انیس شیوانی
انیس شیوانی

امریکا میں 8 نومبر کو وسط مدتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ ان انتخابات میں ہر سطح پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار فاتح رہے ہیں گے۔

ان امیدواروں میں پنسلوینیا میں سیلیبرٹی ڈاکٹر میحمت اوز، اوہایو میں فلم ’ہل بلی ایلگی‘ کے لکھاری جے ڈی وانس، جارجیا میں فٹبال کھلاڑی ہرشیل واکر اور اری زونا میں وینچر کیپیٹلسٹ بلیک ماسٹرز بھی شامل ہیں۔ سال بھر ان لوگوں کو تقریباً نظر انداز کیا جاتا رہا اور ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا لیکن یہ امیدوار مل کر سینیٹ کا کنٹرول ری پبلکن جماعت کو دلواسکتے ہیں۔ ری پبلکن جماعت اب پہلے سے زیادہ ٹرمپ کے قوم پرست بیانیے کی جماعت بن گئی ہے۔

بڑھتی مہنگائی اور کورونا وائرس کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان موجود ہے۔ اس دوران سینیٹ کا کنٹرول حاصل کرنا ایک محتاط قدم ہوسکتا ہے۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ مشی گن اور نیویارک کے ری پبلکن گورنر شکست کے نزدیک آجائیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ واشنگٹن اور اوریگن جیسی لبرل ریاستوں میں بھی کوئی اپ سیٹ دیکھنے کو ملے۔

مزید پڑھیے: کیا بوسیدہ امریکی جمہوریت زمین بوس ہونے کو ہے؟

ٹرمپ ازم ہمیشہ سے نیو لبرل ازم کے عدم مساوات کا ردِعمل رہا ہے، اس کی سفید فام بالادستی کی جہت کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ درحقیقت یہ اتنی اہم نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جو اضطراب قوم پرستی کی صورت میں سامنے آتا ہے وہ دراصل معیشتوں پر نیو لبرل ازم کی گرفت ختم نہ ہونے کا ایک ثقافتی ردِعمل ہوتا ہے۔

یہی جہت ہے جو ٹرم ازم کو ایک نیا رخ دے رہی ہیں۔ نیو لبرل ازم کبھی بھی معاشی طور پر کمزور طبقے خاص طور پر غریب سفید فام افراد کی تکالیف کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ یہ غریب سفید فام افراد پر نسل پرستی کا الزام لگاتا ہے۔ دراصل نیو لبرل ازم عوامی ردِعمل کو دبانے کے لیے اسی چیز کا سہارا لیتا ہے پھر چاہے یہ ردِعمل دائیں بازو سے آئے یا بائیں بازو سے۔ مزید یہ کہ کورونا وائرس کے بعد سے اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

بائیڈن حکومت نے بھی اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کورونا وائرس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے اس حکومت نے کبھی کسی سنجیدہ ہیلتھ پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ انتہائی غیر مقبول لاک ڈاؤن کے بعد بائیڈن حکومت نے اپنے اقدامات کو صرف لازمی ویکسینیشن تک ہی محدود رکھا۔ بائیڈن حکومت ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر چند سینیٹرز کو بااختیار بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی تاکہ وہ سماجی بہبود کے اس ایجنڈے کو بھی روک سکیں جس کے ساتھ اس حکومت کا آغاز ہوا تھا۔

وسط مدتی انتخابات میں شکست کو دیکھتے ہوئے بائیڈن حکومت نے مہنگائی میں کمی کا ایک ایکٹ پاس کیا ہے۔ یہ دراصل ماحولیات کے حوالے سے بل ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے شاید ہی کوئی کام کرے۔ یہ بل لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکا۔ طالب علموں کے قرض معاف کرنے کے پروگرام کو بھی پہلے سے ہی قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پھر اگر قرضوں کے اصل حجم کو دیکھا جائے کو تو پروگرام اس حوالے سے ناکافی ہے۔

مزید پڑھیے: ’20 جنوری کو ٹرمپ ازم ختم نہیں ہوگا‘

سب سے اہم بات یہ کہ لبرل لوگوں کی جانب سے سب سے زیادہ زور اس چیز پر دیا گیا جسے وہ ’جمہوریت کا دفاع‘ کہتے ہیں۔ ’الیکشن ڈینائل ازم‘ کو روکنے کے لیے سخت سنسر شپ اور ڈس انفارمیشن سے متعلق قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب 6 جنوری کے واقعے کے حوالے سے ہونے والی سماعتیں بھی کسی ایسے شخص پر اثرانداز نہیں ہوسکیں جو پہلے سے ٹرمپ مخالف نہ ہو۔ اکثر لوگ ان سماعتوں کو آمرانہ طور پر حد سے تجاوز کرنے کے زمرے میں لاتے ہیں۔ یہ بالکل وہی چیز کا جس کا الزام لبرل افراد، ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں پر لگاتے تھے۔ ٹرمپ کے فلوریڈا کے گھر پر پڑنے والے چھاپے کو بھی اسی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا جواز قومی سلامتی کو قرار دیا جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کبھی بھی کھلے فاشسٹ نہیں تھے لیکن نیو لبرلز کی جانب سے انہیں یہی قرار دیا جاتا تھا۔ شروع میں تو ان کے پاپولزم اور بائیں بازو کے برنی سینڈرز کے پاپولزم میں کئی چیزیں مشترک تھیں۔ ان میں تقسیم ٹرمپ کے دورِ صدارت میں آئی۔ ٹرمپ آزاد معیشت اور کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی کے حامی تھے، لیکن یہ کسی صورت بھی نیو لبرل ازم کا تسلسل نہیں تھا خاص طور پر تجارت اور ایمگیریشن میں تو بالکل بھی نہیں۔

وسط مدتی انتخابات کے بعد بننے والی صورتحال بھی معاشی آزادی جیسی ہی ہوگی۔ اس میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے بے تحاشہ کام ہوگا، کارپوریٹ ٹیکسوں میں مزید کمی ہوگی، سماجی تحفظ کے پروگراموں کو محدود کیا جائے گا اور سرحدی دیوار کے لیے مزید زور لگایا جائے گا تاکہ استحصال کا شکار مزدوروں کو اسی حالت میں رکھا جائے۔

دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی ٹرمپ کے عروج سے ہی ایک ایسی جماعت رہی ہے جس کی تمام تر توجہ جنگوں اور قومی سلامتی پر رہی ہے۔ وسط مدتی انتخابات میں حکومت کی جانب سے لڑنے والے کسی بھی اہم امیدوار نے یوکرین کی جنگ پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے برعکس ری پبلکنز نے اس جنگ پر کم از کم اپنے سنجیدہ شبہات کا اظہار ضرور کیا ہے اور ایٹمی جنگ کے خطرے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس الٹ دنیا میں بائیں بازو کے لوگ جنگوں کے حامی ہے اور دائیں بازو کے لوگ پیچھے ہٹنے کے۔ دنیا کے لیے تو مؤخر الذکر یہی بہتر ہے اور ایسا ہم ایک اور ہمیشہ جاری رہنے والی جنگ کے آغاز کو دیکھتے ہوئے بتاسکتے ہیں۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ وہ پہلی قابلِ ذکر امریکی شخصیت تھے جنہوں نے چین کے بڑھتے ہوئے غلبے پر آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے اس سے نمٹنے کے لیے چین سے ہونے والی درآمدات محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی اس پالیسی کی جگہ لبرلز نے ’چپ وار‘ شروع کردی۔ اس جنگ کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو کسی کو نہیں معلوم لیکن یہ عالمی غلبے کی دوڑ میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا چین اور امریکا ’تجارتی جنگ‘ کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

نیولبرل ازم مسئلے کی نوعیت بیان کرنے کے بجائے صرف اس قسم کی چالیں ہی چلتا ہے۔ اس دوران ملک میں انسانی وسائل میں بہتری کے اقدامات بھی نہیں کیے جاتے جو قومی برتری کا واحد ذریعہ ہیں۔

ترک نژاد امریکی میحمت اوز یا ایپلاچی اجداد کی اولاد جے ڈی وانس سمیت وہ تمام امیدوار جن کا ابتدا میں ذکر ہوا، خود کو ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First) کے بیانیے میں ڈھال چکے ہیں۔ اس کی وجہ نیو لبرل ازم کے غیر انسانی رویوں کے حوالے سے موجود عدم اعتماد ہے۔ اس غیر انسانی رویے نے صرف سفید فام غربا کو ہی نہیں بکہ ہر نسل سے تعلق رکھنے والوں کو متاثر کیا ہے جو نام نہاد میریٹوکریسی میں داخل نہیں ہوسکتے۔

اس ’سب سے پہلے امریکا‘ کے ایجنڈے کے کئی پہلو افسوسناک ہیں، جن میں سرحدی معاملات، جرائم میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنا اور اقلیتوں کی جانب سے سفید فام افراد کی جگہ لینے والا ’عظیم تبدیلی‘ کا بیانیہ شامل ہے۔ لیکن لبرلز کی بات کی جائے تو وہ پورے قوم پرست نظریے پر ہی غلط لیبل لگا کر اور ہر عوامی ردِعمل کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے قابلِ قبول بنا دیتے ہیں۔

اب 8 نومبر کو ٹرمپ اور ان کے ساتھی اپنا بدلہ لیں گے۔ 2020ء کے انتخابات میں بائیں بازو کی تحریک کو نکال باہر کرکے صدر بائیڈن نیولبرل ازم کے جس جمود کو برقرار رکھنے کے لیے آئے تھے، اس کا اختتام ہوجائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھلے ہی 2024ء میں انتخابات لڑنے کا اعلان کریں یا نہ کریں لیکن ان کی تحریک ایک بڑی فتح حاصل کرے گی۔ پھر ملک بھر کے قانون ساز اس حقیقت سے دوچار ہوں گے جہاں جرائم، ہجرت اور مہنگائی سے مزید سخت اور غیر مہذب انداز میں نمٹا جائے گا۔


یہ مضمون 5 نومبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں