Dawnnews Television Logo
—ہیڈر: فیس بک
—ہیڈر: فیس بک

پی ایس ایل 9: ’فائنل تو بس عماد وسیم کا تھا‘

یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلام آباد کی ٹیم تو جاگی ہی پلے آف کے بعد۔ پہلے پلے آف سے اس نے نیا جنم لیا اور خود کو تاجدار ثابت کیا۔
شائع 19 مارچ 2024 11:55am

کراچی میں مارچ کی شام کچھ کچھ خنک ہوتی ہے۔ ہوا میں ہلکی سی نمی فضا کو خوشگوار بنائے رکھتی ہے لیکن پیر کی شام ملتان سلطانز کے لیے گرم ترین ثابت ہوئی۔

ملتانی ویسے تو گرد آلود گرم ہوا کے عادی ہوتے ہیں اور ان کے لیے کراچی کا موسم اجنبی بھی نہیں تھا لیکن شہر اقتدار سے اپنی پہچان بنانے والی اسلام آباد یونائیٹڈ نے ملتان سلطانز کے بلے بازوں کے لیے زمین گرم کردی اور وہ بیٹنگ کے شہسوار جن کے سموں کی دھمک نے دوسری ٹیموں کے لیے میدان شکست کا غار بنادیا تھا، یونائیٹد کے سامنے بے سرو سامان ڈھیر ہوگئے۔

ملتان سلطانز نے جو رنگ اور ترنگ گروپ میچز میں بکھیری تھی، جب منزل پر پہنچنے کا لمحہ آیا تو ناپید ہوگئی۔ منزل کے سامنے سلطانز کی کشتی ہی نہیں ڈوبی اور ساتھ ہی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی کی بحث کا ایک جز بھی فارغ ہوگیا۔


سلطانز کی منفی خود اعتمادی


ملتان سلطانز نے جس دھماکے دار انداز میں نویں ایڈیشن کا آغاز کیا تھا اس نے ہر کرکٹ کے شائق کو متاثر کیا تھا۔ بیٹنگ میں محمد رضوان تو ملتان کے سرخیل ہمیشہ سے ہیں لیکن گزشتہ ایڈیشن کی دریافت عثمان خان نے ہر میچ میں رنز کے انبار لگادیے۔ انہوں نے ایک جانب جہاں دو سنچریاں بناکر پی ایس ایل کا ریکارڈ قائم کیا وہیں انہوں نے ہر میچ میں بہترین پارٹنرشپ بھی بنائی لیکن بدقسمتی سے فائنل میں وہ کارکردگی یادگار نہ بنا سکے۔

نیشنل اسٹیڈیم کی پچ زیادہ مشکل نہیں تھی لیکن دونوں اوپنرز یاسر خان اور محمد رضوان ٹیم کو اچھا آغاز نہ دے سکے۔ ملتان نے حیرت انگیز طور پر اپنے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی اور ڈیوڈ ولی کو غیر ضروری طور پر ون ڈاؤن بھیج کر غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا۔ حالانکہ عماد وسیم بہت اچھی اسپن باؤلنگ کررہے تھے، ایسے میں کسی اچھے بلے باز کی ضرورت تھی لیکن اس تبدیلی نے دوسرے بلے بازوں پر بھی دباؤ پیدا کیا۔ جونسن چارلس اور خوشدل شاہ کی ٹیم میں شمولیت بھی سوالیہ نشان تھی کیونکہ دونوں مسلسل خراب چلی آرہی تھی۔

اگر افتخار احمد فائنل میں اچھے شاٹ نہ کھیلتے تو شاید اسکور 159 تو کیا 140 تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ بینچ پر اچھے بلے باز موجود ہونے کے باوجود جس طرح ملتان نے خوشدل شاہ کو سر پر چڑھائے رکھا، اس کی قیمت ملتان نے فائنل میں وصول کرلی۔


اسلام آباد یونائیٹڈ کی خوش قسمتی


اگر پی ایس ایل 9 کے تمام میچز کا جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد انتہائی خوش قسمت ٹیم نظر آتی ہے جو کئی میچز اس وقت جیت گئی جب ہاتھ سے بازی نکل چکی تھی۔ مخالف ٹیم کی جلد بازی اور عجلت نے اسلام آباد کو پلے آف مرحلے تک پہنچادیا۔ وہ پلے آف میں پہنچنے والی آخری ٹیم تھی جو شاید پہنچ بھی نہ پاتی اگر کراچی کنگز صرف ایک میچ اور جیت لیتی۔ لیکن اسلام آباد نے ملنے والے موقع کا مکمل فائدہ اٹھایا اور پلے آف سے فائنل تک کا سفر اپنی بھرپور کارکردگی سے طے کیا۔

یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلام آباد کی ٹیم تو جاگی ہی پلے آف کے بعد۔ پہلے پلے آف سے نیا جنم لیا اور خود کو تاجدار ثابت کیا۔

اسلام آباد کی ٹیم میں جہاں شاداب خان نے عمدہ کپتانی کی تو دیگر کھلاڑیوں نے بھی جم کر ان کا ساتھ دیا۔ بیٹنگ میں مارٹن گپٹل اور نسیم شاہ نے باؤلنگ میں کپتان شاداب خان کو مایوس نہیں کیا۔ گپٹل نے تینوں میچز میں ایک طرف سے بیٹنگ کو سنبھالے رکھا۔ اعظم خان نے بھی وقتِ ضرورت جارحانہ بیٹنگ کی جبکہ وہ کیپنگ میں بھی چھائے رہے۔


فائنل تو بس عماد وسیم کا تھا


مسلسل تین میچز میں مین آف دی میچ کا اعزاز عماد وسیم کے لیے شاید ان کی کارکردگی کے ساتھ ناانصافی تھی کیونکہ انہوں نے اس وقت اپنی باؤلنگ اور بیٹنگ کے جوہر دکھائے جب ناقدین انہیں ٹیم پر بوجھ کہہ رہے تھے اور کراچی کنگز سے ان کی رخصتی کو غنیمت جان رہے تھے۔

عماد وسیم جو پی سی بی سے شدید ناراض ہیں اور قومی ٹیم کے سپر اسٹارز سے بھی ان کے اختلافات ہیں، وہ اس پی ایس ایل میں ایک منفرد کھلاڑی کے طور پر نظر آئے۔ باؤلنگ میں ان کی نپی تلی باؤلنگ اور بیٹنگ میں پُراعتماد جارحانہ بیٹنگ نے کھیل کا رخ اس طرح بدلا کہ حریف انگشت بہ دانداں ہوگئے۔

پشاور زلمی کے خلاف دوسرے پلے آف میں وہ ناقابلِ تسخیر بلے باز نظر آئے اور فائنل میں بھی اس وقت اپنے مکمل حواس اور اعتماد سے کھیلتے رہے جب ہدف تک پہنچنا مشکل ہوگیا تھا۔ نسیم شاہ کے ساتھ 30 رنز کی پارٹنرشپ نے ہی میچ کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیا ورنہ کچھ دیر کو تو ملتان کی سلطانی چمکنے لگی تھی۔

عماد وسیم نے فائنل میں پانچ وکٹیں لے کر ایک اور نیا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ 5 وکٹیں لینے والے پہلے بائیں بازو کے اسپنر بن گئے۔ عماد وسیم کی باؤلنگ کی بدولت ہی اسلام آباد نے تینوں فائنل میچز میں حریف ٹیم کو بڑا اسکور کرنے سے باز رکھا۔ تیز اسپن باؤلنگ نے ان کے ابتدائی ایام کی باؤلنگ کی یاد تازہ کردی۔


اسلام آباد تیسری دفعہ چیمپیئن


  اسلام آباد یونائیٹڈ نے تیسری بار پی ایس ایل ٹرافی اپنے نام کی—تصویر: فیس بک
اسلام آباد یونائیٹڈ نے تیسری بار پی ایس ایل ٹرافی اپنے نام کی—تصویر: فیس بک

اسلام آباد یونائیٹڈ تیسری دفعہ چیمپیئن بننے والی پہلی پی ایس ایل ٹیم ہے۔ 2016ء اور 2018ء میں چیمپیئن بننے والی ریڈ فورس کے لیے یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ اسلام آباد نے پہلے دونوں اعزازات تو اس وقت حاصل کیے جب ٹیم بہت مضبوط اور انتہائی متوازن تھی لیکن نویں ایڈیشن میں اسلام آباد کو کمزور ترین ٹیم تصور جارہا تھا جس کی باؤلنگ کمزور جبکہ بیٹنگ لائن بوڑھوں پر مشتمل کہی جارہی تھی لیکن اسی ریڈ فورس نے تمام اندازے غلط ثابت کیے اور سب کو مات دے دی۔

خاموشی سے اپنی ٹیم بنانے والے ٹیم اونر علی نقوی اور ان کی اہلیہ کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ کسی بڑے دعوے اور فین کلب کے بغیر تیسری دفعہ اعزاز انہوں نے یہ ٹرافی اپنے نام کی۔ شاداب خان کی کپتانی نے بھی سب کو متاثر کیا جو دوسرے کپتانوں کی نسبت مطمئن نظر آئے اور شکست کے لمحات میں بھی اپنے اعصاب پر قابو رکھا۔


اختتامی تقریب اور فلسطینی پرچم


بدقسمتی سے پی سی بی اختتامی تقریب کو یادگار نہ بناسکا۔ ایوارڈ دینے والی فوج کے علاوہ کچھ نیا نہ تھا۔ فائنل میں جتنے انعامات نہیں تھے جتنے اسٹیج پر انعام دینے والے افراد موجود تھے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ جہاں اختتامی تقریب مہمانوں کا مجمع عام لگتی ہے۔

لیگ کے بہترین بلے باز بابر اعظم اور بہترین آل راؤنڈر صائم ایوب کو مدعو نہیں کیا گیا حالانکہ صائم ایوب تو کراچی میں ہی تھے۔ اسی طرح یہ تقریب افراتفری کا شکار نظر آئی۔ کسی پاکستانی اینکر کے بجائے آسٹریلین ایرن ہالینڈ سے میزبانی کروانا احمقانہ اقدام تھا، مناسب ہوتا اگر عروج ممتاز یا زینب عباس میزبانی کرتیں جبکہ رمیز راجہ کو چند جملوں کے لیے ایک گھنٹہ تک کھڑا رکھا گیا۔ ان کے اسائنمنٹ میں محض شاداب خان اور عماد وسیم سے چند لمحوں کی بات چیت کرنا تھی۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے چند کھلاڑیوں نے میچ کے بعد فلسطین کے پرچم اٹھاکر گراؤنڈ میں مارچ کیا۔ شاید یہ ایک غیر متعلقہ امر تھا لیکن تماشائیوں نے بھرپور داد دی۔

نویں ایڈیشن کا فائنل ہو پہلا موقع تھا کہ جب کراچی کا اسٹیڈیم ہاؤس فل رہا۔ ہر طرف تماشائیوں کے ہجوم نے فائنل کو یادگار تو بنادیا لیکن سیاسی نعروں نے پی سی بی کو مجبور کردیا کہ میچ میں تماشائیوں کی لائیو آواز روک دی جائے۔

مجموعی طور پر فائنل میں کراچی نے مایوس نہیں کیا۔ عوام کی بھرپور شرکت نے ان ناقدین کو خاموش کروادیا جو گروپ میچز میں اسٹیڈیم خالی رہنے پر کراچی سے میچ ختم کروانا چاہتے تھے۔ تاہم کراچی کے شائقین نے ثابت کردیا کہ وہ صرف فیصلہ کن بڑے میچز کے شوقین ہیں۔ تاہم اسٹیڈیم میں سہولیات کی عدم دستیابی اور گندگی کے باعث پی سی بی کو نیشنل اسٹیڈیم کے انتظام کو بہتر کرنا ہوگا۔

اگر پی ایس ایل کا نواں ایڈیشن اگر اسلام آباد کے عماد وسیم اور شاداب خان کے نام کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا جن کی شاندار کارکردگی نے ریڈ فورس کو خوشی سے نہال کردیا ہے۔ شہر اقتدار جہاں سورج غروب ہونے سے پہلے ہی خاموشی پھیل جاتی ہے، وہاں جشن کا سماں ہے اور ہر سو ٹرافی کی چمک دمک پھیل رہی ہے۔