پنجاب میں تباہ کُن سیلاب سے قبل بھارت کی ’وارننگ‘ کس حد تک مؤثر ثابت ہوئی؟
اس مون سون موسم نے واضح کردیا ہے کہ کس طرح سیاست دریا میں مداخلت کررہی ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے تعاون سے چلنے والا پائیدار میکانزم ایسے وقت میں تباہ ہورہا ہے جب خطے کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
اپنے ’محدود انتباہات‘ کو پاکستان میں ممکنہ سیلابی صورت حال کے حوالے سے تشویش کے اشاروں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، نئی دہلی نے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر دوبارہ زور دینے کے لیے شمالی بھارت اور پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کا استعمال کیا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ جس پر 1960ء میں دستخط کیے گئے تھے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کے باوجود برقرار رہا ہے جو کہ ایک نادر مثال ہے۔ حتیٰ کہ جنگوں اور سفارتی کشیدگی کے دوران بھی دونوں ممالک نے معاہدے کے تحت آپس میں اعداد و شمار کا اشتراک، پانی کی تقسیم اور سیلاب کے انتظام کے لیے فریم ورک مہیا کیا ہے۔
جولائی اور اکتوبر کے درمیان یہ معاہدہ دریا کے بہاؤ کے بارے میں تقریباً تمام اپ ڈیٹس کو یقینی بناتا تھا جس میں معلومات کا تبادلہ مستقل انڈس کمیشن (پی آئی سی) کے ذریعے کیا جاتا تھا جو اسی مقصد کے لیے قائم کی جانے والی ایک مشترکہ باڈی ہے۔
اس تعاون کو آہستہ آہستہ گزشتہ دہائی میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ رواں سال اپریل میں اس وقت مکمل طور پر تعطل کا شکار ہوا جب بھارت نے پہلگام دہشتگردانہ حملے کے بعد اسے یکطرفہ طور پر معطل کیا۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔
اس کے بعد سے اعداد و شمار کا معمول کا اشتراک ختم ہوگیا۔ 2014ء-2013ء کے ارد گرد جب ڈیٹا کے اشتراک میں کمی آنا شروع ہوئی تب سندھ طاس معاہدے کا ڈھانچہ سیلاب کے حوالے سے انتہائی تفصیلی معلومات کا تبادلہ کرتا تھا۔
اس وقت سیلاب کی اطلاعات محض انتباہات تک محدود نہیں تھیں۔ ان میں سیلاب کے ممکنہ حجم، متوقع اوقات اور مخصوص ندیوں کے متاثر ہونے کی پیشگی معلومات شامل تھیں۔ جن معلومات کا اشتراک ہوتا تھا ان میں روزانہ کی بنیاد پر مخصوص دریائی مقامات پر سطح، پانی کا بہاؤ اور زیرِ آب آنے والے علاقوں کا احاطہ کیا جاتا تھا۔
تاہم رواں مون سون بھارت نے دریائے توی اور ستلج کے حوالے سے سیلاب کا الرٹ جاری کیا۔ لیکن پی آئی سی استعمال کرنے کے بجائے یہ انتباہات اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجی گئیں۔
یہ انتباہات بنیادی تھیں اور ان میں اکثر ’زیادہ سیلاب‘ کا اشارہ دیا جاتا ہے جس سے پاکستانی حکام کو پانی کے اخراج کی مقدار اور اوقات کا اندازہ لگانا پڑتا ہے۔
سابق وفاقی فلڈ کمشنر احمد کمال نے ان مبہم معلومات پر مایوسی کا اظہار کیا، ’یہ کہہ کر ہائی فلڈ ہے، بھارت صرف بنیادی عام معلومات دے رہا ہے جس میں کوئی واضح تفصیلات نہیں کہ کتنا پانی چھوڑا جارہا ہے‘۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ یہ الرٹ معاہدے کی پابندیوں کے بجائے خیرسگالی کے جذبے کے تحت دیے گئے۔ ہمسایہ ملک کے میڈیا نے کشیدہ تعلقات کے باوجود نئی دہلی کے اقدام کو ’انسانیت‘ کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا۔
پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پی آئی سی کو نظرانداز کرنے سے معاہدے کے ادارہ جاتی فریم ورک کو نقصان پہنچتا ہے اور سیلاب کے انتظام کو سیاسی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کے مطابق، ’سرکاری سفارتی چینلز کے ذریعے سیلاب کی وارننگ بھیجنے کے فیصلے نے تین پیغامات بھیجے۔ سب سے پہلے، بھارتی عوام کے سامنے اس نے ظاہر کیا کہ ان کی حکومت سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ دوسرا، اس نے پاکستان پر واضح کیا کہ معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے کے کسی بھی دباؤ میں وہ نہیں آئیں گے۔ اور تیسرا دنیا کے سامنے، بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود تشویش سے کام لیتے ہوئے بھارت کو دیکھ بھال کرنے والا اور انسان دوست ملک ظاہر کرنے کی کوشش کی‘۔
یہاں پاکستان میں عوام کی بڑی تعداد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب کا ضلع نارووال سب سے زیادہ متاثر ہوا کہ جہاں بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور گھروں و کھیتوں کو نقصان پہنچا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنے زیرِ آب آنے والے حلقے کا دورہ کیا اور بڑی تباہی کا ذمہ دار نئی دہلی کو ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا، ’گمان ہوتا ہے کہ بھارت نے جان بوجھ کر پانی جمع کیا اور اسے بڑی مقدار میں چھوڑا تاکہ پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا جا سکے۔ پانی کو ہتھیار بنانے اور اسے جارحیت کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت کی جانی چاہیے حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ساتھ تعاون کیا ہوتا تو بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکتی تھی‘۔
اپنے طور پر پاکستان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان بھی معاہدے کی پاسداری کرتا رہا ہے۔
پانی کی سیاست
بدھ کو پاکستان نے روایتی چینل، پاکستانی کمشنر برائے انڈس واٹر کا استعمال کرتے ہوئے (جس طریقے کو بھارت نے مکمل نظرانداز کردیا ہے) دریائے راوی، ستلج اور چناب کے لیے اپنے طور پر سیلاب کے الرٹ جاری کیے۔ یہ تضاد ایک وسیع تر حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جہاں بھارت اپنی محدود انتباہات کو اخلاقی ذمہ داری کے طور پر پیش کر رہا ہے، وہیں پاکستان اُس ادارہ جاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جس نے کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کو مون سون کی تباہ کاریوں کے لیے تیاری کرنے اور بعض اوقات ٹالنے میں مدد کی ہے۔
یہ صرف سیلاب کے حوالے سے نہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل IV کا پیرا 8، شق ایف، واضح طور پر پیشگی اطلاع، باہمی مشاورت اور ڈیٹا شیئرنگ کا حکم دیتی ہے تاکہ سرحدوں کے پار مادی نقصانات سے بچا جا سکے۔
معاہدے کی شقوں کو معطل کرکے، بھارت ایک ایسی نظیر قائم کرنے کا خطرہ مول لے رہا ہے جہاں پانی سیاسی چالبازی کا آلہ بن گیا ہے۔ یہ خاص طور پر تیزی سے تبدیل ہوتی موسمیاتی تبدیلی کے دور میں خطرناک ہے کہ جب گلیشیئر پگھلنا اور بے ترتیب مون سون، سیلاب کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
اب بڑا سوال صرف یہ نہیں کہ کیا سندھ طاس معاہدہ ان سیاسی تناؤ سے بچ سکتا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے لاکھوں لوگوں کو اس تعطل سے کیا نقصان پہنچے گا؟ سیلاب سرحدوں کا پاس نہیں رکھتا اور بلاتفریق نقصان پہنچاتا ہے۔
جب اہم اعداد و شمار کو سیاسی مقاصد کے لیے روکا جاتا ہے یا کمزور کیا جاتا ہے تو یہ کسانوں، دیہاتی اور نچلے طبقے کے شہری ہی ہوتے ہیں جو اپنی تباہ شدہ فصلوں، ڈوب جانے والے مکانوں اور جبری نقل مکانی کے ذریعے ان آفات کی قیمت ادا کرتے ہیں۔
ہیڈر: 26 اگست 2025ء کو سیلاب کے بعد دریائے راوی کا منظر—تصویر: مرتضیٰ علی/وائٹ اسٹار
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
