’حساس معلومات‘ کی ہیکنگ کی کوششیں، وزیراعظم آفس کا عہدیداروں کو انتباہ

اپ ڈیٹ 25 اگست 2023
پی ایم او کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر موبائل ہیکنگ لنکس بھیج کر بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی: فائل فوٹو
پی ایم او کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر موبائل ہیکنگ لنکس بھیج کر بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی: فائل فوٹو

حکومت نے سرکاری اہلکاروں کو ’حساس معلومات‘ حاصل کرنے کی کوششوں سے خبردار کرتے ہوئے چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ ہیکنگ کی کوششوں کا سراغ لگایا گیا ہے۔

وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں نے حساس معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں سینئر سرکاری اہلکاروں کے موبائل فون کو ہیک کرنے کی کوشش کا پتا لگایا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کوششوں کے پیچھے عناصر نے سینئر سرکاری عہدیداروں کے طور پر شناخت ظاہر کرتے ہوئے جعلسازی کے طریقوں کا استعمال کیا۔

وزیراعظم دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملوث عناصر نے سینئر سرکاری افسران کے نام پر، ریاستی حکام اور بیوروکریسی سے حساس معلومات حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔

پی ایم او کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر موبائل ہیکنگ لنکس بھیج کر بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے تمام ریاستی عہدیداروں کو چوکس رہنے اور ایسے کسی بھی پیغام کو نظر انداز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

حکام کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس طرح کا پیغام ملنے پر فوری طور پر کابینہ ڈویژن کو الرٹ کریں۔

پی ایم او کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں اس معاملے پر پوری طرح چوکس ہیں۔

خیال رہے کہ جولائی کے شروع میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے وزارت داخلہ کو ڈیٹا کی خلاف ورزی کی مشترکہ تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی جس نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شہریوں، خاص طور پر فوجی حکام کا ڈیٹا لیک ہونے پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔

وزیراعظم دفتر میں سیکورٹی کی خلاف ورزی

گزشتہ سال ستمبر میں اہم حکومتی شخصیات بشمول اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور وفاقی کابینہ کے بعض ارکان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی کئی آڈیو ریکارڈنگز لیک کی گئی تھیں۔

ریکارڈنگ کا مواد وزیر اعظم کے دفتر میں غیر رسمی گفتگو کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔

سب سے پہلے، سابق وزیراعظم شہباز شریف کی ایک ریکارڈنگ منظر عام پر آئی جہاں وہ ایک نامعلوم اہلکار سے پاور پروجیکٹ کے لیے بھارتی مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کے امکان پر بات کر رہے تھے جو کہ مریم نواز کے داماد راحیل کے لیے تشویش کا باعث تھا۔

ایک دن بعد مزید ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں جو کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق تھی۔

ایک آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں مریم نواز اور شہباز کے درمیان ہونے والی گفتگو منظرعام پر آئی، جس میں مریم نواز کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ وہ نہیں جانتی کہ مفتاح کیا کر رہے ہیں، اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اسحٰق ڈار کی واپسی کی خواہش کا اظہار کیا۔

ایک اور آڈیو کلپ مبینہ طور پر شہباز شریف، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایاز صادق کے درمیان بات چیت کا تھا جس میں وہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

تیسرے کلپ میں مبینہ طور پر سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی کے حوالے سے مریم نواز اور شہباز کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تھا۔

شہباز شریف نے آڈیو لیکس کے منظر عام پر آنے کو انتہائی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں آڈیوز کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو بھی ایک خط لکھا تھا اور آئین کے آرٹیکل 14 سمیت عوام کے بنیادی حقوق کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں