درختوں سے گھروں تک: سندھ میں آم کی پیداوار میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟

آم کے باغات کا حجم پچھلے 5 سالوں میں کم ہوا ہے جو 20-2019ء میں 59 ہزار 100 ہیکٹر سے کم ہوکر 24-2023ء میں 58 ہزار 900 ہیکٹر رہ گیا ہے۔
شائع July 3, 2025

یہ گرمیوں کی نم و گرم صبح تھی۔ میر شاہ محمد تالپور آم کی پیداوار کا معائنہ کرنے کے لیے حیدرآباد کے مضافات میں واقع اپنے وسیع باغات کا دورہ کر رہے تھے۔ تاہم ان کے سر پر چمکتا ہوا سورج اور 43.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھتا ہوا درجہ حرارت میر شاہ کے لیے کام کو مشکل بنا رہا تھا۔

البتہ آم کی کاشت کے لیے یہ موسمی حالات موزوں ہیں۔

میر شاہ کا باغ 450 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’میں 6 سال سے باغ کی دیکھ بھال کررہا ہوں۔۔۔ یہاں بہت سے درخت تقریباً 50 سال پرانے ہیں‘۔ 49 سالہ میر شاہ نے شدید گرمی سے بچنے کے لیے گردن پر فلیپ جبکہ سر پر کالی ٹوپی پہن رکھی تھی۔

علاقے کے بہت سے دیگر لوگوں کی طرح میر شاہ بھی اپنا آم کا باغ کسی اور کو سنبھالنے کے لیے کرائے پر دیتے ہیں۔ سندھ میں یہ ایک عام رواج ہے۔ صرف چند کسان خاص طور پر جو جدید کاشتکاری کے طریقے استعمال کرتے ہیں، اپنے باغات کی خود دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ صوبہ اپنے سندھڑی آموں کے لیے مشہور ہے جو جون کے پہلے ہفتے میں چنے جاتے ہیں۔

  دو مزدور پھل چننے کے لیے باغ کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جا رہے ہیں
دو مزدور پھل چننے کے لیے باغ کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جا رہے ہیں

اگرچہ آم کی دیگر اقسام جیسے سرولی، دسہری اور لنگڑا مئی کے وسط میں ہی درختوں سے اتار لیے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر آم سے رغبت رکھنے والوں کی سندھڑی پسندیدہ قسم ہے۔ یہ نہ صرف برآمد کے لیے مقبول ہے بلکہ اکثر سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے خصوصی تحفے کے طور پر سندھڑی آم دیا جاتا ہے۔

میر شاہ نے کہا، ’اس بار مارکیٹ کی طلب کی وجہ سے سندھڑی آم قبل از وقت اتار لیے گئے۔ آم درختوں سے گرنے لگتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ پک چکے ہیں اور چننے کے لیے تیار ہیں‘۔ اس سال کی فصل کے لیے انہوں نے ملتان کے ٹھیکیدار حاجی رمضان سیال سے سودا کیا۔

درختوں سے آپ کے گھروں تک

پنجاب سے آئے ہوئے مزدور جو اکثر آم کے موسم میں صوبائی سرحدیں پار کرتے ہیں، میر شاہ کے باغ میں مختلف کاموں میں مصروف ہیں۔ وہ آم چننے کے لیے درختوں پر چڑھتے ہیں، انہیں برآمد کرنے اور مقامی فروخت کے لیے چھانٹتے ہیں جبکہ وہ کھانا بھی پکاتے ہیں۔

یہ مزدور جن میں سے اکثر کا تعلق جنوبی پنجاب کے مظفر گڑھ، لیہ، ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے اضلاع سے ہے، فصل کی کٹائی کے موسم کے اختتام اور اس کے بعد مارکیٹنگ تک ایک ماہ سے زائد وقت تک باغات میں ہی رہتے ہیں۔

  ورکرز آم چننے میں مصروف ہیں
ورکرز آم چننے میں مصروف ہیں

اس کے بعد وہ پنجاب چلے جاتے ہیں جہاں فصل کی کٹائی نسبتاً تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ ان محنت کشوں کو باردانہ (لکڑی کے ڈبوں)، بھاروا (آموں کو ڈبوں میں بھرنا)، تھوکاوا (آموں کی پیکنگ) اور تروا (درختوں سے آم چننا) میں مہارت حاصل ہے۔ وہ جس رفتار سے باغات میں کام کرتے ہیں، اس سے ان کی مہارت واضح دکھائی دیتی ہے۔

درختوں سے آم اتارنے کو روایتی طور پر سندھی زبان میں ’پَٹائی‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ فارم ورکرز درختوں پر چڑھتے ہیں جبکہ دیگر ہاتھوں میں پولی پروپلین کے تھیلے لیے نیچے کھڑے رہتے ہیں۔ ان مخصوص تھیلوں کا استعمال اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ایک آم بھی نیچے زمین پر نہ گرے کیونکہ یہ پھلوں کے بادشاہ کی شکل اور معیار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

  دو مزدور درخت سے آم اتار رہے ہیں
دو مزدور درخت سے آم اتار رہے ہیں

پھر اب تک جو آم اتارے گئے ہیں، انہیں ایک جگہ جمع کرکے معیار کے مطابق ترتیب دینے سے پہلے ڈھیر کی صورت رکھا جاتا ہے۔ کچے آموں کی تیز، میٹھی خوشبو سے باغ کا یہ حصہ مہک اٹھتا ہے۔

روایتی سے جدید طریقوں پر منتقلی

میر شاہ کے باغ میں ٹھیکیدار رمضان سیال کے ورکرز بشمول ان کے جوان بیٹے مدثر سیال، آم چننے کا عام طریقہ استعمال نہیں کرتے جسے پَٹائی کہتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ ہر آم کو ایک چھوٹے سے تھیلے میں چنتے ہیں جس کے کنارے پر ایک تیز کٹر ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کام کو آسان بناتا ہے کیونکہ آم سیدھے ٹوکری میں جاتے ہیں اور بعد میں ہاتھ سے چھانٹ کر انہیں الگ کیا جاتا ہے۔

ایک پرانے آم کے درخت کے سائے تلے بیٹھے میر شاہ نے کہا، ’میرے خیال میں پَٹائی کے طریقے سے آم خراب ہو جاتے ہیں۔ اس سال مزدور نقصان سے بچنے کے لیے آم کو زیادہ احتیاط سے چن رہے ہیں‘۔

  کنٹریکٹ ورکر کچے سندھڑی آموں کا ایک گچھا اٹھائے ہوئے ہے
کنٹریکٹ ورکر کچے سندھڑی آموں کا ایک گچھا اٹھائے ہوئے ہے

رمضان سیال کے مطابق میر شاہ کے باغ کے تنون کو بڑے پیمانے پر کٹائی کی ضرورت ہے تاکہ سورج کی روشنی اور ہوا آسانی سے گزر سکے۔ انہوں نے کہا، ’میں نے میر کو مشورہ دیا ہے کہ کس طرح بڑی، الجھی ہوئی شاخوں کو کاٹنا ہے۔ یہ کام پورے باغ میں کرنا چاہیے‘۔

رمضان سیال نے بتایا، ’میں نے آم چننے کے لیے درختوں پر چڑھنے والے ایک مزدور کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور پھر میں ٹھیکیدار بن گیا۔ میں نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں 30 ہزار روپے میں اپنا پہلا باغ خریدا اور اب میرا بیٹا میرے ساتھ کام کرتا ہے‘۔

  پیکنگ سے پہلے باغ میں جمع کیے گئے سندھڑی آم
پیکنگ سے پہلے باغ میں جمع کیے گئے سندھڑی آم

ٹھیکیدار برآمد کنندگان کو اعلیٰ معیار کے آم فروخت کرتے ہیں اور سندھ بھر کی ہول سیل منڈیوں میں بھی اسے فروخت کرتے ہیں۔ ان کا ایران کو آم برآمد کرنے کا تجارتی معاہدہ ہے۔ ہر ڈبے میں عام طور پر 8 سے 9 کلو آم ہوتے ہیں۔ برآمد کنندگان عام طور پر ٹھیکیداروں سے بات کرنے کے بعد باغات کا دورہ کرتے ہیں اور کچھ برآمد کنندگان اب خود ٹھیکیدار کے طور پر کام کررہے ہیں۔

لیکن بہت سے کسان اپنے باغات کا انتظام خود نہیں سنبھالنا چاہتے۔ مٹیاری میں ایک باغ کے مالک ندیم شاہ نے کہا، ’آم کے باغ کی دیکھ بھال کرنا اور پھل فروخت کرنا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ میں نے پہلے بھی اپنا انتظام کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے ہمت ہار دی۔ یہ ایک دشوار کاروبار ہے جسے سنبھالنا مجھے مشکل لگتا ہے‘۔

فصلوں کو خطرات

آم کے باغات کا حجم پچھلے 5 سالوں میں کم ہوا ہے جو 20-2019ء میں 59 ہزار 100 ہیکٹر سے کم ہوکر 24-2023ء میں 58 ہزار 900 ہیکٹر رہ گیا ہے۔ تاہم آم کی پیداوار میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے جو 20-2019ء میں 3 لاکھ 29 ہزار 300 ٹن سے بڑھ کر 24-2023ء میں 3 لاکھ 87 ہزار 200 ٹن ہوگئی۔ پھر بھی یہ تعداد 10 سال پہلے کے مقابلے میں کم لگتی ہے کہ جب محکمہ زراعت سندھ کے مطابق، باغات 63 ہزار 144 پر محیط تھے اور آموں کی پیداوار 4 لاکھ 2 ہزار 514 ٹن تھی۔

  مزدور بڑے سائز کے کارٹن میں برآمدی معیار کے سندھری آم بھر رہے ہیں
مزدور بڑے سائز کے کارٹن میں برآمدی معیار کے سندھری آم بھر رہے ہیں

آم کی پیداوار کرنے والوں کو خدشہ تھا کہ مختلف عوامل کی وجہ سے اس سال پھلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ اس سال کے شروع میں ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آموں کو نقصان پہنچا۔ فروری اور مارچ میں پھول اور پھل آنے کے اہم مراحل میں پانی کی شدید کمی ایک اور بڑا عنصر تھا جس نے آم کی فصل کو متاثر کیا۔

پانی کی کمی سے میر شاہ کے آم کے باغات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آم کا سائز دیکھیں۔۔۔ یہ 970 گرام ہے لیکن اگر ہم فصل کی کٹائی سے پہلے باغ کو پانی فراہم کردیتے تو یہ ایک ہزار گرام سے زیادہ یا ایک ہزار 100 گرام کے قریب بھی ہوسکتا تھا‘۔ درختوں کو توڑنے سے پہلے پانی دینے سے زمین دلدلی ہوجاتی ہے جس سے ورکرز کی نقل و حرکت محدود ہوجاتی ہے۔

  ایک مزدور پھلوں کی پیکنگ سے پہلے خالی کارٹنوں کو ترتیب دے رہا ہے
ایک مزدور پھلوں کی پیکنگ سے پہلے خالی کارٹنوں کو ترتیب دے رہا ہے

اگر یہ کافی نہیں تھا تو ’میل فورمیشن‘ نامی بیماری اور ہوپر جیسے کیڑوں نے بھی آم کی فصل کو نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد تیز آندھی نے حیدرآباد، ٹنڈو الہ یار اور میرپورخاص کو نشانہ بنایا جوکہ آم کی کاشت کرنے والے اہم علاقے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے کچے آم درختوں سے نیچے گرگئے۔ کچھ درختوں پر اب بھی میل فورمیشن سے تباہ شدہ پھولوں کے آثار موجود ہیں۔

میل فورمیشن ایک بیماری ہے لیکن کاشتکار خراب شکل والے پھولوں کو درختوں میں ظاہر ہوتے ہی ہٹا کر اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ ترقی پسند کاشتکار اور سندھ آبادگار بورڈ (ایس اے بی) کے صدر محمود نواز شاہ کے مطابق کیڑے پھول کھلتے وقت سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوتے ہیں۔

وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’گزشتہ چند سالوں سے کیڑوں کے حملے کافی عام ہوچکے ہیں۔ ہمیں محکمہ زراعت سے تحقیق یا شواہد پر مبنی کسی طرح کے مشورے نہیں نہیں ملے کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے‘۔

نجی شعبے کے مفادات

ذوالفقار علی کچیلو کو زیریں سندھ میں آم کی کاشت کا ایک بڑا کاروبار وراثت میں ملا ہے۔ وہ کچیلو خاندان کی پانچویں نسل ہیں جو آم کے باغات کا کاروبار چلا رہے ہیں اور اب وہ روایتی فروخت کے علاوہ آن لائن فروخت کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں۔ ذوالفقار علی کا خاندان میرپورخاص میں تقریباً چند ہزار ایکڑ پر مشتمل آم کے باغات کا مالک ہے۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’میں زیادہ تر اپنے باغات کا انتظام سنبھالنے کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ اس سے مقامی معیشت میں مدد ملتی ہے۔ ہمیں ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے ورکرز پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی کارکنان کو تربیت دینی چاہیے‘۔ وہ کبھی کبھی اپنے فارم کے کچھ حصے کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ’اگر میں باغ کا کچھ حصہ ایک سال کرائے پر دیتا ہوں تو اگلے سال میں خود اس کا انتظام سنبھالتا ہوں۔ اس طرح میں کاروبار اور تجارتی حالات کے بارے میں سیکھتا ہوں‘۔

  کارکن کٹے ہوئے برآمدی معیار کے آموں سے کارٹن بھرنے میں مصروف ہیں
کارکن کٹے ہوئے برآمدی معیار کے آموں سے کارٹن بھرنے میں مصروف ہیں

انہوں نے کہا کہ خراب آموں کی پیداوار اور کیڑوں کے مسائل کھیتوں کو باقاعدگی سے متاثر کررہے ہیں۔ ذوالفقار علی نے کہا، ’اور ہمیں حکومتی سطح پر اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ حکومت صرف ایک ہی سرگرمی سے منسلک ہے اور وہ سالانہ مینگو فیسٹیول ہے جس میں آم کے معمول کی تقریبات کے علاوہ کوئی معنی خیز بات چیت نہیں ہوتی‘۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسے میں کاشتکار اپنی عقل یا نجی شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔ ’لیکن پھر نجی شعبے کے اپنے مفادات ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ آم کے باغات کے لیے حکومت کی جانب سے امداد تقریباً صفر ہے۔

ایس اے بی کے محمود نواز کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت نے پھلوں کی بیماری سے نمٹنے میں کسانوں کی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ پچھلے تین سالوں سے فصلوں کو کیڑوں اور خرابی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ کاشتکاری کے جدید طریقے استعمال کرنے والے کسان محتاط ہیں۔

  کارٹنوں میں رکھے ہوئے برآمدات کے لیے اعلیٰ معیار کے ہیں
کارٹنوں میں رکھے ہوئے برآمدات کے لیے اعلیٰ معیار کے ہیں

محمود نواز نے کہا، ’وہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے باقاعدگی سے اسپرے کرتے تھے‘۔ انہوں نے یاد کیا کہ جب 2023ء میں فصل کی خرابی کی اطلاع ملی تو اس نے کافی نقصان پہنچایا تھا کہ جب آم کی مجموعی پیداوار میں 20 سے 25 فیصد کمی ہوئی۔

محمود نواز کہتے ہیں، ’ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے، 2024ء میں ان کسانوں نے کسی حد تک قابو پایا۔ لیکن اس سال پھر کافی بڑے پیمانے پر فصل خراب ہوئی۔ کچھ باعلم کاشتکاروں نے مطلوبہ اسپرے کیے لیکن جن لوگوں میں آگاہی نہیں تھی وہ پیچھے رہ گئے اور انہیں نقصان اٹھانا پڑا‘۔

یہی وجہ ہے کہ آم کا سائز بھی چھوٹا ہوا ہے۔ پھلوں پر کیڑوں کے حملے کے واقعات بھی اس کے معیار میں واضح نظر آئے۔

تاہم ابھی کے لیے سندھ کے آم شاخوں سے لے کر گھروں میں پلیٹس اور تحفے کے ڈبوں تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ مٹھاس کا احساس پیدا کرتے ہیں جو تیز گرمی کو کچھ حد تک قابل برداشت بنا دیتا ہے۔ سب متفق ہیں کہ آم، اپنی تمام شکلوں، سائز اور ذائقوں میں، موسم کی سب سے بڑی خوشی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آم کی پیداوار کو درپیش اہم مسائل کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو ہم جلد ہی پھلوں کے بادشاہ کو کھونے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔


ہیڈر: محنت کش آموں کو درختوں سے توڑنے کے بعد ٹوکری میں بھر کر لے جارہا ہے—اس تحریر میں شامل تمام تصاویر عمیر علی نے فراہم کی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد حسین خان

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔