جنوبی افریقہ با مقابلہ آسٹریلیا: ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فاتح کون ہوگا؟

آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل سال رواں کا سب سے بڑا ایونٹ ہے جس کا سب ہی شدت سے انتظار کررہے ہیں۔
شائع June 10, 2025

بدھ سے لارڈز کے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ دونوں ٹیمیں اپنے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ انگلینڈ پہنچ چکی ہیں اور اس اہم اور تاریخی میچ کے لیے تیاری کررہی ہیں۔

جنوبی افریقہ کے لیے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اس ایونٹ کے فائنل میں پہنچے ہیں۔ البتہ آسٹریلیا دوسری بار فائنل میں پہنچا ہے اور وہی دفاعی چیمپیئن بھی ہے۔ آسٹریلیا نے دو سال قبل بھارت کو شکست دے کر ٹائٹل جیتا تھا۔ جبکہ بھارت دو بار فائنل میں پہنچ کر بھی ناکام رہا۔ پہلی بار نیوزی لینڈ نے ایک یقینی ڈرا میچ کو جیت میں تبدیل کردیا تھا جبکہ دوسری بار آسٹریلیا نے بھارت کو واضح شکست سے دوچار کیا۔

ٹیسٹ چیمپیئن شپ کیا ہے؟

آئی سی سی نے 30 سال قبل ہی اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ ایک ایسے دوراہے پر آچکی ہے جس میں شائقین کی دلچسپی بہت کم رہ گئی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان کلائیو لائیڈ نے 1996ء میں ایک خیال پیش کیا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی محدود اوورز کی کرکٹ کی طرح مسابقتی کرکٹ ہو جس کی نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو اور گریگ چیپل نے پُرزور حمایت کی لیکن اس خیال کو عملی شکل نہ دی جاسکی۔

آئی سی سی کے سی ای او جب ہارون لوگارٹ بنے تو انہوں نے بہت سی تبدیلیاں کیں اور ایک ایسے مقابلے کی تجویز دی جس میں 4 بہترین ٹیمیں آپس میں میچز کھیلیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ آئی سی سی 10 سال تک اس پر بحث کرتی رہی کہ اس کا فارمیٹ کیا ہو جبکہ میلبرن کرکٹ کلب (ایم سی سی) ٹیسٹ کرکٹ کی روایات باقی رکھنا چاہتی تھی جس کے باعث معاملہ ٹلتا رہا۔

2017ء میں جب چیمپیئنز ٹرافی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے لیے راہ ہموار ہوگئی اور آئی سی سی نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے درمیان دو سال کے عرصے میں تمام میچز کو اس کا حصہ بنادیا اور پوائنٹس سسٹم کے تحت پہلی دو ٹیموں کو فائنل کا حقدار قرار دیا۔ اگرچہ اس فارمیٹ میں بہت جھول اور خامیاں تھیں کیونکہ کچھ ممالک بہت زیادہ میچز کھیل رہے تھے اور کچھ بہت کم۔ اس فارمیٹ کو دو سال پر محیط رکھا گیا اور اس دوران آئی سی سی فیوچر پروگرام کے تحت جن ممالک نے اپنی ٹیسٹ سیریز منتخب کی تھیں، وہ اس چیمپیئن شپ کا حصہ بن گئیں۔

2019-2021ء کے فارمیٹ میں بھارت کو سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز کھیلنے کو ملے جن میں زیادہ تر بھارت کی زمین پر ہی کھیلے گئے۔ ان میں معروف احمدآباد ٹیسٹ بھی شامل تھا جو انگلینڈ کے خلاف ڈیڑھ دن میں ہی ختم ہوگیا تھا۔ بھارت اور نیوزی لینڈ نے فائنل میں جگہ بنالی جو انگلینڈ کے شہر ساؤتھ ایمپٹن میں کھیلا گیا۔ نیوزی لینڈ نے آخری دن ڈرا ہوتے میچ کو اپنی جارحانہ بیٹنگ سے جیت لیا اور پہلے ٹیسٹ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

2021ء-2023ء کا دورانیہ بھی بھارت کے لیے آسان رہا جس نے زیادہ تر میچ اپنی ہی سرزمین پر کھیلے۔

  بھارت کو دو بار فائنل میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا—تصویر: اے ایف پی
بھارت کو دو بار فائنل میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا—تصویر: اے ایف پی

موجودہ چیمپیئن شپ 2025ء-2023ء میں افغانستان، آئر لینڈ اور زمبابوے کے علاوہ تمام ٹیسٹ پلیئنگ ممالک کو میچز کھیلنے کا موقع ملا۔ انگلینڈ کی ٹیم کو سب سے زیادہ 22 میچز ملے جبکہ جنوبی افریقہ کو سب سے کم 12 میچز کھیلنے کو ملے۔ جنوبی افریقہ نے شاندار کارکردگی دکھائی اور 8 میچز جیت کر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کیے جبکہ آسٹریلیا نے اس عرصے میں 19 میچز کھیلے جن میں سے 13 میچز جیتے اور پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن پر رہے۔

دونوں ممالک نے پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کرکے اپنی پوزیشن بہتر کی۔ اس کے برعکس پاکستان ٹیم جس نے 14 میچز کھیلے اور صرف 5 میچز جیت سکی۔ اگرچہ پاکستان کے پاس موقع تھا کہ اگر وہ بنگلہ دیش سے دو ٹیسٹ جیت جاتے تو ٹیم دوسری پوزیشن سے آسکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ دوسری جانب بھارت جس نے پہلے دونوں فائنل کھیلے تھے، وہ نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز ہار کر تیسرے فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ نیوزی لینڈ جس نے پہلا فائنل جیتا تھا اپنی بہترین شروعات کے باوجود سری لنکا اور بنگلہ دیش سے سیریز ہار گئی۔ اس کی وجہ ان کے اہم کھلاڑیوں کی عدم شرکت تھی۔

پاکستان کی بدترین کارکردگی

پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی کے اعتبار سے بدترین رہی۔ 9 ممالک کی فہرست میں آخری پوزیشن نے واضح کردیا کہ ٹیم کسی بھی طرح کسی بڑی تو کیا چھوٹی ٹیم سے بھی نہیں کھیل سکتی۔ غلط سیلیکشن اور کھلاڑیوں کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی نے ٹیم کو آخری نمبر تک محدود رکھا۔

  ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی—تصویر: اے ایف پی
ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی—تصویر: اے ایف پی

اگرچہ پاکستان اسپن پچز بناکر سیریز انگلینڈ سے تو جیت گیا لیکن ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش سے اپنے ہی گھر میں شکست بدترین داغ بن گئے۔ اس بدترین کارکردگی پر بھی نہ کھلاڑی شرمندہ ہوئے اور نہ ہی بورڈ مینجمنٹ۔ چند معذرت خواہانہ جملے اور مستقبل کے عزم نے نااہلی پر پردہ ڈال دیا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بورڈ نے کسی کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لیا۔ بس دعوے ہوتے رہے لیکن عملی طور پر معاملہ صفر سے آگے نہ بڑھ سکا۔

جنوبی افریقی ٹیم بے مثال

اگرچہ جنوبی افریقہ کی ٹیم اس معیار کی ابھی نہیں ہے جیسے گریم اسمتھ کی کپتانی میں اس صدی کے اوائل میں ہوا کرتی تھی لیکن 5 سال پہلے جس طرح ٹیم منتشر اور شکست خوردہ تھی، جس پر اے بی ڈی ویلئیر نے مایوس ہوکر اپنی ریٹائرمنٹ واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی تھی، اب اس میں بہت بہتری اور کارکردگی میں تسلسل آگیا ہے۔

ٹیم نے تینوں شعبہ جات میں مہارت بھی حاصل کرلی ہے اور جیت کا فارمولا بھی۔ انفرادی کارکردگی کے بجائے اب اجتماعی نتیجے پر توجہ ہے۔ ٹیمبا باوما کی قیادت میں ٹیم متحد بھی ہے اور منظم بھی۔

  باوما کی کپتانی میں جنوبی افریقی ٹیم میں واضح تبدیلی آئی ہے—تصویر: اے پی
باوما کی کپتانی میں جنوبی افریقی ٹیم میں واضح تبدیلی آئی ہے—تصویر: اے پی

بیٹنگ میں باوما کے ساتھ ایڈن مارکرم، ٹرسٹن اسٹبس اور ٹونی ڈی زورزی اہم ستون ہوں گے۔ مارکرم اچھی فارم میں ہیں جبکہ اہم شمولیت نوجوان کوربن بوش کی ہے جنہوں نے تیزی سے خود کو اہم آل راؤنڈر ثابت کیا ہے۔ مارکو جانسن اور ریان رکیلٹن باوقت ضرورت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی باؤلنگ مضبوط اور مکمل ہے۔ کگیسو ربادا، نگیڈی اور پیٹرسن، لارڈز کی پچ پر فاسٹ باؤلنگ کریں گے جبکہ کیسو مہاراج اسپنر ہوں گے۔ مجموعی طور پر جنوبی افریقہ کی ٹیم متوازی نظر آرہی ہے۔

آسٹریلیا روایتی اعتبار سے خطرناک

آسٹریلیا اپنے بہترین کرکٹ اسٹرکچر اور بہتر سے بہتر ٹیلنٹ کی تلاش کے باعث ابتدائے کرکٹ سے ہی ایک زبردست ٹیم رہی ہے۔ وہ دفاعی چیمپیئن بھی ہے اور اگلے چیمپیئن کے لیے فیوریٹ بھی۔ زیادہ تر مبصرین اسے چیمپیئن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

  دو سال قبل آسٹریلیا، بھارت کو شکست دے رک چیمپیئن بنا تھا—تصویر: آئی سی سی
دو سال قبل آسٹریلیا، بھارت کو شکست دے رک چیمپیئن بنا تھا—تصویر: آئی سی سی

پیٹ کمنز کی بے نظیر قیادت نے آسٹریلیا کو ایک بار پھر ایک ناقابلِ شکست ٹیم بنادیا ہے۔ بیٹنگ میں اگر تجربہ کار عثمان خواجہ، ٹریویس ہیڈ اور اسٹیو اسمتھ جیسے بلے باز ہیں تو نوجوان سیم کونسٹن بھی ہیں جو بھارت کے خلاف پہلے ہی ٹیسٹ میں جارحانہ بیٹنگ سے نئے ڈیوڈ وارنر سمجھے جارہے ہیں۔

مڈل آرڈر بھی بہت قوی ہے جس میں کیمرون گرین اور مارنوس لابوشین اصل قوت ہیں۔ باؤلنگ میں خود کپتان پیٹ کمنز اور پھر مچل اسٹارک ہیں جن کے ساتھ اسکاٹ بولینڈ اور جوش ہیزل ووڈ میں مقابلہ ہے کہ کون کھیلے گا۔ دونوں بہت ہی خطرناک باؤلرز ہیں۔ اسپن باؤلنگ کا سارا زور ناتھن لائن پر ہوگا۔ آسٹریلیا بہ ظاہر ایک بہت ہی مضبوط اور جیت کی حقدار ٹیم نظر آتی ہے۔

لارڈز کی تاریخی پچ

کرکٹ کا ہیڈکوارٹر لارڈز جسے سب سے زیادہ انٹرنیشنل فائنلز کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہے، اپنے انداز اور روایات کے باعث دنیائے کرکٹ میں ایک انتہائی منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ یہاں ہر چیز یادگاری اور قابلِ تقلید ہوتی ہے۔ اس کے صدر دروازے سے گراؤنڈ کی پچ تک ہر چیز قابلِ دید ہے اور یہاں آنے والے گھنٹوں اس میں محو رہتے ہیں۔ فائنل کے لیے پچ کے لیے اب تک یہی کہا جارہا ہے کہ ایک متوازن اور ہموار پچ ہوگی۔

پہلے دو دن پچ پر تیزی بھی ہوگی اور باؤنس بھی ہوگا لیکن باؤنس ہموار ہوگا۔ لارڈز کی پچ واحد پچ ہے جسے سینٹی میٹرز میں تیار کیا جاتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے بھی اسپاٹ کو ہموار کیا جاتا ہے۔ پچ پر اگرچہ کچھ فرق پڑے گا لیکن آخری دن تک بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں کے لیے برابر مواقع ہوں گے۔ توقع ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم بیٹنگ کو ترجیح دے گی۔ اگرچہ موسم سرد رہے گا اور بارش کی بھی پیش گوئی ہے لیکن اگر پچ پر کچھ پیس زیادہ ہوا تو شاید میچ وقت سے پہلے ختم ہوجائے۔

آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل سال رواں کا سب سے بڑا ایونٹ ہے جس کا سب ہی شدت سے انتظار کررہے ہیں جبکہ شائقین ایک روایتی اور مسحور کن کرکٹ کے نظارے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ فائنل کا کون فاتح ہوگا؟ آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ؟ دونوں ٹیمیں متوازی ہیں اور مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ بس فتح کی دیوی اسی کے سر بیٹھے گی جس کے اوسان بحال رہیں گے اور کارکردگی 100 فیصد ہوگی۔

سید حیدر

لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔