Dawnnews Television Logo

کالاش کی رمبور گھاٹی: بہوک چھت کی گمشدہ راہیں اور ایک ڈائن ندی

یہ سال 2015ء کا مون سون تھا اور میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ چترال کے دورے پر تھا اور انہی دنوں چترال اور سلسلہ کوہِ ہندو کش کا مزاج غیر دوستانہ ہوگیا اور ہم کالاش میں تقریباً 20 دنوں کے لیے محصور ہی کیا بس ’حنوط‘ ہو کر رہ گئے۔
اپ ڈیٹ 13 فروری 2023 10:44am

یہ سال 2015ء کا مون سون تھا اور میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ چترال کے دورے پر تھا اور انہی دنوں چترال اور سلسلہ کوہِ ہندو کش کا مزاج غیر دوستانہ ہوگیا اور ہم کالاش میں تقریباً 20 دنوں کے لیے محصور ہی کیا بس ’حنوط‘ ہو کر رہ گئے۔

گیا تو میں دو شد چسکے میں تھا کہ ایک تو اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کے لیے مواد اکٹھا کرلوں گا اور دوسرا یہ کہ کچھ ٹریک ٹرخانے کا من بھی تھا۔ پر ڈَرن چاچا (کلاشا زبان میں ڈرن سے مراد سیلاب) نے تو ہم کو کالاش کی رمبور گھاٹی کے گروم گاؤں میں باندھ سا رکھا تھا۔

راستے مفقود اور پُل مخدوش تھے اور وادی میں خوراک مسلسل کم ہوتی جارہی تھی۔ خوف کے سائے میرے اندر بھی سرائیت کرتے جارہے تھے کہ میرے ساتھ میرے کمسن (ڈھائی برس سے 11 برس تک کے) بچے بھی تھے۔ وادی رمبور میں گنتی کی چند ہی تو دکانیں ہیں جہاں سے مجھے چاکلیٹ، بسکٹ، نمکو وغیرہ ذخیرہ کرنے کا موقع مل گیا۔

’بعد از سیلاب کَتھا، قصہ مختصر‘ یہ کہ ہم رمبور کی گھاٹی اور کوہِ ہندوکش کی وسعتوں میں باقی پاکستان سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ وہاں میں اپنے مقامی دوست محمد خان حسن کالاش کے روایتی گھر میں مقیم تھا۔ 2، 4 دن میں گروم، کالاش گروم، بالا گرو اور سجی گور تُھن کے کوہستانی گاؤں میں مخدوش حالات کے باوجود اپنی تحقیق کے لیے مواد جمع کرتا رہا۔ بمبوریت اور بریر کی وادیوں کو جاتے سارے راستے مخدوش تھے کہ وہاں تک لے جانے والے جیپ روڈ کو سیلاب کا عفریت بہا کر لے جاچکا تھا ۔

   رمبور گھاٹی کو جاتی جیپ روڈ جسے دریا بہا لے گیا
رمبور گھاٹی کو جاتی جیپ روڈ جسے دریا بہا لے گیا

  بل کھاتی جیپ روڈ جو دریا کی نذر ہوگئی
بل کھاتی جیپ روڈ جو دریا کی نذر ہوگئی

اب میں گھر تو بیٹھا رہ نہیں سکتا تھا کہ وادی میں جاکر ’خانہ بدوشی‘ ٹک کر بیٹھنے دیتی ہے۔ تو بس میں گھر والوں کو نیچے وادی میں چھوڑ کر خود محمد خان حسن کے ساتھ 2 دنوں کے لیے پاک افغان سرحد کے قریب جنگل اور چراگاہوں میں چلا گیا جہاں سے اُمڈ اُمڈ کر سیلاب آرہا تھا۔

ہم دونوں میں طے یہ پایا کہ ایک دن کی مسافت پر بہوک جنگل سے ہوتے ہوئے بہوک چھت (کلاشا میں چھت مراد جھیل) جایا جائے جہاں وادی بھر کے چرواہے اپنے اپنے ریوڑ کے ساتھ بہوک چراگاہ میں موسمِ گرما گزارتے ہیں، ہمیں ان چرواہوں کی سنگی کمین گاہوں میں بس ایک یا 2 راتیں گزارنی تھیں۔

ہونی ہوکر رہتی ہے اور وہ ہوکر رہی کہ گروم گاؤں سے پلاروگ اور پلاروگ سے راہوالیک گاؤں تک جو ٹریک نسبتاً سہل تھا بعد میں وہی آنکھیں دکھانا شروع ہوگیا۔ چیڑ، دیودار اور صنوبری اپسرائیں گھاٹی کی دونوں جانب ندی کے کناروں سے اوپر کو اٹھتی محوِ رقص تھیں۔ مون سون اپنے جوبن پر تھا اور پوری گھاٹی نے سبز ردا اوڑھ رکھی تھی۔ راستے کی بپھری بہوک ندی لپک لپک کر گلے کو آتی تھی اور اس پر قائم لکڑی کے تھرتھراتے پُل ایک ہفتہ پہلے ہی کہیں سے کہیں پہنچ چکے تھے۔

  رمبور گھاٹی کا گروم گاؤں جو روایتی فنِ تعمیر کا مظہر ہے
رمبور گھاٹی کا گروم گاؤں جو روایتی فنِ تعمیر کا مظہر ہے

  بادلوں میں چھپا سلسلہ کوہِ ہندوکش
بادلوں میں چھپا سلسلہ کوہِ ہندوکش

  پلاروگ سے راہوالیک جاتے ہوئے ایک سبزہ زار
پلاروگ سے راہوالیک جاتے ہوئے ایک سبزہ زار

ہم نے بہوک ندی کو 3، 4 بار ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پار کیا، ایک بار حسن کا جوتا ندی کی نذر ہوا تو ایک بار میں بچا اور اچھا خاصا بچا۔ ویسے بڑی خوفناک ندی تھی جو غراتی بھی تھی، دھمکاتی بھی تھی اور جب ہم پاؤں پاؤں اس کو پار کرتے تھے تو اندر ہی اندر سنگ باری بھی کرتی جاتی تھی کہ پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ سنگریزے جیسے گولیوں کی طرح آکر لگتے ہوں۔

جب سہ پہر ہمیں الوداع کر رہی تھی تب ہم مِیکی نِیلی کا ایک بہت چھوٹا سا دیہات پار کر رہے تھے جہاں رمبور گھاٹی کے آخری چند ایک گرمائی گھر ملتے ہیں۔ اس کے بعد جنگل ہوتا ہے اور آپ ہوتے ہیں یا اوپر، بہت اوپر بہوک چھت اور بہوک چھت جانے کی کسک آپ کو کھینچے چلی جاتی ہے۔

حسن کا اصرار تھا کا میکی نیلی ایک چھوٹا سا کوہستانی گاؤں ہے لیکن سرِ راہ مجھے تو 4 سے 5 سنگ و چوب کے گھروں کے ڈھانچے نظر آرہے تھے۔ میکی نیلی تک تو پھر بھی راستے کے نشان تھے، مگر آگے کے تمام نشان بارشوں میں بہہ چکے تھے۔ اب نہ راہ تھی نہ راہ کے نشان، بس سمت کا اندازہ تھا وہ بھی میرے رہبر کو، مجھے نہیں۔

جنگل میں راہ تلاش کرنے میں بکریوں کی مینگنیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں مگر اب کی بار میں کالاش دیس کا ایک انوکھا رنگ دیکھ رہا تھا کہ گزشتہ 2 ہفتوں کی بارشوں نے بہوک کے جنگلوں کی ڈھلوانوں کو بالکل چمکا دیا تھا اور ساری مینگنیاں بہوک ندی کے توسط سے پتا نہیں کس ڈیم کی طرف سفر اختیار کرچکی تھیں۔ نتیجتاً ہم راہ کھوٹی کر بیٹھے، یعنی اب بہوک کے جنگل میں ہم کھوچکے تھے۔

  میکی نیلی گاؤں
میکی نیلی گاؤں

  تراک دالا (بہوک کے ٹریک پر) میں پاکستان سے بجانب افغانستان آخری مسجد اور اس کے نیچے پرائمری اسکول
تراک دالا (بہوک کے ٹریک پر) میں پاکستان سے بجانب افغانستان آخری مسجد اور اس کے نیچے پرائمری اسکول

   بہوک ندی جس نے بارہا ہمارا راستہ روکا
بہوک ندی جس نے بارہا ہمارا راستہ روکا

دیودار اور صنوبر کے اداس جنگل میں شام اترنے کے ساتھ ساتھ میری پریشانی میں اضافہ ہونا ایک لازمی امر تھا۔ حسن کا کہنا تھا کہ ’ہم چھت کے آس پاس ہی تو ہیں بس راستہ کھو گیا ہے‘۔ شام آئی تو ساتھ میں گہرے، گھنے بادل بھی لائی۔ سطح سمندر سے تقریباً 9 ہزار فٹ کی بلندی پر دیودار، چیڑ اور صنوبر کے جنگل میں ٹھنڈ اتر رہی تھی اور بادل اور دھند نے ہماری حدِنگاہ کو تقریباً 15، 20 میٹر تک محدود کردیا تھا۔

کیمپ اور سلیپنگ بیگ ہم ساتھ لائے نہیں تھے کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق ہمیں تو 7، 8 گھنٹوں میں چرواہوں کی جلائی ہوئی آگ کے گرد ہونا تھا اور وہ بھی شام سے پہلے۔ کچے چاول اٹھا لائے تھے کہ چھت پر پکا کر پنیر اور بکری کا گوشت ڈال کر کھانے کا منصوبہ تھا۔ اب تھیلے میں صبح کی 4 سوکھی روٹیاں اور 20 سے کم کھجوریں تھیں، بوتل میں ایک گلاس پانی اور ہاں کچھ سگریٹ تھے تو رات گزارنے کے لیے یہ راشن بہت تھا۔

میری ہمت نے جواب تو کافی دیر پہلے ہی دے دیا تھا مگر اب باقاعدہ انکاری ہوگئی تھی۔ ہمارے پاس موجود ٹارچ بھی دھند کو 5 میٹر سے زیادہ چیر نہیں پا رہی تھا۔ یہ ’قافلے‘ کے مجبوراً قیام کا وقت تھا۔

بس پھر ایک بڑا مہان سا دیودار کا درخت ہماری چھت بنا، صنوبر (جس کو مقامی زبان میں سارس کہا جاتا ہے اور اس کو کالاش میں مقدس درخت مانا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان پر پریاں بسیرا کرتی ہیں) کے پتوں سے حسن نے نرم گداز بستر بنایا اور کیا کاریگری سے بنایا کہ رات بھر کوئی شاخ ذرا نہیں چبھی، دونوں نے مل کر درختوں کی نسبتاً خشک شاخیں اکٹھی کیں اور حسن نے چیڑ کے درخت پر چڑھ کر گوند حاصل کی تاکہ آگ جلائی جاسکے۔

نئی راشن بندی کے بعد ہمارے حصے ایک ایک لکڑ قسم کی سوکھی روٹی، 5، 5 کھجوریں مع کیڑوں کے اور 2، 2 گھونٹ پانی آیا۔ اس کے بعد بہوک کے جنگل کی طویل رات نے ہمارے شگوفے سنے جس میں لوچ کم اور لفڑا زیادہ تھا، ہنسی کم اور سسکیاں زیادہ تھیں کہ وہ زیادہ تر خفی شگوفے تھے۔ مگر منٹو زدہ لطیفے بھی ٹھند کم نہ کرسکے اور ہمیں اپنے اپنے جسم کی حدت بچانے کے لیے بغلگیر ہوکر سونا پڑا۔

ہمارا سارس یعنی صنوبر کے پتوں کے اوپر مگر گھنیرے دیودار درخت تلے یہ ہنی مون عارضی ثابت ہوا کہ صبح کے 4 بجے بادل ہمت چھوڑ گئے اور برس پڑے۔ صبح 9 بجے تک مطلع صاف ہونے کا انتظار کیا کہ چھت کی یاترا مکمل کی جائے پر ازنِ باریابی نہیں ملا اور حسن کا کہنا تھا کہ ’جیسے جیسے بارش بڑھتی جائے گی واپسی میں بہوک ندی مزید وحشی ہوتی جائے گی، تو واپس چلتے ہیں‘۔

  بہوک کے جنگل میں ہماری کمین گاہ جہاں حسن اور میں نے رات گزاری
بہوک کے جنگل میں ہماری کمین گاہ جہاں حسن اور میں نے رات گزاری

  بہوک کے جنگل میں دھند آلود صبح میں اور حسن باسی روٹی گرم کرتے ہوئے
بہوک کے جنگل میں دھند آلود صبح میں اور حسن باسی روٹی گرم کرتے ہوئے

  بہوک کے جنگل سے واپسی پر مصنف کی الوادعی تصویر
بہوک کے جنگل سے واپسی پر مصنف کی الوادعی تصویر

9 بج چکے تھے مگر بادل اب بھی سورج کو باہر نکلنے سے روکے ہوئے تھے۔دھند تھی کہ ہمیں ملفوف کیے ہوئی تھی۔ منظر تھا کہ پس منظر میں تھا، پیش منظر اگر کچھ تھا تو دھند کا راج اور اسی پیش منظر کے بیچ کہیں ہم زیر و زبر ہوئے جا رہے تھے۔

بادل تو دمِ سحری سے اپنے سحر میں لے کر ہمیں جگا چکے تھے اور مسلسل برس رہے تھے، تاہم وہ تیزی بھی نہ تھی کہ ہم بس اپنی کمین گاہ میں ہی چھپے رہتے۔ میرا دل تو بہوک چھت میں اٹکا ہوا تھا جو ہمارے تھوڑا ہی اوپر تھی، مگر راہ سجھائی دے تو۔ میرے رہبر کا دھیان رہ رہ کر بہوک ندی کی خونخواری کی طرف جا رہا تھا اور اس کی نظریں میرے چہرے کو دیکھ کر استدعا کر رہی تھیں کہ پھر آجانا ابھی نیچے چلتے ہیں۔

بس پھر غبار آلود دل اور ایک کسک کے ساتھ ناکامیابی کا ہاتھ تھامے نیچے کا سفر در پیش تھا جو ’اوپر‘ کے سفر سے زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ بارشوں نے ڈھلانوں کو پھسلاہٹ میں خود کفیل کر رکھا تھا اور پاؤں جمنے کا نام تک بھولتے جارہے تھے۔ اگر کچھ دل کو بھانے والا تھا تو وہ قریب میں نظر آنے والا بہوک بن کا نظارہ تھا، دیودار و چیڑ اور شاہ بلوط و صنوبر کے طویل القامت درخت تھے اور ہمارے ہاتھوں سے ذرا اوپر بادل برس برس کر جیسے عطر پاشی کر رہے تھے۔ ہم باقاعدہ طور پر بادلوں سے اوپر بھی تھے اور بادلوں کے بیچ بھی۔

ہم صنوبر و دیودار کے غسل لیے ہوئے جنگل کے درمیان سے نیچے اترتے رہے اور دھند و بادل ہمہ وقت ہمارے ہمراہ رہے۔ جب دو، ڈھائی گھنٹوں کے بعد ہم بلندی سے نیچے اترتے ہوئے ایک تنگ گھاٹی میں موجود راہوالیک ندی پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ کافی حد تک بپھر چکی تھی۔ اس صورتحال نے ہماری پیشانیوں کو شکن آلود کردیا کہ ندی کے دونوں طرف بہت تنگ راستہ تھا، پھسلن تھی اور پچھلے 2 ہفتوں کی بارشوں نے ندی کے دونوں طرف کی چٹانوں اور پہاڑوں کی سختی کو کچھ حد تک نرم کردیا تھا۔

  بہوک سے واپسی پر دھند نے بھی ہمارا راستہ کھوٹا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی
بہوک سے واپسی پر دھند نے بھی ہمارا راستہ کھوٹا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی

  بہوک کے جنگل کی دھند آلود صبح
بہوک کے جنگل کی دھند آلود صبح

  بہوک کا جنگل اور واپسی کے نظارے
بہوک کا جنگل اور واپسی کے نظارے

گاہے بگاہے چھوٹے بڑے پتھر اوپر پہاڑ سے لڑھکتے ہوئے نیچے ندی میں گررہے تھے اور حسن کا خیال تھا کہ اگر کوئی مٹی کا تودہ ہمارے اوپر والی سمت سے ہم پر آتا ہے تو وہ تو خوفناک ہوگا لیکن اگر ندی کی دوسری طرف سے بھی کوئی مٹی کا تودہ ندی میں گرتا ہے تو لامحالہ اس تودے کی وجہ سے ندی کا پانی ہماری طرف بھی اچھلے گا جو خطرناک ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حسن نے باقاعدہ طور پر سخت لہجہ اختیار کرکے مجھے بھاگنے کا کہا اور ہم اس ڈائن قسم کے علاقے سے 10، 15 منٹ میں اس رفتار سے نکلے کہ اسے تقریباً بھاگنا ہی کہا جاسکتا ہے۔

جب آگے چل کر گھاٹی تھوڑی کُھل گئی تو ہم ندی سے ہٹ کر چلنا شروع ہوگئے مگر چلنے سے پہلے میں ایک بڑے سے پتھر پر ڈھیر ہوگیا کہ اترائی اتر کر اور اس ڈائن قسم کے علاقے سے نکل کر میں ذہنی و جسمانی طور پر تھک چکا تھا۔ میں نے بارش میں ہی اس پتھر پر کمر سیدھی کی تاکہ ذرا آرام کے بعد آگے بڑھا جاسکے اور شام سے پہلے گروم نہیں تو کم از کم راہوالیک گاؤں پہنچا جاسکے۔

واپسی ہمیشہ مشکل و تکیلف دہ ہی لگتی ہے اور اکثر مشکلات بھی ہوتی ہیں سو ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ندی کے کٹاؤ نے کچھ راستہ ’کھا لیا‘ تھا اور ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم چٹان کے اس حصے کی طرف جاتے جہاں حسن نے چشموں کا پانی آبادی کی طرف لے جانے والے چینل کو دیکھا تھا اور اس پر چلتے ہوئے بھی ایک جگہ پہاڑ کی دیوار کے ساتھ نیچے کھائی تھی۔ کھائی کے اوپر دونوں طرف کی واٹر چینل کو ملانے کے لیے ایک درخت کا تنا اندر سے کھوکھلا کرکے رکھا گیا تھا اور ہم بھی اس سے ہی پار ہولیے۔

  تنے سے بنے واٹر چینل کو بطور پُل استعمال کیا
تنے سے بنے واٹر چینل کو بطور پُل استعمال کیا

  راہوالیک میں پاکستان کے قومی درخت دیودار کا جنگل
راہوالیک میں پاکستان کے قومی درخت دیودار کا جنگل

  راہوالیک سے بہوک چھت کی طرف کے جنگل کا نظارہ
راہوالیک سے بہوک چھت کی طرف کے جنگل کا نظارہ

  راہوالیک سے رمبور کا شیخاندہ کی طرف کا نظارہ
راہوالیک سے رمبور کا شیخاندہ کی طرف کا نظارہ

تقریباً 5 گھنٹوں کے تھکا دینے والے ٹریک کے بعد ہم راہوالیک میں حسن کے گھر پہنچ گئے جہاں اس کی امّاں جی نے فوراً چائے کے بعد سامنے کھیتوں سے تازہ کدّو توڑ کر لکڑی کی آگ پر ہانڈی دھر دی، مگر میری کمر جیسے ہی چارپائی سے لگی، نیند نے آ دبوچا۔ ایک گھنٹے کی نیند، گرم روٹی، لذیذ سالن، کڑک چائے اور امّاں جی کے خلوص نے اتنا تازہ دم کردیا تھا کہ میں مزید نیچے گروم کا سفر کرسکتا تھا جہاں میرے بچے میرا انتظار کر رہے تھے۔

نیچے اترتے ہوئے میں یہ سوچ کر خوش ہورہا تھا کہ ہم ڈائن ندی کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں مگر واپسی کے سفر پر ابھی ایک امتحان اور مقصود تھا۔ گزشتہ روز ندی کے اوپر جو دو تنے رکھ کر پُل بنایا ہوا تھا وہ آج بہہ چکا تھا اور ندی کا بہاؤ بھی تیز تھا، یعنی ندی میں اتر کر پار کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا۔ فطرت جہاں دل موہ لینے والی ہے وہاں خوفناک بھی بہت ہے لیکن پھر اکثر مشکلات میں مہربان بھی ہوجاتی۔

ہم اور کچھ مقامی افراد (کیونکہ ہم اب چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے قریب تھے، جنگل میں نہیں) پچھلے 10، 15 منٹوں سے ندی کنارے بہہ جانے والے تنوں کی جگہ پریشان کھڑے تھے۔ اتنے میں 2 مقامی افراد اور حسن کو میں نے ندی کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بھاگتے دیکھا۔ سمجھ کچھ نہ آئی کہ کیوں بھاگے، میں بھی پیچھے گیا تو دیکھا کہ وہ ندی میں اوپر سے بہہ کر آنے والے ایک تنے کو (جو جنگل میں کاٹا گیا تھا مگر سیلاب اسے نیچے لے آیا تھا) پکڑنے کی تگ و دو میں تھے اور کچھ دیر میں اس کو قابو کرلیا۔ اگلے 5، 7 منٹ کی جنگ میں انہوں نے اس کو ندی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پتھر لگا کر پھنسا لیا تھا اور یوں ایک ہنگامی پُل تیار تھا جس کے اوپر سے ندی کا پانی گزر رہا تھا اور ہمیں بھی گزرنا تھا۔

  کالاش کا روایتی کھانا
کالاش کا روایتی کھانا

  بہوک ندی کا آخری خوفناک حصہ پار کرتے ہوئے
بہوک ندی کا آخری خوفناک حصہ پار کرتے ہوئے

میں اپنے ڈر کی وجہ سے اسے پار کرنے کو کسی طرح بھی راضی نہ تھا، اتنے میں گروم گاؤں کی طرف سے 2 مضبوط قسم کے شیخان (1896ء میں جب افغانستان میں کافرستان پر امیر عبدالرحمٰن نے قبضہ کرلیا تو کچھ کاتی یا سرخ کافروں نے رمبور کے کُنیشٹ گاؤں میں پناہ لی مگر آہستہ آہستہ سارے کاتی اسلام قبول کرگئے اور ان کو شیخان کہا گیا جبکہ ان کے گاؤں کُنیشٹ کو اب شیخاندہ کہا جاتا ہے) آئے اور تقریباً مجھے زبردستی بہوک ندی ایسے پار کروائی کہ اُس ہلتے تنے پر ایک شیخ میرا ہاتھ تھامے میرے آگے اور دوسرا شیخ میرا دوسرا ہاتھ تھامے میرے پیچھے تھا اور کہہ رہا تھا، ’فکر نہیں کرو مجھے تیرنا آتا ہے‘، لیکن فکر تو یہ تھی کہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا۔


تصاویر بشکریہ لکھاری۔