اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کل عالمی کپ کا پہلا دن تھا جب دو گروپ میچ بیک وقت کھیلے گئے۔ دو میچ ایک وقت میں اس لیے کھیلے جاتے ہیں کیونکہ گروپ میچوں کے آخری مرحلے میں ایک میچ کے نتیجے کا اثر دوسرے میچ پر پڑسکتا ہے۔ تو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ٹیمیں دوسرے گروپ میچ کے نتیجے سے لاعلم رہیں، دونوں گروپ میچ بیک وقت کھیلے جاتے ہیں۔

گروپ اے کا فیصلہ کُن میچ تو ایکواڈور بمقابلہ سنیگال تھا جس میں جیتنے والی ٹیم اگلے مرحلے میں اپنی جگہ بناتی۔ لیکن میں نے قطر بمقابلہ نیدرلینڈز کور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ میچ کور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں قطر کے میچ کا ماحول دیکھنا چاہتا تھا اور یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا قطر کے شائقین اپنی ٹیم کا آخری میچ دیکھنے اسٹیڈیم آئیں گے؟

قطر کا میچ البیت اسٹیڈیم میں تھا۔ میں وہاں میچ سے ایک گھنٹے پہلے پہنچ گیا۔ اسٹیڈیم کا ماحول بالکل ایسا نہیں تھا جس کو دیکھ کر لگے کہ شائقین میچ دیکھنے کے لیے پُرجوش ہیں۔ مکمل سناٹا تھا لیکن خیر کچھ کرکے انتظامیہ اسٹیڈیم بھرنے میں کامیاب ہو ہی گئی لیکن قطر کی ٹیم اس میچ میں شکست سے دوچار ہوئی۔

البیت اسٹیڈیم جہاں قطر کا میچ کھیلا گیا— تصویر: لکھاری
البیت اسٹیڈیم جہاں قطر کا میچ کھیلا گیا— تصویر: لکھاری

جب عالمی کپ 2022ء کے لیے گروپ ڈراز کا انعقاد ہوا تھا، اس وقت میں اس ایونٹ کو کور کرنے کے لیے قطر میں ہی موجود تھا۔ اس ڈرا کے نتیجے میں ایران اور امریکا کو ایک گروپ میں جگہ ملی تھی۔ ایسا میچ بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں اتنی زیادہ سیاست ملوث ہو اور ڈرا کے بعد سے ہی سب کو اس میچ کا انتظار تھا کہ کب ان دو ٹیموں کا مقابلہ ہوگا۔ ان کا میچ تھا بھی فیصلہ کُن جس میں جیتنے والی ٹیم اگلے مرحلے میں جبکہ ہارنے والی ٹیم اپنے گھر جاتی۔

بطور صحافی آپ میچ کا تناؤ محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور آپ کے اندر یہ بے چینی ہوتی ہے کہ ہاں آج کچھ مختلف ہونے والا ہے اور کل قطر کے التھمامہ اسٹیڈیم کے اطراف تو ماحول ہی الگ تھا۔

پہلا میچ کور کرنے کے بعد ہم اسٹیڈیم کے باہر سے اس بس میں بیٹھ گئے جس کا انتظام فیفا نے صحافیوں کے لیے کیا تھا۔ پہلا میچ قطر کے وقت کے مطابق 8 بجے ختم ہوا اور بس 8 بج کے 20 منٹ پر ہمیں اسٹیڈیم سے لے کر روانہ ہوئی۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد میں 9 بج کر 20 منٹ پر التھمامہ اسٹیڈیم پہنچا جبکہ ایران اور امریکا کے میچ کا آغاز قطری وقت کے مطابق 10 بجے ہونا تھا۔

اس اسٹیڈیم میں شائقین کا جوش دیدنی تھا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اس عالمی کپ میں ماحول کے لحاظ سے اس سے زیادہ بہترین میچ کوئی نہیں ہوگا۔ اسٹیڈیم ایرانی اور امریکی شائقین سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت جو اسٹیڈیم کا ماحول تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔

ایران اور امریکا کے میچ کا ماحول لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا— تصویر: لکھاری
ایران اور امریکا کے میچ کا ماحول لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا— تصویر: لکھاری

ایک صحافی کی حیثیت سے کہوں تو یہ ایک ایسا میچ تھا جس میں چاہے دونوں میں سے کوئی بھی ٹیم فتح حاصل کرتی، نیوز رپورٹ تو بہت دلچسپ بننے والی تھی۔ لیکن سچ کہوں تو اگر ایران کل کا میچ جیت جاتا تو یہ زیادہ بڑی خبر ہوتی، خصوصاً اس وقت کہ جب ایران اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ اگر ایران پہلی بار راؤنڈ آف 16 میں رسائی حاصل کرلیتا تو حالات کچھ مختلف ہوتے۔

بہرحال امریکا نے بہترین فٹبال کھیلی اور میچ نہایت دلچسپ رہا۔ کچھ ایسے میچ ہوتے ہیں جو یاد رہ جاتے ہیں، ایسا ہی میچ ایران اور امریکا کا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ دونوں ٹیمیں کب مدِمقابل آئیں اور کب ان دونوں کا تناؤ والا میچ شائقین کو دیکھنے کو ملے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ میچ ہمیشہ یادگار رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں