ایرانی مصنوعات کی مقبولیت میں اضافہ، صارفین کیا کہتے ہیں؟

ایرانی مصنوعات درآمد شدہ دیگر بین الاقوامی مصنوعات کے مقابلے میں 50 فیصد سستی ہوتی ہیں جبکہ کچھ معاملات میں یہ ہماری مقامی مصنوعات سے بھی زیادہ سستی اور معیاری ہوتی ہیں۔
اپ ڈیٹ 26 اپريل 2024 11:14am

چند سال قبل میں نے اپنے دوست کے گھر ڈنر کیا جو ایران کے شہر مشہد کے دورے سے واپس لوٹا تھا۔ کھانے کے بعد اس نے مہمانوں کو دوغ (ایرانی لسی) پیش کی۔ یہ مشروب بہت تازگی بخش تھا، اس لیے میں نے فوراً اپنے دوست سے پوچھا کہ میں اسے کہاں سے خرید سکتا ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یا تو مجھے اس کے چچا کے ایران سے واپس آنے کا انتظار کرنا ہوگا یا میں لیاری کی مارکیٹس میں جاسکتا ہوں جہاں اس کے مطابق ایرانی مصنوعات دستیاب تھیں۔

چند دنوں بعد میں لیاری گیا اور چند دیگر ایرانی مصنوعات بھی دریافت کیں جیسے کیک، چپس اور بسکٹس لیکن مجھے دوغ نہ مل سکا۔

  ایرانی لسی جسے دوغ کہا جاتا ہے
ایرانی لسی جسے دوغ کہا جاتا ہے

میں دوغ کے بارے میں بھول گیا تھا اور پھر 2020ء میں کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا۔ گوگل سرچ کے بعد مجھے پتا چلا کہ کوئٹہ کی بڑیچ مارکیٹ میں ایرانی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ جب میں اس مارکیٹ پہنچا تو مصنوعات کی مختلف اقسام دیکھ کر میں حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ وہاں مجھے نہ صرف دوغ ملی بلکہ دیگر مصنوعات جیسے جیم، چیز، مکھن، دودھ، اچار وغیرہ بھی ملا۔ آپ بس نام لیں اور وہ چیز ان کے پاس موجود تھی۔

میں لہسن کا اچار، ہری مرچوں کا اچار، دوغ کے کریٹس، انجیر اور اسٹرابیری جیم کی بڑی بوتلیں، فلیورڈ کریم چیز اور نوگٹ (ایک مٹھائی جو شکر، شہد، میوے اور انڈے کی سفیدی سے بنائی جاتی ہے) خرید کر گھر آیا۔ میں وہ سب لے آیا جو میرے سوٹ کیس میں آرہا تھا اور میں حیران تھا کہ یہ سامان کس قدر سستا ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ ایک بار یہ اسٹاک ختم ہوجائے تو میں دوبارہ کوئٹہ جاؤں گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے اتفاق دیکھیے کہ چند ماہ بعد کراچی کی دکانوں میں ایرانی مصنوعات کی فروخت شروع ہوگئی۔ آج یہ مصنوعات ایم اے جناح روڈ یا حب ریور روڈ، ہر جگہ دستیاب ہیں۔

  ایران سے درآمد شدہ زیتون
ایران سے درآمد شدہ زیتون

ایک دن میں کراچی ڈیفنس کے خیابانِ بخاری میں واقع ایک مارٹ میں گھریلو اشیائے خورونوش خریدنے گیا تو میں نے وہاں ایرانی سینی ٹائزر کی بوتلیں اور سوربن کی چھوٹی چاکلیٹ کونز دیکھیں۔ وہاں موجود ایک دوسرے صارف سے میری گفتگو ہوئی جنہوں نے ایرانی مصنوعات کراچی میں ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ’میرے بچے ایرانی لسی اور کینڈیز بہت پسند کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے میں نے ڈیفنس میں ایک اسٹور دریافت کیا جہاں دکاندار کے کے پاس چاکلیٹس، کریم، فیٹا چیز، کھانا پکانے کا تیل، سلاد میں ڈالنے والا ساس اور ایران سے درآمد شدہ کلیننگ مصنوعات بھی دستیاب تھیں۔ میں نے وہاں سے بڑی تعداد میں اشیائے خور ونوش خریدیں کیونکہ وہ انتہائی سستی قیمت پر دستیاب تھیں‘۔

  سوربن کی چاکلیٹ کی چھوٹی کونز
سوربن کی چاکلیٹ کی چھوٹی کونز

صارف نے کہا کہ وہ معمول کی بنیاد پر ایرانی مصنوعات خریدتے ہیں کیونکہ یہ معیاری ہوتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر درآمد شدہ بین الاقوامی مصنوعات کے مقابلے میں 50 فیصد سے زیادہ سستی ہوتی ہیں جبکہ کچھ معاملات میں یہ ہماری مقامی مصنوعات سے بھی سستی ہوتی ہیں۔

ایک اور صارف جوکہ 3 بچوں کی والدہ ہیں، وہ بھی ایرانی مصنوعات کی مداح بن چکی ہیں۔ وہ یوٹیوب شوق سے دیکھتی ہیں اور اسی پر انہوں نے انفلوئنسرز کو ایرانی مصنوعات کے بارے میں بات کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی انہیں خریدنے کے بارے میں سوچا۔ وہ سولجر بازار میں واقع ’لاہمو‘ اسٹور گئیں جہاں انہیں ایرانی مصنوعات کی بڑی کھیپ ملی۔ سب سے پہلے انہوں نے صبح ناشتے میں کھائے جانے والا کریم چیز خریدا۔ انہوں نے کہا، ’میری فیملی چیز بہت پسند کرتی ہے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے چیز انتہائی مہنگی ہوچکی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایرانی اسٹور میں موجود تمام اشیا مقامی برینڈز سے بہتر تھیں اور درآمد شدہ مصنوعات سے قدرے سستی بھی تھیں‘۔

نمائش چورنگی پر واقع دعا جنرل اسٹور کے مالک رضوان نے کہا کہ انہوں نے دو سال قبل ایرانی مصنوعات کی فروخت کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت پہلی بار لاک ڈاؤن لگا تھا۔ ان کے مطابق ایسی مصنوعات سالوں سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن اسٹورز میں انہیں فروخت نہیں کیا جاتا تھا۔ آج وہ ایران سے درآمد شدہ برتن دھونے کا محلول، کپڑے دھونے کا ڈیٹرجنٹ، کھانا پکانے کا تیل، چیز، جیمز اور زیتون اپنی دکان میں رکھتے ہیں۔

  ایرانی اسٹرابیری جیم
ایرانی اسٹرابیری جیم

رضوان کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں لوگ سستی مصنوعات کی تلاش میں تھے تب ایرانی مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ڈیفنس، کے ڈی اے، ناظم آباد حتیٰ کہ بحریہ ٹاؤن سے بھی صارفین آتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر ان مصنوعات کی درآمدات کو ریگولائزڈ کردیا جائے تو یہ مزید کم قیمت میں فروخت ہوں گی۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ان کے صارفین میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رضوان نے کہا کہ ’میرے کچھ صارفین تو لاہور میں اپنے رشتہ داروں کے لیے دوغ کے کریٹس خرید کر لے کر گئے ہیں‘۔

اور اگر اس کے بعد بھی ایرانی مصنوعات کی مقبولیت کے حوالے سے کوئی شکوک باقی ہیں تو یہ کافی ہے کہ متعدد فیس بُک پیجز، داراز ڈاٹ پی کے اور او ایل ایکس جیسی ویب سائٹس پر بھی ایرانی مصنوعات فروخت کی جارہی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔