سندھ کا سیلاب جو انڈس ڈیلٹا کے لیے خوشحالی کا پروانہ ہوتا ہے

ان دنوں سندھ ڈیلٹا کے لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ سیلابی پانی سے تمر کے جنگلات بڑھے گے، جھینگوں اور مچھلیوں کی پیداوار بڑھے گی اور میٹھا پانی خوشحالی لائے گا۔
شائع September 19, 2025 اپ ڈیٹ September 20, 2025

ہم جب ننگر ٹھٹہ سے نکلے تھے تو ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا، مسلسل بارشوں کی وجہ سے تاحدِ نگاہ مکلی کی پہاڑی، راستے، تعمیرات بھیگے سے دکھائی دے رہے تھے۔ مون سون کا برساتی سلسلہ 4 دن خوب برسنے کے بعد ختم ہو گیا تھا مگر دھوپ کم نکلنے کی وجہ سے نظر جہاں تک جاتی ہر منظر بھیگا نظر آتا جبکہ سمندر کے نزدیک ہونے اور پانی کی نظر نہ آنے والی بوندوں کی وجہ سے منظرنامے پر ہلکی نیلے رنگ کی ایک تہہ بچھی ہوئی نظر آرہی تھی۔

ہم نے ٹھٹہ شہر میں ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا دو دو کپ شیریں چائے کے اُنڈیلے اور جب شہر سے شاہ بندر اور کیٹی بندر کے لیے نکلے تو راستوں کے کناروں پر پانی تھا۔ مگر راستے کے کناروں پر موجود کیکر کے درختوں پر بہار چھائی ہوئی تھی۔

موجودہ دنوں پر بات کرنے سے پہلے سندھ کے سمندر کنارے کے متعلق ابن بطوطہ کی کچھ باتیں میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ موجودہ زمانے کی تصویر ہمیں صاف نظر آئے۔ ابن بطوطہ 1333ء یعنی آج سے 652 برس پہلے سیہون سے سندھو دریا کے راستے انڈس ڈیلٹا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’سندھو دریا دنیا کے بہت بڑے دریاؤں میں شمار کیا جاتا ہے جس طرح مصر کی زراعت کا دار و مدار نیل کی تغیانی پر ہے، اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اس کی طغیانی پر جیتے ہیں‘۔

بالکل ایسی بات عبدالرحیم خان خاناں نے 1592ء میں کہی تھی جب وہ اکبر کے حکم کو مانتے ہوئے ٹھٹہ پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ اس نے کہا کہ جنوبی سندھ میں پانی کی نہروں کا ایک جال بچھا ہوا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی زمانے میں بغداد نہروں کی بہتات کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں بہت سارے گھاٹ ہیں اور سمندری کنارہ چھوٹی بڑی بندرگاہوں سے بھرا پڑا ہے۔ دھان، گنا، نیر یہاں بہت اُگایا جاتا ہے۔ جھیلیں بہت ہیں جن کی وجہ سے مچھلی اور پرندوں کی فراوانی ہے۔

  دریائے سندھ کا کنارہ
دریائے سندھ کا کنارہ

ابن بطوطہ کے دنوں میں سندھو دریا کا مرکزی بہاؤ، برہمن آباد سے شمال اور مغرب میں دو حصوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ایک بہاؤ جنوب میں نصرپور کے مشرق سے، جنوب مغرب میں ٹنڈو محمد خان کے قریب سے گزرتا ہوا ٹھٹہ کے شمال میں دیبل اور لاڑی بندر کے شمال میں جاکر سمندر میں گرتا تھا۔

ابن بطوطہ لاڑی بندر کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’یہ خوبصورت شہر سمندر کے کنارے واقع ہے۔ قریب ہی سندھو دریا سمندر میں جا گرتا ہے۔ یہ شہر بڑی بندرگاہ ہے۔ یہاں یمن اور فارس کے جہاز اور تاجر زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے یہ شہر بہت مالدار ہے اور اس کا محاصل بھی زیادہ ہے۔ علاء الملک مجھ سے کہتے تھے کہ اس بندر کا محاصل 60 لاکھ دینار ہے۔ امیر الملک کو اس کا 20واں حصہ ملتا ہے باقی مرکزی حکومت میں جمع ہوتا ہے’۔

ہم جب کوٹری ڈاؤن اسٹریم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تب ہم انڈس ڈیلٹا کی بات کر رہے ہوتے ہیں اور کوٹری کے جنوب میں ہزاروں گاؤں اور لاکھوں انسان بستے ہیں جن کا ذریعہ معاش دریا کے بہاؤ پر ہے۔ جب دریا کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تب پانی کی جگہ تیز ریت بہتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگ اپنے گاؤں خالی کرکے نقل مکانی کے درد کی گٹھڑیاں اپنے سینے پر رکھ کر بھٹکتے پھرتے ہیں۔

پانی کی روکنے کی داستان کی ابتدا 1830ء میں ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں آب پاشی کا نظام بنایا کہ زراعت زیادہ ہو اور اُن کے کارخانوں کو خام مال مسلسل ملتا رہے۔ 1932ء میں انگریزوں نے ’سکھر بیراج‘ تعمیر کیا۔ یہ سمجھیں کہ دریا کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر 1955 میں ’کوٹری بیراج‘ بنا، 1967ء میں ’منگلا‘ اور پھر 1976ء میں ’تربیلا ڈیم‘ بنا۔ ان تمام منصوبوں کے منفی اثرات انڈس ڈیلٹا پر پڑنے تھے اور پڑے بھی۔

ڈاؤن اسٹریم دریا کا وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں دریا کا سفر اختتام کو پہنچتا ہے۔ یہاں فطرت کی رنگارنگی کا اپنا ایک الگ حُسن ہے۔ جنوبی سندھ کی سمندر کنارے والی زمین کو دریا کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ پورے ملک سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے (تھی) اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا ہے۔

سمندر تک پہنچنے کے لیے جتنے راستے اور بہاؤ دریائے سندھ نے تبدیل کیے ہیں وہ کسی دوسرے دریا نے شاید ہی کیے ہوں۔ ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ اس حوالے سے تحریر کرتی ہے کہ ’دریائے سندھ کے سفر کی آخری منزل سے آگے سمندر تک کافی تعداد میں کھاڑیاں یا کریکس (Creeks) جاتی ہیں۔ جنوب مشرق میں ’سیر‘ نامی کھاڑی ہے جو پانی میں پاک و ہند سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھارک، کوچی واڑی، کاجھر، مل، کانہر، ادھیاڑی، سنہڑی، گھوڑو، کھوبر، قلندری، مٹنی، ترچھان، حجامڑو، چھان، دبو، پئٹانی، کھائی، وڈی کُھڈی، ننڈھی کُھڈی، پھٹی، کورنگی اور گزری کریکس ہیں‘۔

  آہستہ آہستہ سمندر کی جانب جاتے دریا کے پانی میں کمی آچکی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے سیلاب رحمت ہوتا ہے
آہستہ آہستہ سمندر کی جانب جاتے دریا کے پانی میں کمی آچکی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے سیلاب رحمت ہوتا ہے

یہ کھاڑیاں وہ راستے ہیں جو دریا سمندر تک پہنچنے کے لیے جنوبی سندھ میں آ کر بناتا ہے۔دریاؤں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جن میں ریت اور مٹی کم آتی ہے اور دوسرے وہ جو اپنے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں۔ ایسے دریاؤں میں ’دریائے نیل‘ اور ’دریائے سندھ‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ان دونوں میں سے دریائے سندھ اپنے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز ریت اور مٹی لانے والا دریا رہا ہے۔ اگر آپ اس تحریر میں شامل تصاویر کو دھیان سے دیکھیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ پانی کتنا گاڑھا اور مٹیالا ہے۔ یہ پانی زرخیز ریٹ اور خوراک کی ذرات سے بھرا پڑا ہے۔

دریا اپنی ریت سے جو زمین بناتا ہے، ہم اسے ڈیلٹا کہتے ہیں۔ دریا زمین کیسے بناتا ہے؟ میں مختصراً آپ کو بتاتا ہوں۔

دریا کا پانی سمندر کو آگے آتا دیکھ کر چھوٹے پنکھے (بادکش) کی صورت میں پھیل جاتا ہے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سے زمین بنتی جاتی ہے اور جیسے جیسے زمین بنتی جاتی ہے سمندر پیچھے کی جانب ہٹتا چلا جاتا ہے مگر اس کی سطح وہی رہتی ہے۔ جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر ریت کے ٹیلے بنتے جاتے ہیں اور زمین بنتی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں جنوبی سندھ کا مشرق کی جانب والا حصہ (بدین) ایکٹیو ڈیلٹا تھا اور اب مغرب کی طرف (ٹھٹہ) والا حصہ ایکٹیو ڈیلٹا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق، جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے 100 دنوں میں یہ ریت کے 11کروڑ 90 لاکھ معکب گز سمندر کی طرف لے چلتا ہے۔ اگر اس ریت کا مقابلہ ہم نیل ندی سے کریں جو خود ایک زیادہ ریت لانے والا دریا ہے تو یہ پورے ایک برس میں 4 کروڑ معکب گز ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دریائے سندھ میں ریت کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہے۔

  پانی کا ریلا اپنے ساتھ ریت لاتا ہے
پانی کا ریلا اپنے ساتھ ریت لاتا ہے

جنرل ہیگ اپنی کتاب ’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘ میں دریا سے بنی ہوئی نئی زمین کے متعلق تحریر کرتے ہیں، ’برٹش راج کے بعد سمندر کی طرف زمین کے بڑھ جانے کے متعلق جاننے کے لیے ہماری بڑی دلچسپی رہی۔ ہم نے اس پر سروے بھی کیے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ جن مختلف ندیوں کی صورت میں سمندر کی طرف سفر کرتا سمندر سے جا ملتا ہے، وہاں نئی زمین بڑی تیزی سے بن رہی ہوتی ہے اور سمندر کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہوتی ہے۔

’ہم نے پہلے 1877ء میں اس پر کام کیا تھا۔ جس سے ہمیں پتا لگا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ان نہروں کے سمندر میں پانی ڈالنے سے ساڑھے تین مربع میل نئی زمین بنی ہے۔ اور زمین بڑھنے کی رفتار ہر بہاؤ میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کہیں زمین زیادہ بنتی ہے اور کہیں کم‘۔

انڈس ڈیلٹا اپنی زرخیزی کے حوالے سے خوشحال بھی تھی اور مشہور بھی۔ دھان اُگانے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ دھان کے بیج زمینوں میں ڈال دیے جاتے اور دھان کی فصل کے جیسے جنگل اُگ آتے۔ اس کے متعلق جیمز میکمرڈو لکھتے ہیں، ’پانی کے ساتھ دھان بھی بڑھتی جاتی، کسی علاقے میں تو یہ تین سے چار فٹ تک بڑی ہو جاتی‘۔ اور دھان اتنی اراضی میں ہوتی کہ فصل کی کٹائی کے لیے کَچھ اور ملتان سے لوگ یہاں فصل کی کٹائی کے لیے آتے۔

  دریا میں ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہوئے
دریا میں ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہوئے

19 ویں صدی کی ابتدا میں ڈیلٹا کے متعلق جیمس برنس لکھتے ہیں کہ ’یہاں کے مرکزی بہاؤ اور دیگر ندیوں میں سفر کرتے آپ کو پرندوں کی میٹھی آوازیں سننے کو ملیں گی۔ کناروں پر آپ کو گنے کے کھیت ملیں گے جنہیں پانی دینے کے لیے رہٹوں کا استعمال عام ہے۔ ان رہٹوں کو اونٹ اور بیل بھی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ٹھنڈے دنوں میں پرندوں کی اتنی بہتات ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مچھلی کے شکار کی تو کیا بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ مچھلی پیدا ہی یہاں ہوئی ہے۔ یہاں کیکر اور لئی کے بڑے درختوں کے جنگل ہیں جو یقیناً ایک ڈیلٹا کی خوبصورتی کے زیور ہیں‘۔

Empires of the Indus کی مصنفہ Alice Albinia ڈیلٹا کی تباہی کے متعلق تحریر کرتی ہیں کہ ’1958ء میں کوٹری بیراج مکمل ہونے کے بعد 3500 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی انڈس ڈیلٹا 250 کلومیٹر تک سُکڑ گئی۔ پانی صرف نام کو سمندر کو جاتا تھا۔ میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے تمر کے جنگل اجڑ گئے، چاول کی فصلیں دینے والی زمینیں سفید نمک میں بدل گئیں۔ کاشتکاروں کے پاس مچھلی کے شکار کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا‘۔

ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی دنیا کے متعلق محمد علی شاہ تحریر کرتے ہیں کہ ’گزشتہ کئی برسوں سے حکومت، آبپاشی کے ماہرین، ماحولیاتی ماہرین اور سول سوسائٹی کے درمیان یہ بات زیربحث ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے لیے کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے کتنے پانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آئی یو سی این‘ کی تحقیق کے مطابق، تمر کے جنگلات اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے 2 کروڑ 70 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے۔

’ہم جو ماہی گیروں کے لیے کام کرتے ہیں تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ 35 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی ضرورت ہے جبکہ 1991ء کے معاہدے کے مطابق ڈاؤن اسٹریم میں ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جانا تھا مگر اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ پاکستان آب پاشی نظام پر 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ زراعت ہوتی ہے، اس کے لیے دریائی بہاؤ پر پانی جمع کرنے کے تین ڈیم بنائے گئے ہیں جن میں 20 ایم اے ایف تک پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

  کھارے پانی نے ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات اجاڑ دیے ہیں
کھارے پانی نے ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات اجاڑ دیے ہیں

’اس کے علاوہ 12 لنک کینال تعمیر کئے گئے ہیں، ایک تخمینہ کے مطابق دریائے سندھ کا سالانہ بہاؤ سراسری 150 ایم اے ایف ہے۔ اب اس تمام صورت حال کو دیکھیں تو سارا نزلہ آپ کو کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر گرتا نظر آئے گا جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔

’دریا کا میٹھا پانی سمندر کے آگے بڑھتے ہوئے پانی کو روکتا ہے بلکہ اس کو پیچھے دھکیلتا ہے، تمر کے جنگلات کو اُگاتا ہے جو ایک دیوار کی طرح ساحل کے میدانی علاقوں کو تحفظ کا کام کرتے ہیں۔

’ہم جو Sub-Tropical Country میں رہتے ہیں تو سب ٹراپیکل کنٹریز کا درجہ حرارت بھاری ہوتا ہے، اب ہمارے ملک کے درجہ حرارت کو فقط دریائے سندھ کا تازہ پانی ہی برقرار رکھ سکتا ہے۔

’جب تازہ پانی ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ریت بھی آتی ہے اور اس ریت میں غذائی اجزا ہوتے ہیں جنہیں ہم نیوٹرنٹس بھی کہتے ہیں۔ یہ نیوٹرنٹس مچھلی کو پروٹین اور خوراک مہیا کرتے ہیں اور فطرت اس طریقے سے ایک بریڈنگ شیٹ مہیا کرتی ہے۔ اس لیے سندھ کے سمندر کی مچھلیاں اس پر زندہ رہتی ہیں۔ اگر دریائے سندھ کا پانی وہاں نہیں جائے گا تو وہاں کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا اور مچھلیاں زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ وہ یا تو مر جائیں گی یا دوسری جگہ چلی جائیں گی۔

  پانی سے پہلے پانی کے لیے سرگرداں
پانی سے پہلے پانی کے لیے سرگرداں

’اس لیے میٹھا تازہ پانی آپ کے سمندری درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور ساتھ میں ایک ’کانٹینینٹل شیلف‘ بھی بناتا ہے۔ سندھ کے ساحل کا ’کانٹینینٹل شیلف‘ 110 کلومیٹر ہے۔ یہ کانٹینینٹل شیلف دریائے سندھ بناتا ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ تو سندھ کے کوسٹ سے بڑی اراضی میں پھیلا ہوا ہے مگر وہاں مچھلی سندھ کے ساحل سے کم کیوں ہے؟ وہ اس لیے ہے کیونکہ وہاں کا کانٹینینٹل شیلف فقط 30 سے 35 کلومیٹر تک ہے۔

’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جتنا یہ شیلف وسیع ہوگا، اتنی زیادہ مچھلی وہاں ہوگی اور ساتھ میں اس سلٹ کی وجہ سے تمر کے جنگلات کی خوب افزائش ہوتی ہے اور مینگروز کے جنگلات مسلسل پھلنے پھولنے کے عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ مگر اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔

’دریائے سندھ کی سمت میں تبدیلی اور سمندر میں پانی نہ چھوڑنے کے سبب، اس وقت فقط 70 ہزار ہیکڑز پر تمر بچے باقی رہ گئے ہیں جو ایک زمانے میں لاکھوں ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہی تمر کے جنگلات مچھلی اور جھینگوں کی جو کمرشل species ہیں ان کی نرسریز ہوتی ہیں۔ اگر ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں چھوڑا جاتا تو مچھلی کی صنعت برباد ہو جائے گی اور انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی آجاتا ہے۔

  دریا کنارے تمر کے جنگلات
دریا کنارے تمر کے جنگلات

’1980ء تک ریونیو ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھیں اور اب تک ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے کھارے پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا۔ لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جھیلوں کا کلچر برباد ہوا ہے وہ الگ جبکہ جنگلی حیات کی سیکڑوں نسلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ ایک سانحے سے کم نہیں ہے‘۔

ہم جب کیٹی بندر سے واپسی پر جھالو کی بستی پہنچے تو وہاں کے سماجی کارکن گلاب شاہ سے میں نے سوال کیا کہ موجودہ وقت جو مون سون کا پانی دریائے سندھ کے راستے سمندر میں داخل ہو رہا ہے، اس سے ڈیلٹا کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں؟ جواب میں اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا، ’جس طرح ہم کہتے ہیں کہ ’وٹھا بھلا‘ (بارشیں کتنی بھی برسیں وہ نعمت ہیں) تو ہم یہاں کے بسنے والوں کے لیے تو وہ دن عید کے ہوتے ہیں جب دریا میں پانی آتا ہے تب سب کچھ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ وہ میدان، جنگل اور چھوٹی بڑی جھیلیں سوکھی ہوتی ہیں، وہ بھر جاتی ہیں اور گھاس اور درختوں میں جان پڑ جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے سے کئی کلومیٹر اندر تک سمندر کے پانی کو یہ میٹھا پانی دھکیل دے دیتا ہے۔

’ آپ اگر بگھان (کیٹی بندر اور کھارو چھان سے پہلے ایک چھوٹا سا شہر) سے کھارو چھان جائیں تو سمندر میں آپ کو نمک سے بھرا پانی نہیں ملے گا بلکہ سندھو دریا کا میٹھا پانی ملے گا جسے ہم تو پیاس لگنے پر پیتے ہیں اور یہ میٹھا پانی آپ کو سمندری کنارے سے کئی میل آگے تک ملے گا۔ جہاں جہاں تک یہ میٹھا پانی جائے گا وہاں جھینگے اور دوسری مچھلیوں کی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ مطلب کے تین ماہ کے بعد سمندر سے مچھلی پکڑنے کا تناسب گزشتہ برس اگر 30 فیصد تھا تو وہاں اب 90 فیصد ہوگا جس سے مقامی لوگوں پر معاشی حوالے سے اچھے دن آنے والا ہیں’۔

   ڈیلٹا کے اچھے دن آنے والے ہیں
ڈیلٹا کے اچھے دن آنے والے ہیں

پانی اور ماحولیات کے حوالے سے جب ٹھٹہ کے محترم انجینئر اوبھایو خشک سے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے انتہائی تفصیل سے جواب دیا، ’موجودہ دنوں دریائے سندھ سے تین لاکھ کیوسک جو اندازاً 60 لاکھ ایکڑ فٹ بنتا ہے، وہ مختلف راستوں (کریکس) سے سمندر میں داخل ہو رہا ہے۔ ٹھٹہ کی دولہہ دریا خان پُل سے آتھرکی تک پہنچ کر یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ایک روہڑو، کھارو چھان سے ہوتا ہوا شاہ بندر پہنچتا ہے جبکہ دوسرا بہاؤ کیٹی بندر سے ہو کر کھوبر کریک پہنچتا ہے وہاں سے تُرچھان اور پھر حجامڑو کریک تک چلا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 80 کلومیٹر سے زیادہ علاقہ ہے جس سے میٹھا پانی سمندری پانی کی جگہ لے لیتا ہے۔

’اس سے ماحولیاتی اور خوراک کے حوالے سے فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ ان دنوں جب میٹھا پانی اور زرخیز ریت تمر کے جڑوں تک پہنچتی ہے تو اس کے پھلنے پھولنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور ساتھ میں اس کے بیج اس پانی کے بہاؤ میں دور دور تک جاتے ہیں۔ چونکہ تمر کاربن ڈائی آکسائیڈ بہت زیادہ جذب کرنے والی جھاڑ ہے، اس کا بڑھنا ماحولیات کے لیے سب سے مثبت ہے۔

’اور ساتھ میں ان کے جنگلات کی جڑوں میں جھینگے اور مچھلیاں انڈے دیتی ہیں تو وہاں ریت اور غذائی اجزا سے بھری ریت موجود ہوتی ہے جس سے ان کی پیداوار بڑھے گی۔ ساتھ میں جہاں جہاں سے سندھو دریا آرہا ہے وہاں کے قرب و جوار میں میٹھے پانی کی سطح بڑھائے گا۔ مطلب یہ کہ ان دنوں ڈیلٹا کے لوگ بے تحاشا خوش ہیں‘۔

   یہ پانی انڈس ڈیلٹا میں مچھلیاں اور جھینگوں کی پیداوار بڑھائے گا
یہ پانی انڈس ڈیلٹا میں مچھلیاں اور جھینگوں کی پیداوار بڑھائے گا

ہر خطے کی اپنے معروضی حالات اور احساسات ہوتی ہیں۔ پھر لوگ اُن اثاثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معاشی راستے تلاش کرتے ہیں کیونکہ دو نوالوں کے سوا ایمان اور احترام کا درخت کبھی نہیں اُگتا پھر ان کے روزگار کے وسائل، وہاں موجود منظرناموں اور موسموں کی کوکھ سے وہاں کا کلچر جنم لیتا ہے۔ زبان کو بیان کی طاقت ملتی ہے اور لہجے اور رویے جنم لیتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان حالات میں جنم لیتے ہیں، وہیں پر جوان ہوتے ہیں، وہیں پر ان کے اپنوں کے جنازے اُٹھتے ہیں، ان ہی آنگنوں پر خوشیوں کے ڈھول بجتے ہیں، مطلب ہزاروں برسوں کی فطرت، معروضی حالات اور انسان کے میل میلاپ اور ایک دوسرے کو قبول کرکے ایک کلچر پنپ کر جوان ہوتا ہے۔

ہم کسی مچھلی کے شکار کرنے والے کو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سمندر یا جھیل کے کنارے گَنا کیوں کاشت نہیں کرتے؟ یا یہ کہ آپ کے پاس مچھلی کے شکار کے بعد جو وقت ملتا ہے، اس میں ان کناروں پر ضرور گندم کاشت کردیا کریں تو شاید یہ کسی بھی کیفیت میں ممکن نہیں ہوگا۔ تو ایک کلچر ہے جس کو ہم موہانہ کلچر کا نام دیتے ہے۔ ڈیلٹا کے اچھے دن اور ڈیلٹا کے بُرے دن ایک کلچر کو زندہ رکھنے یا برباد کرنے کا کام کرتے ہیں۔

—تصاویر بشکریہ: اطہر مصطفیٰ سومرو


ہیڈر: ماہی گیر سبحان علی اپنے چھوٹے جال سے حسین آباد میں دریائے سندھ پر کوٹری-حیدرآباد ریلوے پل کے قریب پلا مچھلی پکڑنے کے لیے اپنی قسمت آزما رہے ہیں—تصویر: عمیر راجپوت

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔