کو باآسانی توڑا جاسکتا تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔

سہہ ملکی سیریز کے فائنل میں 164 کے تعاقب میں 14 اوورز کے اختتام تک قومی ٹیم کا اسکور محض 97 تھا اور 3 وکٹیں گر چکی تھیں۔ یہاں جیت کی بہت ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں اور خیال یہی تھا کہ 11 کا مطلوبہ رن ریٹ حاصل کرنا اب مشکل ہوجائے گا، مگر اگلے ہی اوور میں حیدر علی اور محمد نواز نے 3 چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 25 رنز بنالیے اور ایک اوور پہلے مطلوبہ رن ریٹ جو 11 رنز کا تھا، وہ دھڑام سے ساڑھے 8 تک پہنچ گیا۔ بس اس کے بعد ہمارے کھلاڑیوں نے کوئی غلطی نہیں کی اور اس میچ کو باآسانی 5 وکٹوں سے جیت لیا۔

لیکن یہ جیت کبھی بھی اتنی آسان نہیں ہوتی اگر ہمارے باؤلرز نے آخری 5 اوورز میں نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو قابو نہ رکھا ہوتا۔ 15 اوورز کے اختتام پر نیوزی لینڈ نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 130 رنز بنالیے تھے اور خیال یہی تھا کہ اگلے 5 اوورز میں 50 رنز تو بن ہی جائیں گے مگر ہمارے باؤلرز نے ایسا نہیں ہونے دیا اور آخری 5 اوورز میں 4 وکٹیں حاصل کرکے صرف 33 رنز اضافے کی اجازت دی۔

خیر، ورلڈ کپ میں پُراعتماد آغاز کے لیے آج کی جیت ضروری تھی اور نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے اس فائنل میں کامیابی کا سہرا ہمارے فاسٹ باؤلرز اور مڈل آرڈر کو جاتا ہے، جس کو ہم مسلسل کوس رہے تھے۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اصل قصور شاید مڈل آرڈر بلے بازوں کا نہیں بلکہ اوپنرز کا ہے جو خود سیٹ ہونے کے لیے طویل اننگ تو کھیل جاتے ہیں مگر میچ جتوانے کی تمام تر ذمہ داری کم ترین وقت میں مڈل آرڈر پر آجاتی ہے۔

اگر اس سیریز کی بات کریں تو ہمارے ٹاپ آرڈر، یعنی بابر اعظم، محمد رضوان اور شان مسعود نے 343 گیندوں کا سامنا کیا مگر ان تینوں کی جانب سے کوئی ایک چھکا بھی نہیں لگایا جاسکا۔ یاد رہے کہ ہم یہاں ٹی20 کرکٹ کی بات کررہے تھے۔ اسی طرح اگر اسٹرائیک ریٹ کی بات کریں تو یہ بھی 120 سے نیچے کا ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ان تینوں کو پاور پلے کی سہولت میسر رہی، جو بعد میں آنے والوں کو میسر نہیں ہوتی۔

اس موقع پر مجھے سابق کپتان راشد لطیف کا وہ بیان بھی یاد آگیا جو انہوں نے سرکاری ٹی وی پر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی20 رینکنگ کا جو طریقہ کار ہے، اسی میں خرابی ہے۔ ہم اس طرز کی کرکٹ میں بھی ایوریج کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹاپ 10 بلے بازوں کی جتنی بھی رینکنگ آتی ہے ان میں زیادہ تر ابتدائی 3 یا 4 نمبر پر بیٹنگ کرنے والوں کی ہی اجارہ داری ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس لمبی اننگ کھیلنے کی سہولت بھی ہوتی ہے اور پاور پلے کی بھی۔ لیکن نیچے آنے والے ہمیں اس فہرست میں کہیں نظر نہیں آئیں گے جن پر میچ جتوانے کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے اور کئی کھلاڑی اس کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں پھر چاہے ہم بات کریں میتھیو ویڈ کی یا بین اسٹوکس کی۔

انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ اگر پاور پلے کے قوانین میں تبدیلی کی جائے اور 3 اوور شروع میں رکھے جائیں اور 3 اوور آخر میں، تو صورتحال میں کافی تبدیلی آجائے گی۔

ہمارے ہاں اوپننگ اور مڈل آرڈر کی بحث تو شاید چلتی رہے، اور اس تحریر کے ذریعے کسی بھی طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی کہ ہمارا مڈل آرڈر تمام خرابیوں سے پاک ہے، لیکن اس میچ سے ایک بات واضح ہوگئی کہ اگر مڈل آرڈر کو بھی پیر جمانے کی گنجائش اور وقت مل جائے تو وہ اچھا کھیل پیش کرسکتے ہیں۔

یہاں خصوصی طور پر محمد نواز کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ جب سے ٹیم کا حصہ بنے ہیں خاموش سپاہی کے طور پر ہی کام کرتے رہے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی کپتان اور کوچ سے یہ نہیں سنا کہ نواز ہمارا اہم کھلاڑی ہے، حالانکہ اس طرح کے کئی بیانات ہم آصف علی، افتخار احمد اور خوشدل شاہ کے بارے میں سنتے رہے ہیں، مگر نواز نے اپنی پرفارمنس کے ذریعے سب کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے لیے قومی ٹیم کے مرکزی سپاہی ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ بات اب صرف پاکستان میں نہیں ہورہی بلکہ پڑوسی ملک بھارت سے بھی اس طرح کی باتیں شروع ہوگئی ہیں کہ ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے محمد نواز پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے اہم ترین حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ان کی اہمیت پاکستان کے لیے ویسی ہی ہوگئی ہے جیسی بھارت کے لیے ہاردک پانڈیا کی۔

ایشیا کپ سے لیکر نیوزی لینڈ کے خلاف اس سیریز تک محمد نواز باؤلنگ کے ذریعے تو متاثر کر ہی رہے ہیں مگر بیٹنگ سے بھی وہ ٹیم کو اب تک 3 میچ جتوا چکے ہیں۔ ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف ان کی جارحانہ اننگ تو آپ کو یاد ہی ہوگی۔ ورلڈ کپ سے پہلے ان کا اس طرح فارم میں آجانا یقیناً پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔

اسی طرح حارث رؤف نے بھی اپنی کارکردگی میں جو بہتری لائی ہے، وہ بہت زیادہ تعریف کے قابل ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب انہیں رن مشین کہا جاتا تھا، مگر شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں انہوں نے فاسٹ باؤلنگ اٹیک کو انتہائی ذمہ داری سے لیڈ کیا اور اب لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر ورلڈ کپ میں شاہین آفریدی نہ بھی ہوں تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہوتی نظر نہیں آرہی۔

سیریز میں کامیابی کے بعد قومی ٹیم اعتماد کے ساتھ ورلڈ کپ کھیلنے آسٹریلیا روانہ ہوچکی ہے۔ ماضی کے برخلاف اس ٹیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے اور زیادہ تر کھلاڑیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ٹیم سیمی فائنل میں کوالیفائی کرنے کی پوزیشن میں بظاہر نہیں دکھ رہی۔ ممکن ہے آپ اس رائے سے پریشان ہورہے ہوں، مگر میں اس طرح کی تمام تر آرا کو خوش آئند سمجھتا ہوں کیونکہ جب بھی ہم نے قومی ٹیم کو کم یا غیر اہم سمجھا ہے، اس ٹیم نے حیران ہی کیا ہے۔ اس لیے امید یہی رکھنی چاہیے کہ قومی ٹیم اب تک جو غلطیاں کرتے آرہی ہے ورلڈ کپ میں اسے نہیں دہرائے گی اور اچھے نتائج کے ساتھ سب کو حیران کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں