قومی پرچم کی پہلی بار بین الاقوامی سطح پر نمائش کی ناقابل فراموش داستان!
اگست کا مہینہ آتے ہی ہم پاکستانی، قومی نغمے گنگنانے لگتے ہیں۔ ’کوئی ہم زندہ قوم ہیں‘ تو کئی ’اس پرچم کے سائے تلے‘ ترنم میں گانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ناہید اختر کا مشہور قومی نغمہ ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ میرے دل کے بہت قریب ہے جس کے خالق سیف زلفی ہیں۔
اس سبز ہلالی لہراتے پرچم کو دیکھ کر دل میں فخر کا جذبہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ باحیثیت صحافی ہم جب بھی بیرون ملک جاتے ہیں تو لازمی قومی شناخت کے لیے پاکستانی جھنڈے کے بیج، اسٹیکر اور کبھی کبھی سندھ کی پہچان کے لیے اجرک اور اپنے ہنرمند کاری گروں کے کشیدہ کاری والے بیگ ضرور لے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے لیے یہ شناخت اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ ہمارا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جس کی رو سے ہم قانونی طور پر ’پاکستانی‘ کہلاتے ہیں۔
آج 11 اگست کا دن، پاکستان بھر میں قومی پرچم کی منظوری کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے۔ پرچم کسی بھی ملک کی شناخت، اس کی پہچان ہوتا ہے۔ ہمارا سبز ہلالی پرچم 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس سندھ کے پہلے اسکول این جے وی اسکول میں منعقد کیا گیا جسے عارضی طور پر پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کا جھنڈا کس نے ڈیزائن کیا؟ ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر کب اور کہاں پہلی بار پاکستانی پرچم نے برٹش انڈیا کے باسیوں کو پاکستانی ہونے کا شرف بخشا؟ آئیے جانتے ہیں کیونکہ یہ کہانی انتہائی دلچسپ اور ناقابل فراموش ہے۔

اس کہانی کا سرا مجھے عقیل عباس جعفری کی تحقیقی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ کے مطالعے کے دوران ملا جس میں قائد اعظم کی باحیثیت گورنر جنرل حلف برداری کے بعد دوسری اہم خبر ’پاکستانی پرچم کی بین الاقوامی سطح پر نمائش‘ تھی۔
پاکستان کرونیکل کے پہلے ہی صفحے پر عقیل صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بین الاقوامی سطح پر سب سے پہلے 15 اگست 1947ء کو فرانس میں اسکاؤٹ جمبوری کے موقع پر لہرایا گیا تھا۔ کہانی 78 سال پرانی صحیح لیکن ہے بڑی دلچسپ کیونکہ ابھی ہندوستان کی تقسیم مکمل نہیں ہوئی تھی کہ جب 135 آل انڈیا بوائے اسکاؤٹ پر مشتمل ایک دستہ فرانس کے شہر موآسوں (Moisson) پہنچ چکا تھا۔
یونین جیک تلے اس دستے میں 124 بوائے اسکاؤٹ اور 11 اسکاوٹرز حصہ لے رہے تھے۔ اس دستے کی کمان آل انڈیا بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل مسٹر جی ٹی جے تھنڈیس کر رہے تھے۔ اس جمبوری کا اہتمام 9 اگست سے لے کر 17 اگست 1947ء تک ہونا تھا۔
ابھی اعلان آزادی اور برصغیر کے نقشے پر دو نئے ممالک کا اضافہ ہونا باقی تھا۔ لہٰذا دستے میں موجود ہندوستانیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ 15 اگست کو آزادی مناتے ہوئے اپنا ہندوستانی جھنڈا لہرائیں گے۔ دستے میں موجود کچھ لوگوں کے پاس انڈیا کا جھنڈا موجود تھا۔ جمبوری کی انتظامیہ نے اجازت بھی دے دی۔
اب گروپ میں موجود مسلمانوں نے بھی عزم کیا کہ وہ بھی پاکستان کا جھنڈا لہرائیں لیکن اس وقت تک پاکستانی جھنڈے کی اصل اور حتمی شکل واضح نہیں ہوئی تھی۔ اسکاؤٹس پریشان تھے کہ کیا کریں۔ یہاں کراچی میں سندھ اسمبلی میں 11 اگست کو حکومتِ پاکستان، لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان کا جھنڈا منظور کرچکی تھی۔
عقیل عباس جعفری مزید لکھتے ہیں کہ اخبار میں چھپنے والی تصویر دیکھ کر رات ہی رات میں پاکستانی جھنڈا سی کر لہرایا گیا۔ دستے کو ہندوستانی اور پاکستانی دستے میں تقسیم کردیا گیا۔ پاکستانی دستے کی قیادت قریشی محمد اقبال اور عنایت علی گردیزی نے کی۔ سبز رنگ کا کپڑا شملہ سے تعلق رکھنے والے اسکاؤٹس مدن موہن کی پگڑی سے لیا گیا جبکہ سفید کپڑا عنایت علی گردیزی نے اپنی قمیض پھاڑ کر دیا اور اسے دو فرانسیسی گرلز گائیڈ نے رات بھر سلائی مشین پر سی کر تیار کیا۔
آزادی کی نوید یہ سبز پرچم
یہ خبر تفصیلی تھی، لہٰذا ہم نے آرٹس کونسل کے سامنے واقع سندھ بوائے اسکاؤٹ کے دفتر پہنچ کر سربراہ اختر میر صاحب سے روداد سننے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ براہ راست تاریخ جان سکیں۔ انہوں نے 15 اگست 1947ء کے دن کی روداد اور جذبہ وطینت سے سرشار داستان سنائی۔ اختر صاحب کی روداد میں کہیں کہیں تاریخ اور عدد کا رد و بدل نظر آتا ہے لیکن ہم نے اس داستان کو انہی کی زبانی سنانے کا فیصلہ کیا۔
بوائے اسکاؤٹ کے فل یونیفارم میں اختر صاحب نے ڈان نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بین الاقوامی سطح پر سب سے پہلے 15 اگست 1947ء کو فرانس میں اسکاؤٹ جمبوری کے موقع پر لہرایا گیا۔ ہم بوائے اسکاوٹ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم نے پاکستانی پرچم سر بلند کیا‘۔

انہوں نے ڈان نیوز ڈیجیٹل کو مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’1920ء میں دنیا کی پہلی جمبوری لندن میں منعقد ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ 1947ء میں 9 اگست سے 18 اگست کے درمیان چھٹی جمبوری فرانس کے شہر موآسوں میں ہوئی جس میں ہندوستان کا ایک 151 اسکاؤٹ پر مشتمل دستہ بھی شریک تھا۔ اس جمبوری میں متحدہ ہندوستان کا دستہ برطانوی پرچم یونین جیک تلے 27 جولائی 1947ء کو بمبئی سے بہ ذریعہ بحری جہاز روانہ ہوا تھا۔ جب پاکستان اور ہندوستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تو اسکاؤٹ نے جمبوری کے منتظمین سے کہا کہ وہ اپنے اپنے ممالک کا پرچم لہرانا چاہتے ہیں جس کی اجازت انہیں دے دی گئی۔
’یہاں متحدہ ہندوستان کا دستہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ پاکستانی دستے کی قیادت قریشی ایم اقبال اور ان کی معاونت عنایت اللہ گردیزی کر رہے تھے۔ ہندوستانی دستے کے پاس نئے ملک کا پرچم موجود تھا لیکن پاکستانی دستے کے پاس کوئی واضح پرچم نہیں تھا کیونکہ اب تک تحریک پاکستان مسلم لیگ کے پرچم تلے چلی آرہی تھی اور آزاد ملک کے جھنڈے کے واضح نقوش سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن 11 اگست کو سندھ اسمبلی جو اس وقت کی دستور ساز اسمبلی تھی، قائد اعظم کی سربراہی میں لیاقت علی خان نے پاکستانی جھنڈا منظور کیا۔ اس ہی لیے ہم پاکستانی پرچم ڈے آج 11 اگست کو مناتے ہیں‘۔
اختر صاحب نے ہمیں پھر 78 سال پہلے لے جاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی دستہ ابھی تلاش میں ہی تھا کہ الجزائر کے اسکاؤٹ کے پاس ایک اخبار تھا جس میں دو ممالک کے قیام کی خبر کے ساتھ ہندوستان پاکستان کے نقشے، پرچم کے ساتھ گاندھی اور قائد اعظم کی تصاویر بھی تھیں۔ 13 اگست کو پاکستانی پرچم کو بنانے میں ہندوستانی دستے کے اسکاؤٹ مدن موہن جن کا تعلق شملہ سے تھا، نے بھرپور مدد فراہم کی۔ انہوں نے اپنی پگڑی سے سبز رنگ کا ٹکڑا دیا اور عنایت اللہ نے اپنی سفید قمیض سے کپڑے کا انتظام کیا جبکہ فرانس کی دو گرلز گائیڈ، مس الفا اور مس ڈولا نے رات 11 بجے تک سلائی مشین سے پرچم سی دیا۔
اختر میر نے مزید بتایا کہ ’پھر فیصلہ ہوا کہ اگلے دن خیر سگالی کے جذبے کے تحت جمبوری کے میدان میں پاکستانی پرچم ہندوستانی دستے کی قیادت کرنے والے جی ایم مارتھر لہرائیں گے۔ اسی جذبے سے ہندوستانی پرچم کو پاکستانی اسکاؤٹ قریشی ایم اقبال نے لہرایا اور اسکاؤٹ کا جھنڈا سرفراز رفیقی کے ہاتھ میں تھا۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ 14 اگست 1947ء کو فرانس جمبوری میں اس طرح ہندوستان، پاکستان اور اسکاؤٹ کا جھنڈا لہرایا گیا‘۔

اختر میر نے مسکراتے ہوئے ایک دلچسپ بات بتائی کہ جن فرانسیسی گرلز گائیڈ نے پرچم سیا تھا، انہیں ان کی محنت کی قیمت جب پاکستانی دستے نے پوچھی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ قیمت دے سکیں گے؟ سب نے کہا کیوں نہیں۔ ان گرلز گائیڈ نے کہا کہ جیب میں جو پیسے ہیں وہ دے دیں، تو تمام پاکستانی دستے نے اپنی جیبیں خالی کر دیں۔ اگلے دن ہندوستان اور پاکستان کے اسکاؤٹ نے ایک تقریب منعقد کی جس میں ان گرلز گائیڈ نے وہ تمام پیسے پاکستانی دستے کو یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے ایک نو مملکت کا جھنڈا تیار کیا۔
18 اگست کے بعد اسکاؤٹ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ بمبئی جانے کے بجائے کراچی کی بندرگاہ پر اتریں گے۔ جب قائد اعظم کو یہ معلوم ہوا کہ بوائے اسکاؤٹ نے پاکستان کا قومی پرچم بین الاقوامی سطح پر لہرایا ہے تو وہ ان کے استقبال کے لیے خود پہنچے۔ جہاز ایک گھنٹے تاخیر سے ساحل پر لنگر انداز ہوا۔ قائد نے پورٹ پر ہی دستے کا انتظار یہ کہہ کیا کہ ’آج میرے ملک کے پہلے سفیر آرہے ہیں‘۔
سرفراز رفیقی کا نام پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں سوال آیا کہ ہم نے کسی سڑک کا نام ان سے منسوب دیکھا ہے لیکن کہاں یاد نہیں آرہا تھا۔ گوگل سے مدد لی اور عقد کھلا کہ کراچی کا مشہور سرکاری ہسپتال ’جناح پوسٹ گریجوٹ میڈیکل سینٹر‘ عرف جناح ہسپتال سرفراز رفیقی شہید روڈ پر ہی واقع ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاہور کی ایک سڑک بھی ان سے منسوب ہے۔
’اس دشت میں ایک شہر تھا‘ کے مصنف اقبال ایم منڈویا لکھتے ہیں کہ ’سرفراز پاک فضائیہ کے پائلٹ تھے اور انہوں نے اسکواڈرن لیڈر کی حیثیت سے 1965ء کی جنگ میں جامِ شہادت نوش کیا تھا‘۔

پاک فضائیہ کی کتاب ’(Sentinels in the Sky (A Saga of PAF‘s Gallant Air Warriors’ کے مطابق ’سرفراز رفیقی 1935ء میں مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں پیدا ہوئے۔ 13 سالہ رفیقی فرانس میں چھٹی جمبوری میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ 1965ء کی جنگ میں انہوں نے شہید ہونے سے قبل کئی بھارتی جہاز گرائے۔ جس پر انہیں ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ بھارتی پائلٹ گاندھی نے رفیقی کے جہاز کو نشانہ بنایا۔ سیسل چوہدری نے ان کی جگہ کمان سنبھالی اور گاندھی کے جہاز کو مار گرایا‘۔

پاکستانی پرچم کی تاریخ
ہم جانتے ہیں کہ تحریک پاکستان سے پہلے تحریک خلافت کی سیاسی سرگرمیاں مسلمانانِ ہند کے لہو کو گرماتی تھیں۔ مسلم خلافت کی پہچان اور سلطنت عثمانیہ کا جھنڈا ہی پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا جھنڈا بنا اور اسے ہی بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا گیا۔ جب قائد کے سامنے پاکستان کے جھنڈے کو حتمی شکل دینے کی بات سامنے آئی تو انہوں نے اپنے مشیروں سے بات کی۔
1906ء مسلم لیگ کا پرچم، سبز اور چاند تارے والا منظور ہوا تھا۔ لہٰذا اس ہی جھنڈے میں سفید رنگ کے اضافے سے پرچموں کے دو ڈیزائن تیار کیے گئے۔ ان میں سے ایک پرچم میں دائیں اور بائیں سفید رنگ اور درمیانی سبز حصہ چاند ستارے سے مزین تھا جبکہ دوسرا پرچم موجودہ پرچم کے مطابق ہی تھا۔ تاہم اس میں ستاروں کی تعداد 5 تھی۔
یہ 5 ستاروں والا پرچم بنیادی طور پر قائد اعظم کی تجویز تھا۔ قائد اعظم ان 5 ستاروں کو پاکستان کے 5 صوبوں (بنگال، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد/ موجودہ خیبرپختونخوا) کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تاہم پہلے مجوزہ پرچم کو پذیرائی نہیں مل سکی اور دوسرے جھنڈے کے حوالے سے سردار عبدالرب نشتر کی دلیل تھی کہ ’پاکستان کے ساتھ 5 صوبے ہی نہیں بلکہ کئی ریاستیں بھی شامل ہوں گی اور ابھی ان کی درست تعداد واضح نہیں بلکہ ان میں کمی بیشی کا بھی امکان ہے۔ اس لیے اگر یونٹس کی تعداد میں تبدیلی واقع ہوگئی تو وقتاً فوقتاً چاند کے ساتھ ستاروں کی تعداد بدلنا پڑے گی اور اگر نہ بدلیں تو 5 ستارے بے معنی ہوکر رہ جائیں گے‘۔
یہ پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ سردار صاحب دور اندیش ہی نہیں صاحبِ نظر بھی تھے اور ان کی دلیل میں کافی وزن تھا۔

سردار عبدالرب نشتر کے ان دلائل کی روشنی میں یہی طے پایا گیا کہ پرچم پر ایک ستارہ ہی رہے گا کیونکہ مسلم لیگ کے پرچم میں بھی ایک ستارہ ہے۔ قومی قیادت کے فیصلے کی روشنی میں سید امیر الدین قدوائی کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق پرچم کی منظوری دے دی گئی۔
1901ء میں اُتر پردیش کے بارہ بنکوی میں پیدا ہونے والے بیرسٹر امیر احمد قدوائی صرف مسلم لیگی رہنما نہیں تھے بلکہ انہوں نے تحریک خلافت میں بھرپور حصہ لیا تھا جبکہ مولانا شوکت علی انہیں ’میرے لیفٹینٹ‘ کہا کرتے تھے۔ آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ کے سیکریٹری بھی رہے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ پنچاب یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ بنے اور اپنے آخری وقت تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1991ء میں نواز شریف کی حکومت نے گولڈ میڈل سے نوازا۔
آگے بڑھیں تو 11 اگست 1947ء کو بھی آج ہی کی طرح پیر کا دن تھا۔ اس موقع پر قائد ملت لیاقت علی خان نے قومی پرچم کی منظوری کے لیے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ
نوابزادہ لیاقت علی خان کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ یوں سبز ہلالی پرچم ریاست پاکستان کی علامت بنا۔

پاکستان کا پہلا جھنڈا
پاکستان کرونیکل میں 6 فروری 1967ء کی تاریخ کے صفحے پر درج ہے کہ ’آج پاکستان کا پہلا پرچم سینے والے الطاف حسین کا انتقال ہوگیا‘۔ ایک اور مضمون میں عقیل عباس لکھتے ہیں کہ پہلے پرچم کی تیاری کا اعزاز بلند شہر (اترپردیش) سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں ماسٹر افضال حسین اور ماسٹر الطاف حسین کو حاصل ہوا۔ یہ دونوں بھائی دہلی میں درزی کا کام کرتے تھے اور اپنی مہارت کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کی سیکریٹری نور الصباح بیگم کے بیٹے ثمین خان لیاقت علی خان کے پاس آئے۔ ان کے پاس لائف میگزین کی رپورٹر بیٹھی ہوئی تھیں۔ لیاقت علی خان نے ثمین خان سے کہا انہیں دہلی کی سیر کروا دیں۔
ہم نے اس سلسلے میں بیرسٹر ثمین خان کی بیٹی ڈاکٹر رباب حسن سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کا تعلق تحریک پاکستان سے رہا ہے۔ ان کی دادی نورالصباح بیگم خلافت تحریک کی رہنما بی اماں سے ملیں اور انہیں اپنا زیور اس تحریک میں دیا تھا۔ وہ 1937ء کے بعد سے مسلم لیگ میں متحرک ہوئیں اور دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی سیکریٹری رہیں۔ وہ واحد خاتون تھیں جو ورکنگ کمیٹی کا حصہ تھیں۔ 1945ء میں قائد اعظم سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ 2002ء میں ان کے نام کا ایک ڈاک ٹکٹ پر بھی جاری کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر رباب نے بتایا کہ ان کے والد محمد ثمین خان مسلم لیگ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے رکن تھے اور قیام پاکستان کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن منتخب ہوئے۔
رباب حسین نے ڈان نیوز ڈیجیٹل کو ’لائف میگزین‘ کے صفحات دکھاتے ہوئے بتایا کہ میرے والد گواہ تھے کیونکہ الطاف حسین کی تصویر ان کے سامنے کھینچی گئی تھی’۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی سی گئیں شیروانی مشہور تھیں۔ امریکی جریدے ’لائف میگزین‘ کی فوٹو جرنلسٹ ’مارگریٹ بورک وائٹ‘ کو دہلی کی سیر کا کام لیاقت علی خان نے ثمین خان کے سپرد کیا تھا۔ دہلی کی سیر کے دوران انہیں درزی سے اپنی شیروانی اٹھانے کا خیال آیا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ابھی شیروانی سلی ہی نہیں کیونکہ ان کے پاس پاکستان کا پہلا جھنڈا سلنے کے لیے آیا ہوا ہے۔

مارگریٹ نے ان کی تصویر کھینچنے کی اجازت مانگی اور یہ تصویر کھینچی۔ لائف میگزین کا یہ شمارہ بنیادی طور پر برصغیر کی تقسیم کو پیش کر رہا تھا۔ یہ شمارہ 18 اگست 1947ء کو شائع ہوا جس کے سرورق پر ماونٹ بیٹن کی تصویر ہے۔ دیگر 4 صفحات پر تصاویر کے ذریعے برصغیر کی تاریخ تقسیم کو پیش کیا گیا تھا۔

پاکستانی پرچم اور اس کی تاریخ سے جڑی ان تاریخی واقعات کے اختتام پر میں یہی کہوں گی کہ ہمارا پرچم ہمارے وقار کی علامت ہی نہیں بلکہ ہمیں پاکستانی ہونے کا ’نشان حق‘ ہے۔ دنیا کے پرچموں میں جب ہمارا سبز ہلالی پرچم سر بلند ہوتا ہے تو وہ چاہے کے ٹو کے برف پوش پہاڑ ہوں یا کسی اولمپک کے میدان میں جیت سے سرشار ارشد ندیم کا دمکتا چہرہ، ساتھ پاکستانی پرچم ضرور موجود ہوتا ہے جو ہم سب کی شناخت ہے۔ بے شک اپنی شناخت اور خطہ زمین سے رشتہ کا بہترین اظہار ہمارا یہ پرچم ہی ہے۔ آئیے اسے اپنی محنت اور محبت سے بلند سے بلند تر کرتے جائیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

