—ہیڈر: ایکس

کیا پاکستان سپر لیگ اپنی مقبولیت کھو چکی ہے؟

پی ایس ایل کی غیر مقبولیت کو ماہرین قومی ٹیم کی تباہی اور بدترین کارکردگی سے بھی موسوم کررہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کرکٹ سے بددل ہوگئے ہیں۔
شائع May 29, 2025

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دسویں سیزن کا فائنل بخیر و خوبی ہوچکا۔ لاہور قلندرز نے تمام تجزیے رد کرکے چیمپیئن بن کر دکھا دیا کہ کرکٹ اندازوں، تجزیوں، اعداد و شمار یا بیک ڈور تعلقات سے نہیں کھیلی جاتی بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور مکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ وقت گزر گیا جب بڑے نام ہی میچ کی جیت کے ضامن ہوتے تھے، اب وہ وقت ہے جو سکندر ہے وہی قلندر ہے۔

سکندر تاریخ کا وہ دیومالائی کردار ہے جس نے خوابوں کو حقیقت بخشی اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اگر سکندر کا کردار انسانی تاریخ سے محو ہوجائے تو شاید جوش و جذبے کا رنگ بھی پھیکا پڑجائے۔ اسی طرح لاہور قلندرز میں سے سکندر رضا کا کردار ہٹادیں تو ٹیم نامکمل رہتی ہے۔

سکندر رضا کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو وہ عزم و حوصلہ کا پیکر نظر آتے ہیں۔ زمبابوے میں خود کو منوانا اور قومی ٹیم تک پہنچنا آسان بات نہیں ہے کیونکہ زمبابوے کرکٹ پر گوروں کا قبضہ ہے اور ٹیم پوری کرنے کے لیے مقامی کھلاڑی بھی شامل کرلیے جاتے ہیں۔ پھر چند سال قبل سکندر ایک عجیب بیماری کا شکار ہوئے تو لگتا تھا اب نہیں کھیل پائیں گے لیکن وہ واپس آئے اور پہلے سے زیادہ بہتر کھلاڑی بن گئے۔

لاہور قلندرز کے ساتھ ان کا سفر اور پھر فائنل میں ڈرامائی انداز میں ان کے پہنچنے کی کہانی بہت زیادہ لکھی اور پڑھی گئی ہے جسے دہرانا یہاں مقصد نہیں۔ سب سے اہم بات ان کی لگن اور منزل تک پہنچنے کی جستجو تھی۔ شاید قلندرز انتظامیہ ان تمام مراحل کو پہلے سے ہی تیار کرچکی تھی اور اسی لیے وہ مقررہ وقت پر پہنچ گئے۔ اور جیت کے معمار بھی بن گئے۔

  سکندر رضا لاہور قلندرز کی جیت کے معمار بنے—تصویر: اے ایف پی
سکندر رضا لاہور قلندرز کی جیت کے معمار بنے—تصویر: اے ایف پی

اس بات سے قطع نظر کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے باؤلرز نے کس قدر خراب باؤلنگ کی اور قلندرز کو موقع فراہم کیا کہ وہ اپنا مشن پورا کریں، سنسنی خیز لمحات میں بیٹنگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جو قلندرز کے لیے بھی مشکل تھا۔ تاہم قسمت کی دیوی نے اس ٹیم کو دھوکا دیا جس نے گروپ میں سب سے زیادہ میچ جیتے، پلے آف کھیل کر سیدھا فائنل میں پہنچی لیکن کشتی کو کنارہ پر لنگر انداز نہ کرسکے اور دوچار ہاتھ پہلے ہی غرق ہوگئی۔

لاہور قلندرز کی جیت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ شاید وہ اس کے مستحق بھی ہیں لیکن ان کی جیت میں اہم کردار ان کھلاڑیوں کا رہا جو پاکستانی نہیں تھے جیسے ڈیرل مچل، کوشال پریرا، راجہ پکسا اور ارشد حسین نے ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

پی ایس ایل فرنچائزز کا آخری سال

پی ایس ایل کا یہ دسواں سال تھا جوکہ سال فرنچائزز کا آخری سال تھا اور اب آئندہ سال انہیں اگر فرنچائزز برقرار رکھنے ہیں تو نئی نیلامی میں حصہ لینا ہوگا۔ نئی نیلامی میں بہ ظاہر یہی مالکان سامنے ہوں گے لیکن ملتان سلطانز کے مالک علی ترین اعلان کرچکے ہیں کہ وہ مزید اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس کی کیا وجہ ہے وہ تو ظاہر نہیں کی لیکن اس کی نوعیت اور مقبولیت کو انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ شاید وہ پی ایس ایل انتظامیہ کی مالکان کے ساتھ سخت رویہ اور انتظامات سے خوش نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر محنت فرنچائز مالکان کرتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نہیں کرتا۔

  حالیہ سیزن میں فرنچائز مالکان کی دلچسپی بھی کم نظر آئی
حالیہ سیزن میں فرنچائز مالکان کی دلچسپی بھی کم نظر آئی

کچھ ایسے ہی جذبات کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر کے بھی ہیں۔ وہ بھی شاید اب اس کھیل کا حصہ نہ بنیں۔ جبکہ پشاور زلمی کے مالک بھی اس سال غیر حاضر رہے۔ ان کی دلچسپی بھی مدہم پڑ گئی ہے۔

انتظامیہ کی نااہلی

اکثریت کا خیال ہے کہ پی ایس ایل نے ہر گزرتے ہوئے سال میں اپنی مقبولیت کھو دی ہے۔ اپنے پہلے 4 سال دبئی میں ہونے کے باوجود پی ایس ایل ایک مقبول ترین ایونٹ تھا۔ لوگ دبئی دیکھنے جاتے تھے اور گھروں میں ٹی وی پر جنونی انداز میں میچز دیکھتے تھے لیکن اب یہ حال ہوگیا ہے کہ اسٹیڈیمز خالی پڑے ہیں۔ لوگ گھروں پر بھی میچز نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر فائنل کو فہرست سے نکال دیا جائے تو ہر میچ میں اسٹیڈیم 25 فیصد بھی نہ بھر سکے۔

اس کی کیا وجہ ہے یہ تو پی سی بی خوب جانتا ہے۔ نااہل انتظامیہ جس نے پی ایس ایل کی کوئی پبلسٹی کی اور نہ اس کی غیر مقبولیت کا تدارک۔ پی ایس ایل کے عہدیدار اپنی ذاتی پبلسٹی میں مصروف رہے۔ ایونٹ سے قبل ٹرافی مختلف شہروں اور تعلیمی اداروں میں لے جائی گئی جوکہ دنیا بھر میں یہی روایت ہے لیکن کہیں بھی ایونٹ کا سربراہ خود ٹرافی نہیں لے کر جاتا مگر سی ای او صاحب اپنی پبلسٹی کے لیے خود ہر جگہ پہنچے جس نے خراب تاثر دیا اور لوگ متنفر ہوگئے۔

پی ایس ایل کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ اسپانسرز کی بھرمار نے شاید آمدنی بڑھادی ہو لیکن تقسیم انعامات میں ہر چھوٹے بڑے اسپانسر کو کھڑا کرکے ایونٹ کی سنجیدگی اور وقار کو ختم کردیا۔ فائنل میں میچ کے بعد تقسیم اعزازات میں ہر اسپانسر اور انتظامیہ کو کھڑا کرکے تقریب کو سرکس بنادیا گیا۔ مناسب ہوتا اگر صرف مہمان خصوصی اور چیئرمین کرکٹ بورڈ کے ساتھ سب سے بڑے اسپانسر حبیب بینک کو رکھا جاتا جس سے تقریب کاوقار بڑھتا اور دیدہ زیب ہوتی۔

فائنل کی تقریب میں اینکرز کا انتخاب بھی پراسرار تھا۔ جس اینکر کو اردو بولنے کے لیے کہا گیا ان کے تلفظ اور ادائیگی پر انسان صرف ہنس سکتا تھا۔ وہ آخر تک فیصلہ نہ کرسکے کہ اردو میں انگلش بولوں یا انگلش میں اردو۔ رواں پی ایس ایل کو میڈیا نے بھی بہت کم توجہ دی شاید اس کی وجہ ملکی حالات ہوں لیکن انتظامیہ نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی اور روایتی انداز میں اس کی کوریج ہوتی رہی۔

کیا قومی ٹیم کی تباہی ایک وجہ ہے؟

پی ایس ایل کی غیر مقبولیت کو ماہرین قومی ٹیم کی تباہی اور بدترین کارکردگی سے بھی موسوم کررہے ہیں۔ اکثر تبصرہ نگار کا مؤقف ہے کہ گزشتہ ایک سال میں قومی ٹیم نے جس بدترین کارکردگی کا انبار لگایا ہے، اس کے بعد لوگوں کو کرکٹ سے ہی نفرت ہورہی ہے۔ لوگ اس قدر بددل ہوچکے ہیں کہ کراچی میں پی ایس ایل کے میچز میں چند سو لوگ ہی میچ دیکھنے آئے جن میں سے اکثریت مفت ٹکٹ پر آئے تھے۔

اس کے برعکس آئی پی ایل نے اس سال مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ہر میچ میں اسٹیڈیم مکمل بھرے ہوئے تھے جبکہ پی ایس ایل میں بقول شاعر آج اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں، جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں۔

قومی ٹیم کی بربادیوں کا سایہ دراز ہوتے ہوئے پی ایس ایل تک پہنچ گیا۔ باوجود اس کے کہ ہر ٹیم میں کچھ غیر ملکی کھلاڑی تھے لیکن لوگ پھر بھی بے نیاز رہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ایس ایل میں اکثر وہ غیر ملکی کھلاڑی ہیں جو اب اپنی قومی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔

  قومی ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے عوام کرکٹ سے بددل ہوگئے ہیں—تصویر: ایکس
قومی ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے عوام کرکٹ سے بددل ہوگئے ہیں—تصویر: ایکس

پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل اکثر کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔ صائم ایوب، محمد حارث اور حسین طلعت مسلسل ناکام رہے۔ قومی ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا پر فرنچائز نے اعتماد ہی نہیں کیا تاہم شاداب خان کے زخمی ہونے کے بعد ان کا نام قرعہ فال میں نکل آیا اور وہ تمام میچز کھیل گئے لیکن کچھ نہ کرسکے۔ شاداب خان آخری میچ تک باؤلر نہ بن سکے اور ان کی بیٹنگ بھی واجبی رہی۔

حسن علی، حارث رؤف، فخر زمان بھی جزوی طور پر کارکردگی دکھاسکے۔ نسیم شاہ نے بدترین باؤلنگ کی۔ البتہ حسن نواز، صاحبزادہ فرحان، محمد وسیم اور عرفان خان نے اپنی ٹیموں کے لیے فتح گر کارکردگی دکھائی۔ فرحان نے سب کو اپنی مسحور کن بیٹنگ سے متاثر کیا۔

تاہم مایہ ناز پاکستانی کھلاڑیوں کی حالیہ کارکردگی کے بعد پی ایس ایل کی مجموعی تصویر بھی بے رنگ ہوگئی۔

نیا ٹیلنٹ مفقود

حالیہ پی ایس ایل میں کوئی زبردست نیا ٹیلنٹ سامنے نہ آسکا۔ محمد نعیم، محمد شہزاد اور علی رضا کے علاوہ کسی بھی نئے کھلاڑی نے متاثر کیا اور نہ مسحور کیا۔ نعیم نے بیٹنگ میں جوہر دکھائے لیکن فیلڈنگ میں وہ کمزور نظر آئے۔ حسن نواز نے چند میچز میں کوئٹہ کے لیے اچھی اننگز کھیلی لیکن ان کی تکنیکی کمزوریاں انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں ایکسپوز کردیں گی۔ انہیں اگر بڑا کھلاڑی بننا ہے تو بیک فٹ ٹیکنیک درست کرنی ہوگی۔

  محدم شہزاد، محمد نعیم اور علی رضا اس سال پی ایس ایل کے نئے ٹیلنٹ بن کر ابھرے
محدم شہزاد، محمد نعیم اور علی رضا اس سال پی ایس ایل کے نئے ٹیلنٹ بن کر ابھرے

علی رضا جوان اور پُرجوش ہیں لیکن انہیں اپنی رفتار کے ساتھ لائن اور لینتھ پر بھی کام کرنا ہوگا۔ کچھ فرنچائزز کی ہٹ دھرمی کے باعث بھی نیا ٹیلنٹ سامنے نہ آسکا۔ کوئٹہ کے کپتان سعود شکیل کی ہٹ دھرمی نے خواجہ نافع کا ٹیلنٹ برباد کردیا۔ وہ خود اوپننگ کرتے رہے اور دوسرے مستحق اوپنرز باہر بیٹھے رہے۔

پی ایس ایل کیسے مقبول ہو اور اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکے؟ اس کے لیے سب سے ضروری بات فرنچائزز کو اپنا مکمل کردار ادا کرنا ہوگا۔ زیادہ تر فرنچائزز کو ملکی کرکٹ اور اس کی نشوونما سے کوئی غرض ہے اور نہ دلچسپی۔۔۔کوئٹہ گلیڈی ایٹڑز، کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ نے شروع دن سے اسے محض ایک جزوقتی ایونٹ سمجھا اور کھیل کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس سوچ اور رجحان نے پی ایس ایل کی مقبولیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

البتہ ملتان سلطانز، لاہور قلندرز اور پشاور زلمی نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ قلندرز کے ہنٹنگ پروگرام کی بدولت بہت سے نوجوان کھلاڑی اب قومی کرکٹ میں شامل ہوگئے ہیں۔ مثبت اقدام پر ان ٹیموں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔

سید حیدر

لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔