Dawnnews Television Logo

کیا فوجی عدالتیں سویلیئنز کو انصاف فراہم کرسکتی ہیں؟

'چاہے عام شہریوں پر کتنے ہی سنگین الزامات کیوں نہ لگے ہوں، فوجی عدالت میں ان کا ٹرائل انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی توہین ہے'۔
شائع 17 مئ 2023 08:24pm

ایک ہفتے میں جاری کی گئی اپنی تیسری پریس ریلیز میں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے تصدیق کی کہ فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث افراد کے مقدمات ’پاکستان کے متعلقہ قوانین، بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ‘ کے تحت چلائے جائیں گے۔ یوں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد گردش کرنے والی افواہیں درست ثابت ہوئیں۔

سادہ الفاظ میں کہا جائے تو فوج راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹر پر حملے اور لاہور میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ میں ملوث ’منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، سہولت کاروں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں‘ پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔

اگرچہ اس حوالے سے تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئی ہیں لیکن جب 2015ء میں فوج کو عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالت میں چلانے کی اجازت دی گئی تھی تب سے ہی فوجی عدالتوں کے طریقہ کار کے حوالے سے کافی بحث ہوتی آرہی ہے۔

جنوری 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں دہشتگردی کے ملزمان کے مقدمات 2 سال کے لیے فوجی عدالت میں چلانے کو قانونی قرار دیا۔ یہ فیصلہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد لیا گیا تھا جس میں 144 افراد جاں بحق ہوئے جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس اقدام کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے ’پارلیمنٹ کی آخری سانس‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 60 ججوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کمیشن کا اس اقدام کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پاکستان کے آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952ء میں ترامیم کے ذریعے عام شہریوں تک فوجی دائرہ اختیار لاگو کردیا گیا ہے‘۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یہ اقدام ’انسانی حقوق اور ان کی بنیادی آزادیوں سے پیچھے ہٹنے‘ کے مترادف ہے۔

   پی اے اے میں ہونے والی ترامیم
پی اے اے میں ہونے والی ترامیم

اسی اقدام کے تحت پارلمینٹ نے پی اے اے میں ترمیم کرتے ہوئے ایک چوتھی کٹیگری بھی شامل کی جس میں سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی شق کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے دائرہ کار میں وہ ملزمان آئیں گے جو مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث ہوں گے۔

  • فوجی افسران یا تنصیبات پر حملے
  • اغوائے برائے تاوان
  • دھماکہ خیز مواد ، آتشیں اسلحہ، خودکش جیکٹ یا دیگر مواد رکھنا، ذخیرہ کرنا یا منتقل کرنا۔
  • دہشتگرد حملوں کے لیے گاڑیاں استعمال کرنا یا ڈیزائن کرنا
  • کسی کو زخمی کرنا یا قتل کرنا
  • دہشتگرد حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ رکھنا
  • کسی بھی طرح سے ریاست یا عام شہریوں کو خوفزدہ کرنا
  • پاکستان میں دہشت اور عدم تحفظ پیدا کرنا
  • مندرجہ بالا کسی بھی اقدام کے پاکستان کے اندر یا باہر ارتکاب کی کوشش
  • مندرجہ بالا کسی بھی اقدام کے لیے فنڈز فراہم یا وصول کرنا اور
  • ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا

تاہم ترمیمی بل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف صرف وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

البتہ اس ترمیمی بل میں پی اے اے کے سیکشن 133 کے حوالے سے خاموشی اختیار گئی جو اعلیٰ عدالتوں میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل کرنے سے متعلق ہے۔ پی اے اے کے تحت عوامی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل کی سماعت کریں۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی سزاؤں پر نظرثانی کا اختیار ضرور رکھتی ہے اور یہ ہم متعدد مقدمات میں دیکھ بھی چکے ہیں۔

فوجی عدالتوں کے فعال ہونے کے دو سال بعد 2017ء میں ان کے اختیارات میں مزید دو سال کی توسیع کردی گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) برسرِاقتدار تھی۔ ایسا 23ویں ترمیم کے ذریعے کیا گیا جس کی مدت 30 مارچ 2019ء تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ اس کے بعد سے فوجی عدالتوں کے اختیارات میں کوئی توسیع نہیں کی گئی۔

درحقیقت دو اعلیٰ عدالتوں، پشاور ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے طریقہ کار پر سخت جائزوں کے بعد فیصلے جاری کیے۔ پشاور ہائی کورٹ نے مختلف مواقع پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت 270 افراد کے فوجی عدالتوں میں مقدمات میں سزاؤں کو ختم کردیا اور ان عدالتی کارروائیوں کو ’حقائق اور بدنیتی پر مبنی‘ قرار دیا۔

فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر تنازعات

2020ء میں پشاور ہائی کورٹ نے مزید 200 افراد کی سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے رولنگ دی کہ فوجی عدالتوں نے ملزمان کو ان کی مرضی کا وکیل فراہم نہ کرکے پی اے اے کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

شاید پشاور ہائی کورٹ کے ان دو فیصلوں میں سے 2018ء کا فیصلہ زیادہ روشن خیال ہے جس میں نظام کو نقصان پہنچانے والے ایسے بہت سے مسائل کو اجاگر کیا جن کے ذریعے ملزمان پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سب سے پہلے ملزم کے وکیل کی اہلیت پر سوال اٹھایا۔

ملزمان کو فراہم کردہ وکلا کو ’ڈمی‘ قرار دیتے ہوئے عدالت کے ٹرائل کو ’مکمل پروسیکیوشن شو‘ کہا اور ملزمان کو ان کے دفاع کے لیے مرضی کے وکیل نہ دینے کو ان کے ’قانونی اور بنیادی حقوق فراہم کرنے سے انکار‘ کے طور پر بیان کیا۔

اس کے بعد عدالت نے یہ سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان تمام مقدمات میں ملزمان کے اقبالی بیانات ہی بنیادی ثبوت ہیں۔ اپنے فیصلے میں، پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ اعترافِ جرم کے قانون میں بیان کردہ طریقہ کار کی فوجی عدالتوں میں خلاف ورزی کی گئی، اور اس کے نتیجے میں سزاؤں کو درست قرار دینے کے لیے ثبوت کے طور پر صرف اقبالی بیانات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

پشاور ہائی کورٹ فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کو 2019ء میں آئی سی جے کی ایک رپورٹ میں بھی اٹھایا گیا جس میں واضح کیا گیا کہ ’عدالت نے یہ مشکوک پایا کہ پنجاب کے ایک وکیل نے تمام ملزمان کی وکالت کی جبکہ سزا پانے والے ملزمان کے اہلِ خانہ ’مہنگے اور تجربہ کار وکلا‘ چاہتے تھے تاکہ ملزمان کی سزاؤں پر ہائی کورٹ میں نظرثانی کی جاسکے۔ فوجی عدالت میں اپنے ٹرائلز کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر صرف 5 یا 6 سالہ تجربہ رکھنے والے وکیل کی نمائندگی پر‘رضامندی’ ظاہر کی تھی۔

آئی سی جے نے یہ بھی کہا کہ 173 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں اور فوجی عدالتوں کی کارروائیوں میں تعلق کو اجاگر کیا جبکہ اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ’بہت سے مقدمات میں، فوجی عدالتوں‘ میں چلنے والے ٹرائلز کے ذریعے جبری گمشدگیوں اور حراستی مراکز میں خفیہ نظربندیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی’۔

آخر میں پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائیوں کی نوعیت، سزاؤں میں من مانی اور ملزم کے خلاف مجرمانہ شکایات کے اندراج سے لےکر اس کے خلاف حتمی فیصلے تک پورے عمل کی رازداری پر سوال اٹھایا۔

بعدازاں پشاور ہائی کورٹ کے حکم کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس نے ہائی کورٹ کو حکم نامے جاری کرنے سے روک دیا لیکن یہ فیصلہ برقرار رکھا کہ وہ مقدمات کا فیصلہ میرٹ پر کرسکتی ہے۔

فوجی عدالتوں کی بحالی

پشاور ہائی کورٹ کے جائزے اور احکامات پہلے ہی سب کے سامنے ہیں، ایسے میں حکومت کے لیے فوجی عدالتوں کی ایک بار پھر پشت پناہی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لیکن کیا انہیں بحال کرنے کے لیے کسی نئی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے؟

وکیل عبدالمعیز جعفری کے مطابق ’وہ پاکستان آرمی ایکٹ کی تشریح کو فوجی تنصیبات پر مربوط حملے کی آڑ میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے‘۔

درحقیقت پنجاب کی نگراں حکومت نے تو پہلے ہی سرکاری اور نجی املاک کے ساتھ ساتھ فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بھی 2015ء میں پی اے اے میں کی گئی ترامیم کے خلاف ہے جس میں فوجی عدالتوں کو پابند کیا گیا کہ وہ کسی سویلین کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے قبل وفاقی حکومت سے لازمی منظوری لیں۔ عبدالمعیز جعفری نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر صوبائی حکومت اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے۔ شاید یہ آرٹیکل 245 کے ضمن میں ہو، جو صوبوں کے لیے فوج کی سول پاور کی درخواست کی مدد سے متعلق ہے‘۔

   آئین کا آرٹیکل 245
آئین کا آرٹیکل 245

ان کا خیال ہے کہ اگر عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں تو ’یہ ایک غیرمنصفانہ ٹرائل ہوگا کیونکہ جب کوءی بھی اعلیٰ عدالت اس عمل کو سنے گی جس کے تحت ان سویلینز کو عدالت فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا تو وہ سماعت کے 5 منٹ کے اندر ہی اس مقدمے کو ختم کردیں گی‘۔ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی جانب بھی اشارہ کیا جس میں فوجی عدالتوں کے طریقہ کار کو ’غیر منصفانہ‘ اور ’دہشت گردی کے مقدمات میں دی گئیں سیکڑوں سزاؤں کو کالعدم‘ قرار دیا تھا۔

وکیل بے نظیر جتوئی نے بھی عبدالمعیز جعفری کے مؤقف سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’اس اقدام سے سویلین عدالتوں کو نقصان پہنچے گا اور صرف عدلیہ ہی نہیں بلکہ تمام اداروں کو خطرات لاحق ہوں گے‘۔

بیرسٹر اسد رحیم نے ’ایک وسیع اتفاق رائے کی جانب اشارہ کیا جس کی تاریخ ڈائیسی (معروف قانون دان) کے دور تک جاتی ہے۔ وہ یہ ہےکہ جب تک عوامی عدالتیں فعال ہیں تب تک عام شہریوں پر مقدمہ فوجی ٹربیونلز کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا۔

’کچھ متنازعہ مستثنیات بھی ہیں جیسے جسٹس منیر نے لاہور فسادات 1953ء کے عمر بنام ریاست مقدمے میں اس کے لیے ضرورت کا حوالہ دیا۔ 2015ء میں چند مخصوص برسوں کے لیے فوجی عدالتوں سے متعلق ترمیم لائی گئیں۔ لیکن اسے سپریم کورٹ سے انتہائی مشکل سے پاس کیا گیا کیونکہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور آصف سعید کھوسہ سمیت دیگر ججوں نے سخت اختلاف ریکارڈ کروائے۔

’اب اس ترمیم کی معیاد ختم ہونے کے باوجود 1999ء میں شیخ لیاقت حسین بنام فیڈریشن میں قائم کردہ نظیر آج بھی ہمارے ملک میں لاگو ہے۔ چیف جسٹس اجمل میاں کی طرف سے تحریر کردہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 245 یہ حکم دیتا ہے کہ فوج سول طاقت کی مدد کے لیے کام کرسکتی ہے،نہ کہ اسے ختم کرنے کے لیے۔

’اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں پر مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ فیصلہ حتمی تب ہوا جب 2015ء کے آخر میں سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نظر ثانی کی اپیل واپس کردی‘۔

وکیل ریما عمر نے ٹویٹ کیا کہ ’چاہے عام شہریوں پر کتنے ہی سنگین الزامات کیوں نہ لگے ہوں، فوجی عدالت میں ان کا ٹرائل انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی توہین ہے‘۔

وکیل مرزا معیز بیگ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو معمول سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اسے عام طور پر انسانی حقوق اور خاص طور پر آئین میں موجود حقوق کی توہین کہا جاسکتا ہے‘۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’عام اصول یہ ہے کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ارکان یا دشمن کے جنگجوؤں یا ’جنگ میں پکڑے جانے والے دشمنوں‘ کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے مخصوص ہیں۔ جہاں تک عام شہریوں کے جرائم کا تعلق ہے تو سول عدالتیں جوکہ عام فوجداری عدالتیں ہیں انہیں ایسے مقدمات کی سماعت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے‘۔

مرزا معیز بیگ نے آئین کی 21ویں اور 23ویں ترمیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے 1990ء کی دہائی میں دیکھا تھا کہ جب بعض مجرموں کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئی تھیں تب سپریم کورٹ نے ایسی فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں اے پی ایس واقعے کے بعد جب سیاسی جماعتوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فوجی عدالتیں بنانے یا عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ لیا تو پارلیمنٹ نے اس کے لیے آئین میں ترمیم کی۔ اس آئینی ترمیم نے فوجی عدالتوں کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ محدود نوعیت کے جرائم کے لیے بھی عام شہریوں کا ٹرائل کرسکتی ہیں‘۔

مرزا معیز بیگ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جہاں تک فوجی تنصیبات پر حالیہ حملوں کا تعلق ہے تو یہ حملے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مثال کے طور پر پی پی سی کا سیکشن 123 بی کسی بھی سرکاری عمارت پر حملے یا قومی پرچم کو ہٹانے سے متعلق ہے۔ اسی طرح پی پی سی کا سیکشن 132 مسلح افواج کے خلاف بغاوت اور دیگر جرائم کی حوصلہ افزائی کرنے کے جرم سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 146 ہنگامہ آرائی سے متعلق ہے۔ پی پی سی کے دیگر سیکشنز غیر قانونی اجتماع کی مختلف اقسام سے متعلق ہیں۔

’پی پی سی ان تمام جرائم کا احاطہ کرتا ہے اور عام فوجداری عدالتوں میں بھی اس کی سماعت ہوسکتی ہے، ان جرائم کے لیے عام شہریوں کا آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل شاید خلاف آئین ہوسکتا ہے، خاص طور پر آرٹیکل 10 سے جوکہ منصفانہ ٹرائل سے متعلق ہے‘۔ مرزا معیز بیگ نے مزید کہا کہ فوجی عدالت کے تحت شہریوں پر مقدمہ چلانے کی کسی بھی کوشش کو اعلیٰ عدالتیں ناکام بنا سکتی ہیں۔


یہ مضمون 16 مئی 2023ء کو ڈان پریزم میں شائع ہوا۔