نیتن یاہو کا انجام کیا ہوگا؟

بی بی کے لیے ایران صرف ایک خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ اس منصوبے کا حتمی ہدف ہے جو 25 سال سے زائد عرصے سے امریکا اور اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے لیے ترتیب دے رہے ہیں۔
شائع June 19, 2025

برسوں سے اتحادیوں اور مخالفین نے بنیامن نیتن یاہو کا مذاق اڑایا جو بار بار ’بھیڑیا آگیا، بھیڑیا آگیا‘ کا راگ الاپتا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے سخت گیر رہنما، طویل عرصے سے ایران کے جوہری طاقت بننے کے امکان سے پریشان ہیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے سے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ تہران چند ہفتوں میں ایٹم بم بنا لے گا۔ تشدد اور نسل کشی کا چہرہ سمجھے جانے والے نیتن یاہو کے کئی بار جھوٹ بولنے کے باوجود بھی ان کے بیانات کو جس طرح سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، اس کے لیے بھی خاص مہارت درکار ہے۔

اپنے غلط حساب کے باوجود نیتن یاہو نے اپنی ضد نہیں چھوڑی۔ 2012ء میں ایرانی بم کا کارٹون نما خاکہ لہرانے سے لے کر مغربی رہنماؤں پر ایران کے آیت اللہ علی خامنہ کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے تک، اسرائیلی وزیر اعظم طویل عرصے سے ایران کے ساتھ جنگ کو اپنی گھناؤنی میراث کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

  2012ء میں بنیامن نیتن یاہو ایرانی ایٹم بم کا خاکہ لہراتے ہوئے—تصویر: رائٹرز
2012ء میں بنیامن نیتن یاہو ایرانی ایٹم بم کا خاکہ لہراتے ہوئے—تصویر: رائٹرز

چنانچہ جب نیتن یاہو نے بالآخر جمعہ کی صبح ایران کی جوہری سینیٹری فیوجز اور عسکری رہنماؤں و تنصیبات پر ’حملوں‘ کے سلسلے کی منظوری دے دی تو یہ کوئی حیران کُن بات نہیں تھی۔ درحقیقت اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی پہلے سے ہی توقع کی جا رہی تھی یعنی جیسے کہانی خود لکھی جارہی تھی۔

قوم کے نام ویڈیو پیغام میں انہوں نے جواز پیش کیا کہ ’اگر ہم حملہ نہ کرتے تو 100 فیصد امکان تھا کہ ہم مارے جاتے‘۔ یہ پیغام 200 اسرائیلی جنگی طیاروں کے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہونے اور سیکڑوں بم گرائے جانے کے چند گھنٹے بعد جاری کیا گیا جس کے دھماکوں نے شہروں کو ہلا کر رکھ دیا اور آدھی رات کو نیند سے جگایا۔

پرانی عادتیں بہت مشکل سے ختم ہوتی ہیں، بی بی (بنیامن نیتن یاہو کو کہا جاتا ہے) نے وہی پرانا تھکا ہوا بیان دیا کہ ’ایران کے پاس 9 ایٹم بم بنانے جتنا افزودہ یورینیم موجود ہے‘ اور وہ ’اس افزودہ یورینیم سے ہتھیار بنانے کے لیے اقدامات کررہا ہے‘۔ اگر بی بی کے عام انداز میں بات کریں تو وہ اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم کرنے کے پابند نہیں کہ ایران دہائیوں سے لگی جوہری پابندیوں کی آخر کیوں پامالی کرے گا؟

نہ وہ یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مارچ میں ڈائریکٹر امریکی نیشنل اینٹیلی جنس تلسی گیببرٹ کی جانب سے دی گئی ’ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا‘ اور ’آیت اللہ خامنہ ای نے 2003ء میں معطل کیے گئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو بحال کرنے کی منظوری نہیں دی‘ گواہی کے بعد ایسا کیا بدلا کہ ایران جوہری بم بنانے لگا؟

نیتن یاہو نے کہا، ’ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ ہم خطرے کی آخری حد کو چھوچکے ہیں‘۔

یہ نیتن یاہو کا وہی تباہی کی پیش گوئی کرنے والا لہجہ ہے جس کی بنیاد پر وہ برسوں سے عوام کی وکالت کررہے ہیں۔ یہ جواز عام طور پر پیئرز مورگن جیسے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے تو کافی ہوتے ہیں جو تمام منطق کو ایک جانب کرکے صرف مغرب کی زبان بولتے ہیں۔ تاہم باقی ہم سب کے لیے نیتن یاہو کے بیان کردہ اسٹریٹجک مقاصد مضحکہ خیز ہیں۔

سب سے پہلے، نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں جس ایک نیوکلیئر سائٹ کا ذکر کیا وہ افزودگی کی سب سے بڑی تنصیب نطنز تھی۔ ایران نے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے کو بتایا ہے کہ نطنز پر حملہ ہوا ہے لیکن ملک میں دیگر جوہری تنصیبات فعال ہیں۔ بعدازاں اسرائیل نے فردو میں بھی حملہ کیا جہاں ایران پر 60 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کا شبہ ہے لیکن وہ کوئی قابلِ ذکر نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوا۔

گمان ہوتا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری انفرااسٹرکچر کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچایا ہے کہ جس سے وہ یہ تاثر دے سکے کہ اس نے یہ حملے اپنے دفاع میں کیے ہیں۔ جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد سے نیتن یاہو اپنی مخصوص روش پر قائم ہیں کہ جس میں وہ آبادی، صحافیوں اور اہم اقتصادی علاقوں کو تباہ کرنے کے لیے بمباری کررہے ہیں۔

  ایران کے شہر تہران میں اسرائیلی حملوں کے بعد شاران آئل ڈپو کو آگ لگا دی گئی ہے— رائٹرز
ایران کے شہر تہران میں اسرائیلی حملوں کے بعد شاران آئل ڈپو کو آگ لگا دی گئی ہے— رائٹرز

اکثر ماہرین میں یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ناکارہ کرنے میں اسرائیل تنہا ویسے بھی کوئی معنی خیز کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ اسرائیل کے بس کی بات نہیں۔ یہ خیال بڑے پیمانے پر اس لیے پایا جارہا ہے کیونکہ ایران نے اپنے جدید یورینیم افزودگی کے سینٹری فیوجز نطنز اور فردو جیسی سائٹس میں سیکڑوں میٹرز زیرزمین رکھے ہیں۔

ممکنہ طور پر ان جوہری سہولیات تک پہنچنے کے لیے 15 ٹن کے بنکر بسٹر بموں اور ایک مخصوص قسم کی فوجی کارروائی کی ضرورت ہوگی جو صرف امریکا فراہم کرسکتا ہے۔ اسرائیل کی کارروائیوں سے ممکنہ طور پر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں مہینوں کی تاخیر تو ضرور ہوسکتی ہے لیکن کیا یہ تاخیر خطے کو ایسی جنگ کی جانب دھکیلنے کے لیے کافی ہے جس کے دنیا پر غیریقینی نتائج مرتب ہوں گے؟

اب یہ سمجھنے کے لیے 4 اسٹار جنرل ہونے کی ضرورت نہیں کہ ایران کو دی جانے والی دھمکی کا نتیجہ اُلٹ ہوسکتا ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای 1968ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو ترک کرکے واقعی بم بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یقینی طور پر ان میں ایسا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی کرسٹین ایمن پور کے ساتھ انٹرویو میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باہاک نے کہا کہ ان (ایران) کے پاس 400 کلوگرام یورینیم افزودہ ہے جو 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ درست آلات کے ساتھ وہ گودام میں بھی اسے 90 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں اور پھر ان کے پاس ایٹم بم ہوگا’۔

پورا اسرائیل ’ایک بم ریاست‘ ہے یعنی اسے صرف ایک ایٹم بم سے بھی تباہ کیا جاسکتا ہے، اس تناظر میں آیت اللہ کو ان کے دارالحکومت میں بمباری کے ذریعے جوہری پروگرام سے روکنا دانش مندی نہیں لگتی۔

یہ سچ ہے کہ کسی خوفناک جنگ میں ملوث نہ ہونا بی بی کا انداز نہیں لیکن مذاکرات کے ایک اور دور سے چند روز قبل اسلامی جمہوریہ پر بمباری کرنا خاص طور پر ایک ایسے ملک کی جانب سے لاپروائی کا مظاہرہ ہے جو پہلے ہی عالمی حمایت سے محروم ہے۔

لہٰذا واحد قابلِ فہم نتیجہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے جوہری ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کے غبار میں اصل خطرے کی گھنٹی دراصل کچھ اور ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو نیتن یاہو کے سیاسی منظرنامے پر آنے سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کی کڑی امریکی سلطنت کی ابتدا سے جڑی ہے۔

امریکی سلطنت اور اس کے تھنک ٹینکس

جب 1991ء کے موسم سرما میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو امریکا قومی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہوا۔ جب اس کے پاس بڑا عالمی حریف نہیں رہا تو امریکا کے پاس دنیا میں اپنے کردار کا کوئی واضح مقصد نہیں تھا۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس کا دنیا میں کسی بھی قوم نے پہلی بار سامنا کیا تھا۔ شاید دنیا پہلی بار حقیقی معنوں میں یک قطبی تھی۔

سیاسی مصنف چارلس کروتھمر نے یہ خلا محسوس کیا اور اس دور کو ’یک قطبی لمحہ‘ قرار دیا جبکہ نیو کنزرویٹوز کے ایک پُرجوش گروپ نے اسے ایک سنہری موقع کے طور پر دیکھا۔ مضبوط، تھیوری پر مبنی خیالات کا استعمال کرتے ہوئے ان مفکرین نے بین الاقوامی معاملات کے لیے ایک انقلابی نقطہ نظر تیار کرنا شروع کیا کہ امریکا کو دنیا میں کس طرح کام کرنا چاہیے جو اسے غیرمتنازع عالمی سلطنت کے طور پر مضبوط کرے۔

  مالٹا سمٹ 1989ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سوویت صدر گورباچوف مصافحہ کر رہے ہیں جوکہ سرد جنگ کے خاتمے کا اشارہ ہے— تصویر: مالٹا انڈیپنڈنٹ
مالٹا سمٹ 1989ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سوویت صدر گورباچوف مصافحہ کر رہے ہیں جوکہ سرد جنگ کے خاتمے کا اشارہ ہے— تصویر: مالٹا انڈیپنڈنٹ

اس تحریک کے پیچھے مرکزی مفکرین واشنگٹن کے ارد گرد بیلٹ وے کے چند طاقتور ریسرچ گروپس (جو تھنک ٹینکس کہلاتے ہیں) میں جمع ہوئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ قابلِ ذکر اور شاید سب سے زیادہ بااثر پروجیکٹ ’فار اے نیو امریکن سنچری‘ (پی این اے سی) تھا۔ یہ ایک تھنک ٹینک ہے جو 1992ء میں اس بنیاد پر قائم کیا گیا تھا کہ ’امریکی قیادت امریکا اور دنیا دونوں کے لیے اچھی ہے‘۔

یہ جانتے ہوئے کہ امریکا کے پاس بے مثال فوجی طاقت ہے، پی این اے سی کے کلیدی اراکین نے ایسے خیالات اور حکمت عملی تیار کیں جو بعد میں امریکا کے عالمی سلطنت کی طور پر کام کرنے کے طریقے کو تشکیل دیتیں۔

ایک کلیدی دستاویز ’ٹوورڈز اے نیو ریگنائٹ فارن پالیسی‘ میں بنیادی پالیسی کے مختصر بیان نے امریکا پر زور دیا کہ وہ بے مثال طاقت سے پیدا ہونے والی اخلاقی ذمہ داریوں کا ادراک کرے اور انہیں قبول کرے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ امریکا، دنیا بھر میں لبرل جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک ’مفید عالمی قوت‘ بنے جہاں اسے عالمی رہنما کے طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں اصولوں کو نافذ کیا جاسکے۔

اگلے چند سالوں میں، نیو کنزرویٹو نظریہ آہستہ آہستہ حکومت کے اعلیٰ ترین طبقوں میں سرایت کرگیا۔ مثال کے طور پر بل کلنٹن کے صدارتی دور میں سیکریٹری آف اسٹیٹ میڈلین البرائٹ جیسی شخصیات نے ایک قسم کے تکبر کا مظاہرہ کیا جس نے امریکی کردار کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا، ’اگر ہمیں طاقت کا استعمال کرنا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا ہیں۔ ہم ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم زیادہ مضبوط ہیں اور ہم مستقبل میں دیگر ممالک سے خود کو آگے دیکھتے ہیں جبکہ ہم یہاں سب کے لیے خطرہ دیکھتے ہیں‘۔

اگر امریکا کو عالمی سامراج کا تخت سنبھالنا ہے تو اسے مشرق وسطیٰ کے وسیع ریگستانوں (اور اس کے نیچے موجود تیل کے وسیع ذخائر) پر کنٹرول حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ 1996ء کے موسمِ گرما میں نیو کنزرویٹو حکمت عملی سازوں کے ایک گروپ جس میں رچرڈ پرلے، ڈگلس فیتھ، ڈیوڈ ورمسر و دیگر شامل تھے، نے اسرائیل کے اس وقت کے نو منتخب وزیر اعظم کے لیے پالیسی حکمت عملی کا ایک خاکہ تیار کیا۔ یہ نومنتخب وزیراعظم ایک اُبھرتے ہوئے سخت گیر شخص تھے جو بنیامن نیتن یاہو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

’A Clean Break: A New Strategy for Securing the Realm‘ کے عنوان سے یہ دستاویز اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کا کلیدی حلیف بنانے کے بڑے نیو کنزرویٹو ہدف کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اس بات کا بنیادی خاکہ بن گیا کہ نیتن یاہو خطے میں اپنی سیاسی حکمت عملی کو کس طرح تشکیل دیں گے۔

کلین بریک کی حکمت عملی اسرائیل کے لیے تین مقاصد پر منحصر ہے۔ اوسلو معاہدے سے الگ ہونا اور فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستی حل کے خیال کو مسترد کرنا، مشرق وسطیٰ کے دشمن ممالک میں حکومتی تبدیلیوں کے لیے دباؤ ڈالنا جبکہ فوجی طاقت، آزاد مارکیٹ میں اصلاحات اور مسلم حکومتوں کی مخالفت کی بنیاد پر امریکا کے ساتھ قریبی، باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات استوار کرنا شامل ہے۔

جب بُش انتظامیہ نے وائٹ ہاؤس میں اقتدار سنبھالا تو اس منصوبے کے پیچھے بہت سے لوگ جیسے رچرڈ پرلے، ڈگلس فیتھ، ڈیوڈ ورمسر کے ساتھ دیگر نیو کنزرویٹو اور پی این اے سی اراکین جیسے کہ ڈک چینی، ڈونلڈ رمزفیلڈ اور پال وولفووٹز نے امریکی قومی سلامتی کی قیادت میں طاقتور کردار ادا کیا۔

اس وقت پی این اے سی نے ’Rebuilding America‘s Defenses: Strategy, Forces and Resources for a New Century.’ کے عنوان سے ایک رپورٹ کا مسودہ تیار کیا۔ اس میں اعتراف کیا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی اور بڑی فوجی مہم کی حمایت کے لیے امریکی عوام کو قائل کرنا آسان نہیں ہوگا جب تک کہ اس خیال کے پیچھے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ’ایک نیا پرل ہاربر‘ جیسا کوئی چونکا دینے والا واقعہ نہ ہو۔ ایک سال بعد دو بوئنگ 767 طیارے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے اور اس ناقابلِ بیان سانحے کی راکھ اور شعلوں میں نیو کنزرویٹوز کو موقع ملا جس سے فائدہ اٹھانے میں انہوں نے بالکل ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

امریکی عوام کی رائے عامہ اپنے حق میں لینے کے بعد بُش کابینہ میں موجود نیو کنزرویٹوز نے نیتن یاہو کے لیے واشنگٹن میں سرخ قالین بچھایا اور 2002ء میں مشرقِ وسطیٰ کے ’علاقائی ماہر‘ کے طور پر انہیں کانگریس میں خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔ پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ نیتن یاہو کی گواہی کلین بریک پیپرز کے مطابق تھی جوکہ نیو کنزرویٹوز کا ایجنڈا تھا۔

’اگر آپ صدام یا صدام کی حکومت کو ہٹاتے ہیں تو میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ اس سے خطے میں بہت زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوں گے‘، انہوں نے پیش گوئی کی۔ ’اس سے ایران جیسے ہمسایہ ممالک میں لوگ خصوصاً نوجوان دیکھیں گے کہ آمروں کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب انہیں ہٹانا ہوگا‘۔ لیکن حقیقت میں نیتن یاہو کے بولے گئے جھوٹ نے پورے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور یہ لاکھوں اموات و افراتفری کا باعث بنا۔ اسرائیل کی لیکود پارٹی کی ایک طاقتور شخصیت بنیامن نیتن یاہو کے لیے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔

  نیتن یاہو نے 2002ء میں کانگریس کے سامنے عراق میں حکومت کی تبدیلی کی وکالت کی— یوٹیوب
نیتن یاہو نے 2002ء میں کانگریس کے سامنے عراق میں حکومت کی تبدیلی کی وکالت کی— یوٹیوب

امریکی فوج کے ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل اور نیٹو کے سابق کمانڈر ویسلے کلارک کے مطابق، یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ نیتن یاہو نے 2002ء میں کانگریس میں اپنی گواہی کو عراق اور ایران میں امریکی حمایت سے ہونے والے حکومت کی تبدیلی کے آپریشن پر مرکوز رکھا۔

2007ء میں ایک انٹرویو میں ویسلے کلارک نے انکشاف کیا کہ 9/11 کے حملوں کے صرف 10 دن بعد وہ پینٹاگون گئے جہاں انہیں ’5 سالوں میں 7 ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنے‘ کے لیے امریکی فوجی کارروائی کا منصوبہ دکھایا گیا۔ امریکی اہداف میں عراق، شام، لبنان، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور ایران شامل تھے۔

اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ویسلے کلارک جھوٹ بول رہے تھے۔ کوئی خفیہ منصوبہ یا دستاویزات نہیں تھے اور مشرق وسطیٰ میں نام نہاد دہشتگردی کی جنگوں سے سالوں قبل پینٹاگون کے اندھیر کمروں میں منصوبے تیار نہیں کیے گئے تھے۔

اگر آپ کو یقین ہے کہ یہ سب محض اتفاق تھا تو آپ کو پورے خطے میں 20 سال سے زائد عرصے میں ہونے والی سلسلہ وار امریکی فوجی کارروائیوں کی وضاحت دینا ہوگی جوکہ یقیناً بہت مشکل ہے۔

آئندہ کئی برسوں تک امریکی جنگی مشین نے پینٹاگون کی فہرست میں شامل تقریباً ہر ملک کو ایک ایک کر کے ایسے نشانہ بنایا جیسے یہ کوئی سودا سلف کی فہرست ہو۔ جہاں جہاں امریکا کو مداخلت کا ایک چھوٹا سا بہانہ ملا، اس نے فوری ظالمانہ اور بے رحم کارروائیاں کیں۔ جہاں انہیں موقع نہیں ملا، وہاں موقع بنایا گیا۔ صدام حسین کا عراق ہو یا بشار الاسد کا شام، 20 سالوں سے کلارک کی فہرست میں موجود ہر حکومت کا یا تو تختہ الٹ گیا یا وہ تمام مقاصد کے لیے کمزور اور غیرفعال ہوچکی ہیں۔ سب کے ساتھ یہی ہوا لیکن صرف ایک ملک بچ گیا تھا۔

تو بی بی کے لیے ایران صرف ایک خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ اس منصوبے کا حتمی ہدف ہے جو 25 سال سے زائد عرصے سے ان کی فہرست میں موجود ہے۔ حالیہ فضائی حملے اور سخت بیانات صرف ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے حوالے سے نہیں۔ یہ سب ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں سلطنت کے مذموم منصوبے کو پورا کرنا ہے۔ اسی منصوبے نے نیتن یاہو کے سیاسی خیالات کو تشکیل دیا ہے اور وہ اپنے کریئر کے بیشتر حصے میں وہ اس کے ساتھ سنجیدگی سے وابستہ رہے۔

جہاں غزہ میں ان کے جنگی جرائم پر اندرونی و بین الاقوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے وہیں نیتن یاہو جانتے ہیں کہ کینسٹ میں ان کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر، یہ شاید پہلی بار ہے کہ ایران کی حکومت اس قدر کمزور ہے۔ گزشتہ سال کے دوران اس کا فضائی دفاع شدید کمزور ہوگیا ہے جبکہ کئی دہائیوں کی محنت سے بنائی گئیں لبنان کی حزب اللہ، غزہ کی حماس جبکہ شام اور یمن میں بنائی گئیں چھوٹی چھوٹی پراکسیز بھی کمزور ہوچکی ہیں۔

تزویراتی ماحول میں ہونے والی ان تبدیلیوں نے یہودی ریاست کے لیے ایک موقع پیدا کیا ہے کہ وہ 1980ء کی دہائی میں ایران-عراق جنگ کے بعد سے کسی بھی وقت کے مقابلے میں اپنے اور اپنے سرپرست امریکا کے لیے کم خطرے کے ساتھ کام کرے۔ یہ ایک نادر موقع ہے جسے نیتن یاہو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

اور یوں 30 سالوں کے طویل انتظار کے بعد ستارے بالآخر اسرائیلی وزیر اعظم اور امریکی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہیں۔ لیکن صرف ایک ٹرمپ جتنا بڑا مسئلہ راہ میں رکاوٹ ہے۔

آخری کھیل

وقت کے ساتھ ساتھ ٹرمپ یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ ان کے خارجہ پالیسی ایجنڈے میں سب سے نیچے ہے۔ یہاں تک کہ صدر بننے سے پہلے انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات میں مدد کے لیے اپنے مشیر اسٹیو ویٹکوف کو بھیجا تھا جبکہ انہوں نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا کہ وہ خود ایران پر حملہ نہ کرے کیونکہ اس سے اس کے سفارت کاری کے مواقع ضائع ہوسکتے ہیں۔

اگرچہ یہ حیران کن لگ سکتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں ہر قیمت پر ایک بڑی جنگ سے بچنے کے حوالے سے ثابت قدم رہے۔ جنگ سے بچنے کی خواہش عام لگتی ہے لیکن واشنگٹن کی سیاست میں یہ دراصل ایک انتہائی اہم اور نادر پیش رفت ہے۔

حملے سے چند ہفتوں میں امریکی صدر اور بی بی کے درمیان ممکنہ دراڑ کی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔ جب صدر نے مشرق وسطیٰ کے اپنے حالیہ دورے میں ڈیل میکر کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور خاص طور پر اسرائیل کو اپنی ٹریول لسٹ سے باہر کردیا تو میڈیا نے اسے اوول آفس اور کنیسٹ کے درمیان خلیج کے طور پر دیکھا۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو شامل کیے بغیر ایران اور یمن کے حوثی باغی جو اسرائیل کے دو سب سے بڑے دشمن ہیں، کے ساتھ بات چیت کی حالانکہ اسرائیل نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کی کسی بھی سفارت کاری کے معاملے میں اپنی شمولیت پر زور دیا ہے۔

جیسے ہی غزہ میں جنگ پر عالمی غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا تو معاملات اس وقت اور بھی زیادہ عجیب ہوگئے کہ جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے ’لاجسٹک مسائل‘ (جس کا مطلب ہے ’ہم ابھی آپ کے ساتھ نظر نہیں آنا چاہتے‘) کا حوالہ دیتے ہوئے اچانک اسرائیل کا اپنا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا۔

  نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ ’فیصلہ کن‘ اور ’دلیر‘ رہے ہیں— اسکائی نیوز
نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ ’فیصلہ کن‘ اور ’دلیر‘ رہے ہیں— اسکائی نیوز

نیتن یاہو مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ تباہ کن جنگیں شروع کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوسکتا ہے لیکن انکل سیم (امریکا) کی عسکری مدد اور سفارتی حمایت کے بغیر وہ اسرائیل کو ایران کے ساتھ تنازع میں گھسیٹنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ عراق اور لیبیا کے برعکس ایران کی حکومت گرانا اتنا آسان نہیں ہے۔ تہران کی حکومت 40 سال سے زائد عرصے سے سخت پابندیوں، عالمی تنہائی اور مسلسل مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود اب بھی ثابت قدم ہے۔

جیسے جیسے شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، ایران کے عوام قدرتی طور پر قومی جھنڈے تلے متحد ہوتے جائیں گے جس سے آیت اللہ کے خلاف داخلی بغاوتی تحریک کی امیدیں ختم ہوجائیں گی۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اصل تشویش یہ نہیں تھی کہ ایران اسرائیل کے خلاف جوہری بم استعمال کرے گا کیونکہ یہ تو خودکشی ہوگی بلکہ اگر ایران کے پاس بم ہوتا تو وہ اسرائیل (اور امریکا) کی آزادانہ طور پر خطے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا۔ لہٰذا اگر اسرائیل مشرق وسطیٰ میں غالب طاقت رہنا چاہتا ہے تو اسے ٹرمپ کی ایران کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے راہ تلاش کرنا تھی۔

اور یہ ایک کلیدہ مسئلہ ہے۔ نیتن یاہو کی علاقائی انتشار کی بھوک اسرائیل کی اصل صلاحیت سے زیادہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے نہ صرف اس جنگ کو شروع کرنے کے لیے ایک راستہ درکار تھا جس کا وہ طویل عرصے سے ارادہ رکھتا تھا بلکہ اسرائیل کو یہ دیکھنا تھا کہ ایران کے ٹرمپ کے ساتھ امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے اور امریکا کو ایسی لڑائی میں گھسیٹنے کے لیے کیا کرسکتے تھے جس میں ٹرمپ واضح طور پر شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ جب آپ اسے اس طرح دیکھتے ہیں تو نیتن یاہو کی حرکتوں کے معنی سمجھ آنے لگتے ہیں۔

ایران پر حملہ کرکے، نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کو ایک ایسی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ’فیٹ اکمپلائی‘ ہے جس میں نقصان پہلے ہی ہوچکا ہے اور اب پیچھے ہٹنا سیاسی طور پر مہنگا پڑے گا۔

نیتن یاہو کے نقطہ نظر سے، ان کی حکمت عملی جتنی سادہ ہو اتنی ہی خوبصورت ہے۔ جب بھی ایران کسی اسرائیلی حملے کا جواب دیتا ہے، یہ ایک بڑا بحران پیدا کرتا ہے جوکہ امریکا کو مداخلت کے ایک قدم مزید قریب لے جاتا ہے۔ جیسے جیسے تنازع بڑھتا جائے گا (جوکہ یقینی طور پر ہوگا)، ٹرمپ خوفناک انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یا تو مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے سب سے قابلِ اعتماد منصوبے کو چھوڑ دیں اور گھر پر سیاسی ردعمل کا سامنا کریں یا وہ جنگ میں شامل ہوں اور ’سب سے پہلے امریکا‘ کے حامی کنزرویٹوز سے بغاوت کریں جو غیرملکی تنازعات سے باہر رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امریکا کا تنازع سے باہر رہ کر اسرائیل کو تنہا لڑنے دینا، ٹرمپ کی سیاسی خودکشی ہوگی۔

نیتن یاہو بخوبی جانتے ہیں اور وہ واقف ہیں کہ جب ایک بار خون بہہ جائے اور صدر کی ساکھ داؤ پر لگ جائے تو یہ غیرمتعلقہ ہوجائے گا کہ آیا جنگ میں جانا ایک دانش مندی تھی یا نہیں۔ ایک وسیع علاقائی تنازعے کو جنم دے کر نیتن یاہو نے آزاد دنیا کے رہنما کو بین الاقوامی جنگی جرائم میں اپنا ساتھی بننے کے لیے گھیر لیا ہے۔

یہ جنگ ضرورت سے نہیں بلکہ حساب سے چھیڑی گئی ہے۔ یہ ہچکچاہٹ کا شکار سپر پاور پر دباؤ ڈالنے اور اسے اپنی منشا کے مطابق مجبور کرنے کے لیے اسرائیل کا سوچا سمجھا اقدام ہے۔ خیر امریکا کا ’ناگزیر اتحادی‘ کہلائے جانے کا آخر کیا فائدہ کہ جب آپ اسے ناگزیر حالات میں دھکیلنے کی اپنی طاقت کو استعمال نہیں کرسکتے؟

جمعہ کے روز نیتن یاہو کے حملے سے ٹرمپ واقعی لاعلم تھے یا وہ خفیہ طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایران کے ساتھ بات چیت کا ڈراما کر رہے تھے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس پر لوگ ان کی صدارت ختم ہونے کے طویل عرصے بعد بحث کریں گے۔ لیکن آج ٹرمپ ایک ایسی صورت حال میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ آیا وہ یہ تسلیم کرلیں کہ وہ حملے کے حوالے سے لاعلم تھے اور خود پر نااہل کہلائے جانے کا خطرہ مول لیں یا پھر وہ مکمل طور پر بورڈ پر ہونے کا اعتراف کرلیں جس سے وہ ’سب سے پہلے امریکا‘ کی حمایت کھودیں گے جن کی حمایت کی انہیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

تاہم امریکا کا اگلا اقدام کیا ہوگا، فیصلہ مکمل طور پر ٹرمپ کے اختیار میں ہے۔ اسرائیلیوں نے مبینہ طور پر انتظامیہ کو جنگی کوششوں میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے اور ایسا کرکے انہوں نے صدر کو ان کی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ایک ایسا امتحان جو تاریخ میں لکھا جائےگا اور آنے والی نسلوں کے لیے ان کی میراث کی وضاحت کرے گا۔

مشکل فیصلے

اب اس تنازع میں آگے کیا ہوتا ہے، اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ ٹرمپ کیا انتخاب کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے یروشلم کے حملے کو ’یکطرفہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے امریکا کو اسرائیل کے اقدامات سے دور کرنے کی کوشش کی۔ مارکو روبیو نے کہا، ’ایران کے خلاف حملے میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں تھا جبکہ خطے میں تعینات امریکی فورسز کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے‘۔

انتظامیہ ابتدائی طور پر ثابت قدم رہی، نیتن یاہو کی فوجی مدد کے مایوس کن مطالبات کو مسترد کیا اور اس کہانی پر قائم رہی کہ جمعہ کو ہونے والے حملوں میں امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا۔

’میک امریکا گریٹ اگین‘ کی مہم میں پہلے ہی دراڑیں نظر آ چکی ہیں۔ جیسے جیسے دونوں ممالک کے درمیان تنازع بڑھتا جارہا ہے اور جس طرح میڈیا امریکیوں کو اس میں شامل ہونے پر راضی کرنے کے لیے سخت محنت کررہا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ وہی پرانا بوسیدہ کھیل کھیلنے پر مجبور کررہے ہیں یعنی ایسا جواز یا بحران پیدا کیا جائے جو امریکا کی مداخلت کا تقاضا کرے۔

ہر طرف سے دباؤ آ رہا ہے، جنگ سے پیسہ کمانے کی خواہشمند دفاعی کمپنیاں، وہ کانگریس اراکین جو فوجی کارروائی کے لیے اوول آفس پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اور آن لائن اثر و رسوخ رکھنے والے تنازعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ وہ مکمل طور پر اس کی فہم ہی نہیں رکھتے۔

اس قسم کا دباؤ امن کے مضبوط ترین حامیوں کو بھی ہار ماننے پر مجبور کر سکتا ہے اور ٹرمپ ایسے شخص نہیں جو اپنے نظریے پر ثابت قدم رہیں۔ داخلی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ وہ تنازعات سے باہر رہنے کی اپنی پالیسی ترک کررہے ہیں اور اسرائیل کو انٹیلی جنس فراہم کرکے اور لاجسٹک مدد کرکے جنگی کوششوں کی حمایت کرنا شروع کرچکے ہیں۔

’ہم سب جانتے ہیں اور میں نے ایران کو تضحیک اور خاتمے سے بچانے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں بچانے کی بھرپور کوشش کی کیونکہ اگر معاہدہ ہوتا تو مجھے بہت اچھا لگتا‘، ٹرمپ نے کہا۔ اسرائیلی حملوں پر ان کا بدلتا ہوا مؤقف جنہیں وہ ’بہترین‘ اور ’کامیاب ترین‘ قرار دے چکے ہیں اور نیتن یاہو کو روکنے میں ان کی ناکامی، ان کے لیے وہ سیاہ داغ بن چکا ہے جو مستقبل کی صورت حال کو غیریقینی بناتا ہے۔

نیتن یاہو کے ہاتھوں میں کھیل کر وہ ایران کو ممکنہ مذاکرات سے مزید دور کررہے ہیں جس سے ایران کے ساتھ سفارتی حل کی راہ مزید تنگ ہورہی ہے جبکہ امریکا ایک اور بیگانی جنگ میں دھنستا چلا جارہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 1961ء میں صدر جان ایف کینیڈی کو بھی اپنی صدارت کے آغاز میں اسی طرح کے مخمصے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اقتدار سنبھالنے کے کچھ دنوں بعد ہی نوجوان صدر کو سی آئی اے کے ایک ناقص منصوبہ بندی پر مبنی آپریشن کا سامنا کرنا پڑا جو سنگین آپریشن سے زیادہ کسی کالج کا پرینک معلوم ہوتا تھا۔

’بے آف پگز‘ کا حملہ ایک شاندار گمراہ کن مہم جوئی تھی جس میں کیوبا کے جلاوطنوں کے ایک گروپ کو پرانے ہتھیاروں کے ساتھ فیڈل کاسترو کو معزول کرنے کی کوشش کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جو پہلے ہی مضبوط دشمنوں کے خلاف اپنی سبقت کو ثابت کرچکے تھے۔

  1961ء میں کیوبا میں بے آف پگز کے ناکام حملے کے دوران پکڑے گئے امریکی حمایت یافتہ کیوبا کے جلاوطن—برٹانیکا
1961ء میں کیوبا میں بے آف پگز کے ناکام حملے کے دوران پکڑے گئے امریکی حمایت یافتہ کیوبا کے جلاوطن—برٹانیکا

پھر بھی سی آئی اے کا گیم پلان تھا کہ آپریشن کو منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھنے دیا جائے کیونکہ جب یہ بری طرح انتشار کا شکار ہوگا تو کینیڈی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ امریکی ساکھ کو بچانے کے لیے مکمل امریکی فوجی مداخلت کی اجازت دے دیں۔

یہ ایک بہت ہی شاطر سیاسی اقدام تھا یعنی منصوبے کے تحت ناکامی کا مطلب ایک ایسا بحران پیدا کرنا تھا جو سی آئی اے کو جنگ کا جواز فراہم کرے گا۔ نئے صدر کے شامل ہونے کے بعد پیچھے ہٹنے کا مطلب دنیا کے سامنے امریکا کو شرمندہ کرنا ہوگا۔ ایسے میں انتخاب واضح تھا، یا تو مکمل فوجی طاقت کا استعمال کریں یا امریکا کی ساکھ کو گرنے دیں۔ آج نیتن یاہو بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں۔

آخر میں کینیڈی نے سی آئی اے کے منصوبے کو بلف قرار دیا اور ایسی جنگ میں اپنی فوجیں اتارنے سے انکار کیا جس کے کسی اسٹیک ہولڈر کے حق میں کوئی فوائد نہیں۔ اگر آج ٹرمپ بھی ایسا ہی کرتے ہیں تو یہ امریکا اور دنیا کے حق میں بہترین فیصلہ ہوگا۔


ہیڈر: اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو 16 مارچ 2023ء کو برلن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں—تصویر: اے ایف پی


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

فائق ظفر

لکھاری کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ہیں۔ آپ سیاسی، تاریخی اور سماجی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔