فلم ریویو: مشن امپاسبل، دی فائنل ریکننگ

29 برس کی مدت پر مشتمل فرنچائز کی آخری فلم کا پاکستان کے ساتھ گہرا تعلق ہے جبکہ یہاں بھی بھارت کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شائع June 2, 2025

گزشتہ کچھ برسوں سے ایسی فلمیں جن کا پس منظر سیکوئل کا ہے، وہ باکس آفس پر ناکامی کا سامنا کررہی ہیں لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جن فلم سیریز نے اپنا معیار برقرار رکھا، وہ آج بھی کامیاب ہیں۔

ٹام کروز زمانے کی نبض کو سمجھتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنی کامیاب ترین فلم فرنچائز کے بینر تلے بننے والی ’مشن امپاسبل، دی فائنل ریکننگ‘ کو سیریز کی آخری فلم کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس فلمی عہد کو کیسے سمیٹا گیا، گزشتہ برسوں میں ریلیز ہونے والی اس کی دیگر فلمیں اور ان کا خلاصہ اس مذکورہ فلم میں جھلکیوں کے طور پر کہانی کاحصہ ہے۔ ایک اچھے انداز میں سمیٹی گئی اس عمدہ فلم سیریز کے سلسلے کی آخری فلم کا مفصل تبصرہ و تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

کہانی/اسکرین پلے

اس فلم سیریز کی تمام کہانیوں کا مرکزی خیال معروف امریکی لکھاری ’بروس گیلر‘ سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے یہ کہانی 1960ء کی دہائی میں امریکی ٹیلی ویژن کے لیے لکھی جو 1980ء کی دہائی تک جاری رہی۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 1990ء کی دہائی میں ٹام کروز کو مرکزی کردار میں شامل کرکے پہلی فلم بنائی گئی جسے ٹیلی وژن کی طرح بڑی اسکرین پر بھی مقبولیت ملی اور یوں اگلے 29 سال یہ فلم سیریز بڑی اسکرین پر اپنی مقبولیت سمیٹتی رہی اور باکس آفس پر دھوم مچاتی رہی۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس سیریز کی مقبولیت میں مرکزی کردار اس کہانی کا بھی ہے جو ’بروس گیلر‘ کے دماغ کی اختراع تھی۔

اس فلم سیریز کے لیے لکھے گئے 8 اسکرپٹس میں 10 مختلف اسکرپٹ نویس شامل رہے ہیں۔ آخری فلم جس کے دو حصے ہیں، ان کے اسکرپٹ نویس معروف امریکی اسکرپٹ رائٹر ایرک جینڈرسن اور ان فلموں کے ہدایت کار کرسٹوفر میکوری ہیں۔ دو حصوں پر مشتمل فلم کی کہانی کے پہلے حصے (مشن امپاسبل، ڈیڈ ریکیننگ، پارٹ ون) میں کہانی کو کشمیر میں لاکر ختم کیا گیا تھا اور کہانی میں پاکستان بھارت کی گونج سنائی دی لیکن یہ کہانی بہت مبہم تھی۔

  فلم کا پوسٹر
فلم کا پوسٹر

اب فلم کے دوسرے حصے میں دنیا کی 9 ایٹمی طاقتوں کو کہانی کا محور بنایاگیا جن میں پاکستان کے علاوہ امریکا، روس، فرانس، چین، برطانیہ، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ ٹام کروز کا مرکزی کردار بطور ’ایتھن ہنٹ‘ ہمیشہ کی طرح متاثر کن ہے۔ اس مذکورہ فلم میں وہ دنیا کو ’مصنوعی ذہانت کی تخریب کاری‘ سے بچانے نکلا ہے جو دنیا کے 9 ایٹمی ممالک کے بموں کو خودکار طریقے سے چلانے کی ممکنہ مہارت رکھتی ہے۔

یوں تو فلم کی کہانی تیز رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ امریکی خاتون صدر اور ان کی کابینہ کی جانب سے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ دنیا کو مصنوعی ذہانت کی تخریب کاری سے خطرہ ہے جس کے لیے ایک بار پھر انہیں اپنے جانباز کارکن ’ایتھن ہنٹ‘ کی مہارت اور تجربے کا سہارا لینا پڑے گا۔

البتہ فلم کی کہانی میں دو مقامات ایسے ہیں جہاں کہانی کو خواہ مخواہ طول دیا گیا ہے۔ وہ دو مقامات میں، ایک تو پانی کے اندر روسی آبدوز میں سے ایک ڈیوائس کو تلاش کرنا ہے جبکہ دوسرا فضائی منظر جس میں ڈیوائس کے حصول کے لیے حتمی لڑائی لڑی جارہی ہوتی ہے۔ یہ طویل مناظر کہانی میں اُکتاہٹ پیدا کرنے والے ثابت ہوئے۔

  روسی آبدوز کے فلمائے گئے منظر کی عکاس بندی کی ایک تصویر، ٹام کروز نے اس بار بھی تمام اسٹنٹس خود انجام دیے ہیں—تصویر: پیراماؤنٹ پکچرز
روسی آبدوز کے فلمائے گئے منظر کی عکاس بندی کی ایک تصویر، ٹام کروز نے اس بار بھی تمام اسٹنٹس خود انجام دیے ہیں—تصویر: پیراماؤنٹ پکچرز

فلم کی کہانی اور پاکستان کا تذکرہ

حیرت انگیز طور پر پاکستان کا تذکرہ اس آخری فلم میں بہت واضح ہے۔ دو بار پاکستان کا نام لیاگیا اور ایک بار اسلام آباد کا ذکر ہوا جبکہ 3 بار پاکستان کا جھنڈا بھی دکھایا گیا۔ دوسرے ممالک کا تذکرہ بھی یونہی ہوا لیکن جب کہانی میں تین بار تمام ممالک کے جھنڈے دکھائے گئے ہیں، اس میں بھارت کا جھنڈا ابتدا میں دو مرتبہ نہیں دکھایا گیا۔

یہ سوالیہ نشان ہے کہ کہانی میں بھارت کا ذکر معمولی حیثیت میں کیوں کیا گیا؟ کیا یہ امریکا کی نئی سیاسی پالیسیز کا تسلسل ہے جسے وہ ہمیشہ ہولی ووڈ کے ذریعے بھی ظاہر کرتے ہیں؟ اسی طرح چین کا ذکر بھی شمالی کوریا کے ساتھ جوڑ کر دکھایا گیا ہے جو معنی خیز ہے۔

فلم سازی و ہدایت کاری

یہ فلم برطانیہ، مالٹا، ناروے، اٹلی اور جنوبی افریقہ میں عکس بند کی گئی ہے۔ فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر میکوری اور ہیرو ٹام کروز، دونوں اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز بھی ہیں۔ 40 کروڑ ڈالرز کے بجٹ سے تیار کی جانے والی یہ فلم ’اب تک دنیا کی مہنگی ترین فلم‘ میں شمار کی جارہی ہے جس کا ورلڈ پریمیئر جاپان کے شہر ٹوکیو میں ہوا جبکہ فرانس کے فلم فیسٹیول ’کین‘ میں دکھائے جانے کے بعد اسے امریکا و دیگر یورپی ممالک سمیت پاکستان میں ریلیز کیا گیا ہے۔

اس فلم کو عالمی سینما کے ناقدین کی جانب سے اچھی رائے ملی ہے اور آئی ایم ڈی بی پر اسے 10 میں سے 7.5 ریٹنگ ملی ہے جبکہ فلمی تبصروں کی مقبول ویب سائٹ روٹن ٹوماٹوز پر اسے 100 میں سے 80 فیصد کامیابی اور مقبولیت کا تناسب ملا ہے۔

  کین فلم فیسٹیول کے موقع پر مشن امپاسبل کے اداکار اور ہدایتکار سیلفی لیتے ہوئے—تصویر: گیٹی امیجزز
کین فلم فیسٹیول کے موقع پر مشن امپاسبل کے اداکار اور ہدایتکار سیلفی لیتے ہوئے—تصویر: گیٹی امیجزز

ہدایت کاری کے اعتبار سے فلم مضبوط ہے۔ اس فلم میں دو مقامات پر ہی فلم نے اکتاہٹ کا احساس دلایا جن کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ طویل مناظر تھے جنہیں مزید ایڈیٹ کیا جاسکتا تھا۔

فلم میں دو مرتبہ بھارتی جھنڈا نہیں دکھایا گیا جبکہ برطانیہ کے پاس ایٹم بم کے لیے میزائل کا نظام موجود نہیں ہے تو اسے میزائل کے ذریعے دکھانا بھی ہدایت کار کی تکنیکی غلطی ہے۔

اختتامیہ مزید بہتر کیا جاسکتا تھا جو نہیں کیا گیا اور بہت ہی غیر متاثرکن انداز میں فلم کا ختم کیاگیا۔ البتہ فلم کی ابتدا اور فلیش بیک تکنیک کے ذریعے گزشتہ 7 فلموں کی کہانی کی یاددہانی ایک اچھی کوشش رہی جس نے مجموعی طور پر فلم کو گزشتہ فلموں کے ساتھ منسلک کیا اور فلم بینوں کے ناسٹیلجیا کو بھی تسکین ملی۔

اداکاری و موسیقی

اس فلم میں ٹام کروز (ایتھن ہنٹ) کی اداکاری اور میراث کی کیا بات جائے تو وہ ہمیشہ کی طرح بہت عمدہ رہی مگر ان کے علاوہ جنہوں نے اپنے کرداروں سے فلم کی کہانی میں جان ڈال دی، ان میں ہیلی ایٹویلس (گریس)، ہینری جرنی (یوجین کیٹرج)، انجیلا باسیٹ (ایریکا سیلون)، نیک آفرمین (جنرل سڈنی) وہ فنکار ہیں جنہوں نے بہت اچھی اداکاری کی۔ البتہ مرکزی کرداروں میں سائمن پیگ (بینجی ڈن) جیسے اداکار نے مایوس بھی کیا جن کی اداکاری بوجھل محسوس ہوئی۔

 ٹام کروز کے علاوہ دیگر اداکاروں نے بھی کہانی میں جان ڈالی—تصویر: پیراماؤنٹ پکچرز
ٹام کروز کے علاوہ دیگر اداکاروں نے بھی کہانی میں جان ڈالی—تصویر: پیراماؤنٹ پکچرز

اس فلم میں موسیقی کا شعبہ بہت جاندار ثابت ہوا ہے۔ پس منظر کی موسیقی انتہائی عمدہ ہے جس نے کہانی میں جذبات کی شمولیت کا اہم کردار نبھایا۔ اس فلم کے مرکزی موسیقار میکس ایروج اور ایلفی گاڈرے ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی اس فرنچائز کی کئی فلموں میں موسیقی ترتیب دی ہے۔ اس مذکورہ فلم کے لیے انہوں نے 42 ٹریکس تخلیق کیے ہیں جن کا دورانیہ دوگھنٹے سے زائد کا ہے اور تمام میوزک بہت متاثر کن ہے۔

دیگر تکنیکی شعبہ جات

فلم کا سب سے مضبوط شعبہ موسیقی کے بعد ویژول ایفکیٹس اور گرافکس کا ہے۔ 500 سے زائد ویژول آرٹسٹس نے اس میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے جن میں پاکستانی ویژول ایفیکٹس آرٹسٹ لاریب عطا بھی شامل ہیں جو پاکستان کے معروف لوک گلوکار عطا اللہ عیسٰی خیلوی کی صاحبزادی ہیں۔ ان آرٹسٹس میں امریکا کے علاوہ یورپی ممالک سمیت بھارت، جاپان اور کئی دیگر ممالک کے آرٹسٹ شامل ہیں۔

فلم کی سینماٹوگرافی، لائٹنگ، کاسٹیومز، ایڈیٹنگ وغیرہ بھی بہت اعلیٰ پیمانے کی ہے، اسی لیے اس فلم کا بجٹ بہت زیادہ بڑھ گیا کیونکہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ہے اور اس کو آخری فلم کے طور پر بہتر سے بہترین بنانے اور فلم کی میراث کو سمیٹنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔

حرف آخر

پوری دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تھیٹرز میں ریلیز ہونے والی فلمیں باکس آفس پر کمائی کرنے کی غرض سے مشکلات سے دوچار ہیں اور پھر سیکوئل کے طور پر جن بڑی فلموں کو بنایا جارہا ہے، وہ گزشتہ کچھ برسوں میں ناکام ہورہی ہیں۔ اس کی تازہ مثالیں ’گلیڈیٹر 2‘ اور’جوکر’ ہیں۔ تو ایسے ماحول میں اپنی کامیاب ترین فرنچائز سیریز کی فلم ’مشن امپاسبل، دی فائنل ریکننگ‘ ریلیز ہوئی ہے جو اس سلسلے کی آخری فلم ہے۔

  اس سیریز کو جاری رکھنا میرے نزدیک ٹام کروز کی غلطی ہوگی—تصویر: ایکس
اس سیریز کو جاری رکھنا میرے نزدیک ٹام کروز کی غلطی ہوگی—تصویر: ایکس

اُڑتی اُڑتی خبریں ہیں کہ شاید اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مزید فلم بنائی جائیں۔ میرے خیال میں اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ٹام کروز کی غلطی ہوگی۔ وہ ٹاپ گن، مووریک کے سلسلے کی دوسری فلم کا حشر دیکھ چکے ہیں۔ یہ فلم ان کی شاندار فلمی میراث کی وجہ سے چل رہی ہے جسے وہ اب بہت اچھے موڑ پر لاکر سمیٹ رہے ہیں۔ انہیں اس فیصلے پر قائم رہنا چاہیے اور قارئین، آپ کو اس شاندار فلم کو بڑی اسکرین پر ہی دیکھنا چاہیے تاکہ آپ اس معیاری فلم سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہوسکیں۔


ہیڈرز: پیراماؤنٹ پکچرز

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔