لکھاری پاکستان کی روایتی صحافت کی محقق ہیں۔
لکھاری پاکستان کی روایتی صحافت کی محقق ہیں۔

2016ء میں گریجویٹ اسکول میں پہلے ہفتے کے دوران میڈیا ایتھکس کی کلاس تھی۔ اس میں پروفیسر چارلس ویٹیکر نے اس موضوع پر گفتگو کی کہ صحافیوں کو سوشل میڈیا کا استعمال کیسے کرنا چاہیے۔

مثال کے طور پر ٹوئٹر پر دی گئی رائے کیا ہم صحافیوں کی ساکھ اور معروضیت کے تصورات کو متاثر کرسکتی ہیں؟ کیا ’ری ٹوئٹ بیان کی توثیق نہیں ہے‘ کو صحافی خود کو بچانے کے لیے محض ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں، امریکا میں کچھ نیوز رومز ری ٹوئٹس کو تصدیق اور توثیق کے طور پر دیکھتے ہیں جوکہ میرے خیال میں ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو اپنے فیصلے خود لینے سے قاصر ہیں۔

بعض اوقات خبر رساں ادارے چاہتے ہیں کہ صحافی اپنے کام کو ٹویٹ کریں، صارفین کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور واپس ویب سائٹ پر ٹریفک لائیں۔ سوشل میڈیا سے پہلے صحافیوں کو ان کاموں کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا پڑتا تھا۔ ان تمام عناصر کو دیکھتے ہوئے اوپر ذکر کیے گئے سوالات کا جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔

گمان ہوتا ہے جیسے پروفیسر ویٹیکر کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں اور یہ گیری لینیکر کی ٹوئٹ پر بی بی سی کے ردعمل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اگر یہ معاملہ آپ کی نظروں سے نہیں گزرا تو آپ کو بتاتے چلیں کہ سابق فٹبال کھلاڑی اور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اسپورٹس براڈکاسٹر گیری لینیکر نے ٹوئٹر پر برطانیہ کی نئی امیگریشن پالیسی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا، اس پالیسی میں تارکینِ وطن افراد کا ملک میں داخلہ روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کی کہ یہ ’ایک بےہودہ اور شدید ظالمانہ پالیسی ہے جس کا شکار اس نظام میں موجود کمزور ترین افراد ہوں گے۔ اس کی زبان 1930ء کی دہائی میں جرمنی میں استعمال ہونے والی زبان سے مختلف نہیں‘۔

ان کے اس ٹوئٹ پر جلد ہی ردِعمل کا اظہار کیا جانے لگا۔ برطانوی وزیرِاعظم رشی سوناک نے ان کی ٹوئٹ کو کچھ یوں بیان کیا کہ ’ایسے شخص کی جانب سے ایسا بیان مایوس کُن ہے جس کی تنخواہ محنت کش برطانوی (لائسنس فیس سے حاصل ہونے والے) ادا کرتے ہیں‘۔ اس کے بعد یک دم گیری لینیکر کی غیرجانب داری بحث کا موضوع بن گئی۔ تاہم محسوس یوں ہوتا تھا جیسے اس غیر جانب داری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔

اگرچہ وہ فری لانس معاہدے کے تحت کام کررہے تھے اور ان پر بی بی سی کے کل وقتی ملازم کے ضوابط کا اطلاق نہیں ہوتا اس کے باوجود 2 دن بعد سوشل میڈیا ضابطوں کی خلاف ورزی پر بی بی سی نے گیری لینیکر کو معطل کردیا۔ پینل میں ان کے ساتھ موجود ساتھیوں اور دیگر اسپورٹس شخصیات نے گیری سے یکجہتی کے لیے بی بی سی پر کام کرنے سے انکار کردیا اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر کافی بحث و مباحثے کے بعد بی بی سی نے گیری لینیکر کو بحال کردیا۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی غیرجانب داری کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس کے ناظرین بھی اسی بات کی توقع کرتے ہیں لیکن میرے خیال سے لائسنس فیس ادا کرنے والے بہت سے ناظرین کھیلوں پر گیری لینیکر کی کمنٹری کو دیکھنا چاہتے ہیں اور شاید انہیں شو کے علاوہ ان کی رائے کی کوئی پروا نہ ہو۔

میں سوچتی ہوں کہ لائسنس فیس ادا کرنے والے ناظرین نے قطر عالمی کپ کے دوران گیری لینیکر کی سیاسی رائے کے حوالے سے کیا سوچا ہوگا جب وہ آن ایئر ٹی وی پر ہم جنس پرستی پر پابندی اور تارکین وطن ملازمین کے ساتھ سلوک پر قطر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ یعنی گیری کو اپنے ٹی وی شو میں سیاست کو صرف اس وقت تک شامل کرنا چاہیے تھا جب تک وہ مالکوں یا حکومت کو بہتر لگے؟ یہ تو منافقت ہے۔

مثال کے طور پر، 2020ء میں اس وقت بی بی سی کی غیرجانب داری کہاں تھی جب کورونا کے دوران اس نے حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکے اور اس کی ہدایات پر ’لاک ڈاؤن‘ کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا؟ یہ 14 مارچ کو گارڈین کی جانب سے رپورٹ کیا گیا جب وہ 2020ء اور 2022ء کے پیغامات اور ای میلز سامنے لائے جس سے واضح ہوا کہ ’اپنی سیاسی رپورٹنگ کے حوالے سے بی بی سی وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے دباؤ میں آرہا ہے‘۔

بی بی سی کے ایک ملازم نے گارڈین کو بتایا کہ ان کی ویب سائٹ پر شہ سرخیوں کا تعین وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے آنے والی کال کرتی ہے۔ بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے ادارتی فیصلے لینے میں خودمختار ہیں اور ان میں کوئی بھی پیغام اس حقیقت کی نفی نہیں کرتا’۔

بی بی سی کے گیری لینیکر کے ٹوئٹ پر ردعمل نے ادارے کی اس غیرجانب داری اور ناظرین کو فراہم کی جانے والی خدمات کا پردہ فاش کردیا ہے جس کا دعویٰ وہ تواتر کے ساتھ کرتا رہتا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست دان اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ کرنے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں جس کے وسیع پیمانے پر نتائج سامنے آئیں گے۔ بی بی سی پہلا عوامی نشریاتی ادارہ ہے اس لیے یہ عوام میں بڑے پیمانے پر اثرورسوخ بھی رکھتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق 2022ء میں اسے ہر ہفتے اوسطاً 48 کروڑ 90 لاکھ بالغ ناظرین نے دیکھا۔ لیکن دنیا کے دیگر خبررساں اداروں کی طرح بی بی سی کو بھی ان متنوع ناظرین کو خدمت فراہم کرنے میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ٹی وی اور ریڈیو پر سوشل میڈیا اور نیٹ فلکس کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ایک آزاد ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر بی بی سی کسی کے کہنے پر کسی میزبان کے بیانات کی مذمت کرنے لگے تو اس آزادی پر سوال اٹھتے ہیں۔

اس وقت ناظرین خبروں سے دوری اختیار کررہے ہیں اور یہی بہترین وقت ہے کہ ہم اپنے غیرجانب داری کے تصور اور اس کے اثرات پر نظرثانی کریں۔ اس کا جواب جو فوری طور پر ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تقریباً ہمیشہ ہی پسماندہ افراد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب لاپتا افراد کو اخبار پر جگہ ان طاقت ور ایجنسیوں کے ساتھ ملتی ہے جنہوں نے انہیں اغوا کیا ہوتا ہے، تو کیا یہ معروضی صحافت کہلائے گی؟

ناظرین کی ضروریات کو منصفانہ انداز میں پورا کرنے کے لیے شاید ضروری ہے کہ ہم آزاد صحافت کے لیے آواز بلند کریں۔ سیاسی اور کمرشل دباؤ سے آزاد عوامی میڈیا، ایک باخبر معاشرے کی تشکیل میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے اور یوں یہ جمہوریت کی حفاظت بھی کرتا ہے۔

رائٹرز انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’عوامی خدمت کے میڈیا کے سیاسی خبروں اور سیاسی معلومات کے حصول پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ بتدریج سیاسی شراکت میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں‘۔ اس طرح کے میڈیا کو لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 19 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں