پاکستان میں شمسی توانائی کا خاموش انقلاب نیشنل گرڈ پر دباؤ ڈال رہا ہے
پاکستان میں متمول آبادیوں سے لے کر متوسط اور کم آمدنی والے گھرانوں تک خاموش توانائی کا انقلاب پھیل چکا ہے، کیونکہ صارفین بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور طویل بجلی کے کٹوتیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کراچی کی ایک تنگ گلی میں، شدید گرمی سے لڑتے ہوئے رہائشی، فریدہ سلیم کے معمولی گھر میں اس چیز کے لیے جمع ہوتے ہیں جس کا انہوں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا، یعنی بلا تعطل بجلی۔ فریدہ سلیم سولر پینلز سے بجلی کے حصول کی لاگت کے پیش نظر کہتی ہیں کہ’ سولر سے زندگی آسان تو ہو جاتی ہے، لیکن ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک مشکل انتخاب ہے۔’
فریدہ سلیم کے گھر کی بجلی گزشتہ سال منقطع کردی گئی تھی کیونکہ انہوں نے 18، 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد بطور احتجاج بل ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دو معذور بچوں کی بیوہ اور ماں ہونے کے ناطے، انہوں نے اپنے زیورات، جو پاکستان میں خواتین کے لیے ایک قیمتی ملکیت ہوتے ہیں، فروخت کیے اور رشتہ داروں سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے (630 ڈالر) میں دو سولر پینل، ایک سولر انورٹر اور توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بیٹری خریدنے کے لیے قرض لیا۔
جب درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر جاتا ہے، تو بچے فریدہ سلیم کے گھر کے دروازے کے نیچے سے آتی ٹھنڈی ہوا لینے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔

گھروں کے اوپر کھمبوں پر نصب سولر پینل 24 کروڑ افراد کے اس ملک میں ایک عام منظر بن چکے ہیں، جس کی تنصیب کی لاگت عام طور پر دو سے پانچ سال کے اندر وصول ہو جاتی ہے۔
عالمی توانائی کے تھنک ٹینک ’ ایمبر ’ کے مطابق، 2020 میں توانائی کے مجموعی مرکب میں دو فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود، 2024 میں شمسی توانائی 10.3 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
تاہم غیر معمولی تیزی کے ساتھ، 2025 کے پہلے پانچ مہینوں میں یہ دوگنا ہو کر 24 فیصد ہو گئی، اور پہلی بار توانائی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی۔ شمسی توانائی نے گیس، کوئلے اور جوہری بجلی کے ذرائع کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس میں گزشتہ کئی دہائیوں میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

نتیجے کے طور پر، پاکستان غیر متوقع طور پر اپنے قابل تجدید توانائی کے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھا ہے، جس کا مقصد 2030 تک اپنی توانائی کے مرکب کا 60 فیصد بنانا ہے۔ ایمبر کے چیف تجزیہ کار ڈیو جونز نے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان ’ چھت پر نصب سولر پینلز سے شمسی توانائی کے حصول میں ایک رہنما ’ بن چکا ہے۔
’ شمسی توانائی کے حصول کی عظیم دوڑ’
عالمی سطح پر ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کے ساتھ جو حکومتی سبسڈی میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں، نے پے در پے انتظامیہ کو بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرنے پر مجبور کیا۔
2022 سے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آیا ہے ، اس کے باوجود اس میں 155 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے، اور بجلی کے بل بعض اوقات کرایہ کی لاگت سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
’ رینیوایبلز فرسٹ ’ کے توانائی منتقلی کے ماہر محمد باسط غوری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ شمسی توانائی کی یہ دوڑ کسی حکومت کی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ لوگوں نے ہمارے روایتی پاور سسٹم سے واضح طور پر مایوس ہوکر یہ فیصلہ کیا ہے، جو بنیادی طور پر بہت ساری ناکامیوں پر مبنی ہے۔’

پاکستان اپنا زیادہ تر شمسی توانائی کا سامان ہمسایہ ملک چین سے حاصل کرتا ہے، جہاں قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ زیادہ پیداوار اور تکنیکی ترقی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی گرڈ کے صارفین میں کمی نے ایک غیر تیار شدہ حکومت کو پریشان کر رکھا ہے جس پر پاور سیکٹر کا 8 ارب ڈالر کا قرض ہے۔
پاکستان مہنگی گیس کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جسے وہ قومی توانائی فراہم کنندگان کو نقصان پر فروخت کرتا ہے۔ یہ آزاد بجلی پیدا کرنے والوں ( آئی پی پیز) ، جن میں سے کچھ چین کی ملکیت ہیں، کے ساتھ طویل معاہدوں میں بھی بندھا ہوا ہے، جن کے لیے اسے حقیقی طلب سے قطع نظر ایک مقررہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
مارچ میں ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شمسی توانائی میں اضافے نے ’ گرڈ صارفین پر غیر متناسب مالی بوجھ پیدا کیا ہے، جس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کو نقصان پہنچا ہے۔’ جون میں بجلی کی فروخت میں سال بہ سال 2.8 فیصد کمی ہوئی، جو مسلسل دوسرے سال کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

گزشتہ ماہ، حکومت نے تمام درآمد شدہ شمسی توانائی پر 10 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا، جبکہ توانائی کی وزارت نے صارفین سے اضافی شمسی توانائی خریدنے کی شرح کو کم کرنے کی تجویز دی ہے۔
عوام سے لاتعلق
تجزیہ کار جونز کا کہنا ہے کہ ’ گھریلو شمسی توانائی کا عروج بجلی کے بحران کا جواب تھا، اس کی وجہ نہیں،’ اور انہوں نے ’ گرڈ کے لیے کافی مسائل’ سے بھی خبردار کیا، جس میں شام کے وقت ہونے والا اضافہ بھی شامل ہے جب شمسی توانائی استعمال کرنے والے جو توانائی ذخیرہ نہیں کر سکتے وہ روایتی بجلی پر واپس آ جاتے ہیں۔
قومی گرڈ ارسلان عارف جیسے ادائیگی کرنے والے صارفین کو کھو رہا ہے، ان کی آمدنی کا ایک تہائی حصہ کراچی میں ان کے گھر کے بجلی کے بلوں پر خرچ ہوتا تھا جب تک کہ انہوں نے تقریباً 14 لاکھ روپے (تقریباً 4900 ڈالر) میں 10 کلو واٹ کا سولر پینل خرید نہیں لیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ پہلے، بجلی کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، میں ہمیشہ بجلی کی بندش سے پریشان رہتا تھا۔’ اب انہیں اپنے کیٹرنگ کے کاروبار کو جاری رکھنے کی ’ آزادی اور یقین’ ہے۔

سیالکوٹ میں، حفاظتی لباس بنانے والے حماد نور نے 2023 میں اپنے کاروبار کو شمسی توانائی پر منتقل کیا، اور اسے اپنا ’ بہترین کاروباری فیصلہ’ قرار دیا، انہوں نے 18 ماہ میں سرمایہ واپس حاصل کر لیا اور اب ہر ماہ 10 لاکھ روپے روپے بچا رہے ہیں۔
حماد نور کی دوسری فیکٹری کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی لاگت نئے حکومتی ٹیکس کے تحت اب تقریباً 15 لاکھ روپے بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ سولر پینلز پر عائد کردہ ٹیکس غیر منصفانہ ہے اور بڑی کاروباری کمپنیوں کو چھوٹے کاروباروں پر فائدہ دیتا ہے، پالیسی ساز عوام اور کاروباری برادری سے مکمل طور پر منقطع نظر آتے ہیں۔’
