پاکستانی شہریوں کیلئے فطرت اور موسمیاتی انصاف کے حقوق کا اعلامیہ
بریتھ پاکستان کا پاکستان کے شہریوں کے لیے فطرت اور موسمیاتی انصاف کے حقوق کا اعلامیہ
ابتدائیہ:
ہم پاکستان کے شہری کرۂ ارض کو باہم مربوط، مختلف النوع، خودمختار اور باہمی انحصار پر مشتمل حیات کا مسکن سمجھتے ہیں۔ جس میں انسان اس عظیم حیاتیاتی نظام کا صرف ایک حصہ ہے۔ زمین پر موجود حیات کے تمام مظاہر حیوانات، نباتات اور ان کی پرورش کرنے والا ماحولیاتی نظام جس میں دریا، جنگل، پہاڑ، سمندر اور دیگر ماحولیاتی عناصر شامل ہیں، انسانوں کے لیے افادیت سے آزاد اپنی قدر، اہمیت اور حقوق رکھتے ہیں۔
ہمیں اعتراف ہے کہ انسان کی صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں سے موسمیاتی اور ماحولیاتی نظام اور مستحکم ارضیاتی نظام پر انحصار کرنے والی تمام موجودات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ہمیں ادراک ہے کہ زمین پر حیات کے تسلسل کا تقاضا ہے کہ ہمارے آئینی، قانونی، سماجی اور اخلاقی نظام میں ایسی دور رس تبدیلیاں ضروری ہیں جن سے ایسا نظام وضع ہوسکے جو بالادستی اور استحصال کے بجائے احترام، باہمی تعاون اور ارضیاتی نظام کی بحالی کا ضامن ہو۔
ہم اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ ماحولیاتی انصاف کا حصول موسمیاتی انصاف سے مشروط ہے اور فطرت کے حقوق اور آنے والی نسلوں کے حقوق باہم مشروط ہیں کیوں کہ زمین کے تنوع کا تحفظ نوع انسانی کے تحفظ سے منسلک ہے۔ لہٰذا حیات کے احترام، ذمہ داری اور یک جہتی کے جذبے کے تحت ہم مندرجہ ذیل اصولوں کا اعلان کرتے ہیں۔
اصولوں کا اعلامیہ
حصۂ اول: فطرت اور تمام موجودات کے حقوق
1۔ ہر انسانی اور غیر انسانی حیات کو زندگی، بقا، بالیدگی اور حیات کے نظام میں اپنا ماحولیاتی کردار ادا کرنے کا فطری حق حاصل ہے۔
2۔ زمین کو ایک زندہ نظام کے طور پر فطری ادوار اپنی ساخت، افعال اور ارتقائی عمل کو انسانی مداخلت کے بغیر برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔
3۔ ماحولیاتی نظام اور اس میں موجود تمام انواع کو معدومیت، تنزلی اور ماحولیاتی تباہی سے تحفظ کا حق حاصل ہے۔
4۔ موسمیاتی استحکام زمین پر تمام موجودات کا حق ہے۔ کسی وجود یا نظام کو خطرناک انسانی مداخلت سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جس سے زندگی کے نظام کو نقصان پہنچے۔
5۔ دریا، جنگل، پہاڑ، گلیشیر، سمندر اور زمین کو وجود، بقا، بالیدگی اور نقصان کی صورت میں بحالی کا حق حاصل ہے۔
6۔ تمام موجودات کو زندگی کے لیے ناگزیر صاف ہوا، خالص پانی، زرخیز زمین اور ایک غیر آلودہ قدرتی ماحول کا حق حاصل ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔
7۔ تمام موجودات کو آلودگی، زہریلے اخراج، رہائشی تباہی اور موسمیاتی خلل سے آزادی کا حق حاصل ہے۔
8۔ تمام انسانوں کو ماحولیات سے متعلق معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔جو درخواست دہندہ کو بروقت، واضح، قابل فہم اور غیر موزوں مالی بوجھ کے بغیر دستیاب ہوں۔
9۔ تمام انسانوں کو ماحولیات کے بارے میں اپنی رائے رکھنے اور اپنے خیالات اور معلومات کی تشہیر کا حق حاصل ہے۔
10۔ تمام انسانوں کو موسمیاتی اور انسانی حقوق کی تعلیم کا حق حاصل ہے۔ اس تعلیم کے ذریعے مختلف نقطہ ہائے نظر اور غیر انسانی حیات کے فطری رویوں سے سیکھنے اور کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کے ارتقا کی ضروریات کو سمجھنے کا حق شامل ہے۔
11۔ حیات کے اجتماعی نظام کا حصہ ہونے کی حیثیت سے دیگر موجودات پر بالادستی کی بجائے انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کی سالمیت کے محافظ، نگران اور بحال کرنے والے کے طور پر کام کرے۔
12۔ مذکورہ بالا حقوق میں بعض پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 9-A کے تحت تسلیم شدہ ہیں، جن کے تحت ہر شخص کو ایک صاف، صحت مند اور پائدار ماحول کا بنیادی حق حاصل ہے۔
حصۂ دوم: انسانوں کے فرائض
13۔ انسانوں کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ان کی فلاح و بہبود قدرتی دنیا کی بہبود سے منسلک ہے اس لیے انہیں اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
14۔ انسانوں کو قدرتی موجودات کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے اقدامات سے زمین یا دیگر موجودات کو نقصان نہ پہنچے۔
15۔ انسانوں کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچے جو ماحولیاتی تباہی کا سبب بنیں۔ انہیں فطری ماحول کی بحالی اور تجدید کے فوری اقدامات کرنا چاہیے ہیں۔
16۔ انسانوں کو تمام لوگوں خصوصاً مقامی آبادیوں کو قدرتی نظاموں کی حفاظت اور انتظام میں برابر کی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔
17۔ انسانوں کا فرض ہے کہ وہ موسمیاتی انصاف اور ماحولیاتی مساوات کو فروغ دیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ کمزور انسانی اور غیر انسانی موجودات کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے اور انہیں ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
18۔ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین اور اس کے موجودات کو پہنچنے والے ماحولیاتی اور موسمیاتی نقصان کا ازالہ اور تدارک کریں۔
حصۂ سوم: ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے فرائض
19۔ تمام ریاستوں کو فطری حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے تحفظ کے لیے قانونی انتظامی اور عدالتی اقدامات کرنے چاہیے ہیں۔
20۔ تمام ریاستیں اس امر کو یقینی بنائیں کہ ان کی پالیسیاں اور اقدامات ان کے علاقوں کے اندر یا باہر ماحولیاتی نقصان کا باعث نہ بنیں۔
21۔ تمام ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر عالمی ماحولیاتی بحرانوں کا مقابلہ کرنے اور زمین کے مشترکہ ورثے کی حفاظت کے لیے باہم تعاون کرنا چاہیے۔
22۔ بین الاقوامی تنظیموں کا فرض ہے کہ فطرت اور زمینی برادری کے حقوق کو اپنے اختیار اور فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کریں۔
حصۂ چہارم: موسمیاتی اور ماحولیاتی انصاف کی تعمیر کے اقدامات
23۔ موافقت کی ترجیح اور نقصانات کی تلافی: ہمیں موافقت اور نقصان کی تلافی پر فوری توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ انسانی اور غیر انسانی کمزور آبادیوں کو ایسے بحران کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے جو ان کے پیدا کردہ نہیں۔ اس کے لیے اس میں صرف کمی لانا کافی نہیں ہوگا کیوں کہ کمزور انسانی آبادیوں میں غریب، خواتین، بچے اور چھوٹے جزائر اور پسماندہ علاقوں کے رہائشی شامل ہیں جن کو موسمیاتی تبدیلی غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔
24۔ موسمیاتی انصاف کے لیے مضبوط عدلیہ کی فراہمی: ایک طاقتور ، فعال، باخبر اور آزاد عدلیہ موسمیاتی انصاف اور ماحولیاتی حقوق کو نافذ کرنے اور ماحولیاتی جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے اس کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی انصاف کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ تنازعات کا فیصلہ، ماحولیاتی نقصان کی تلافی، فطرت اور آنے والی نسلوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
25۔ موسمیاتی مالیات کی آسان فراہمی: موسمیاتی ماحولیات کو سیاسی اور افسرشاہانہ رکاوٹوں کے بغیر قابل حصول بنانا ضروری ہے اس کے لیے متبادل موسمیاتی مالیاتی نظام سمیت دیگر اختراعی طریقوں کو اختیار کیا جائے تاکہ پائیدار حل کے ذریعے کمزور آبادیوں کو وسائل کی بروقت اور منصفانہ فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
26۔ فطرت کی مالیات کا فروغ: سرمایہ کاری کے ذریعے فطرت کی مالیات کو وضع کرنا چاہیے جو ماحولیاتی نظام، حیاتیاتی تنوع اور فطرت کی خدمات کی اہمیت کے پیش نظر ایسی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں جس سے زمین کی قدرتی دولت بحال اور محفوظ ہوسکے۔
27۔ موسمیاتی علم کی پالیسیاں وضع کی جائیں: فطرت اور موسمیات سے متعلق فیصلے مضبوط اور آزاد موسمیاتی علوم پر مبنی ہونے چاہیے ہیں تاکہ لیے گئے اقدامات عقل اور منصفانہ شواہد پر مبنی ہوں اس کے لیے مستقبل کی ماحولیاتی تنزلی کو روکنے کے اقدامات اور ماحولیاتی حساسیت بھی شامل کی جائے۔
28۔ دنیا کے جنوبی علاقوں میں موسمیاتی سفارتکاری: دنیا کے جنوبی ممالک مضبوط اتحاد قائم کریں اور ایسی موسمیاتی سفارتکاری کو فروغ دیں جو منصفانہ مالی معاہدوں ، ٹیکنالوجی کی مساوی منتقلی اور منصفانہ بین الاقوامی ماحولیاتی نظام کا تقاضہ کرتی ہے۔
29۔ مقامی طریقوں میں سرمایہ کاری: ہمیں مقامی اور دیسی طریقوں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی جو بیرونی طریقوں اور مداخلتوں کی بجائے ہمارے منفرد ماحولیاتی اور سماجی حقائق سے تعلق رکھتے ہوں۔
30۔ شفاف موسمیاتی احتساب کے نظام کا قیام: ایسے موسمیاتی احتساب کا نظام قائم کیا جائے جس سے یہ یقینی بنایا جاسکے کہ تمام مالی وسائل، منصوبے اور پالیسیاں ایسی آبادیوں اور انتہائی ضروری ماحولیاتی نظام کے مفاد کے لیے ہوں۔بدعنوانی اور بدانتظامی ختم کی جائے۔ تمام ریاستوں کو موسمیاتی تبدیلی اور موسمیاتی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لینے والے آلات کی موثر اور باقاعدہ نگرانی کرنی چاہئے اور ان شماریاتی معلومات کو عام عوام کے لیے باقاعدگی سے جاری کرنا چاہیے اسی طرح بڑے منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کے جائزے بھی عوام کی جانچ پڑتال کے لیے باقاعدگی سے جاری کیے جائیں۔
اختتامیہ:
ہم پاکستان کے شہری اعلان کرتے ہیں کہ زندگی کے احترام پر مبنی دنیا کی تعمیر کے لیے ہمیں انسانی مرکزیت سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔
ہم زمینی نظام کی عزت، حفاظت اور بحالی کے لیے عہد کرتے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل تمام موجودات کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ہم قرار دیتے ہیں کہ موسمیاتی انصاف صرف ایک خواہش نہیں بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو ہمیں پختہ ارادے، ہمت اور اجتماعی عزم کے ساتھ اپنے ذہن اور ہاتھوں سے فوری طور پر تعمیر کرنا ہے۔
ہم آئندہ نسلوں کے لیے انصاف بقا اور خوشحالی کو صرف فطرت کے حقوق کے تحفظ کے ذریعے ہی یقینی بناسکتے ہیں۔
آئندہ نسلوں کے دفاع اور زمین کے احترام کے لیے پاکستان کے شہریوں کی جانب سے منظور کیا گیا