فوٹو: ڈان نیوز

پاک-سعودی عرب دوطرفہ دفاعی معاہدے پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پاکستان نے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کا کردار سنبھال لیا ہے، ملیحہ لودھی
شائع September 18, 2025 اپ ڈیٹ September 19, 2025

پاکستان اور سعودی عرب نے وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودیہ کے دوران ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، اس معاہدے کو کئی دہائیوں میں پاک-سعودی دفاعی تعلقات میں سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ اعلان اسلام آباد اور ریاض کے مشترکہ بیان میں کیا گیا، بیان کے مطابق یہ معاہدہ ’ دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کا مظہر ہے تاکہ اپنی سیکیورٹی کو بڑھا سکیں اور خطے اور دنیا میں امن قائم کر سکیں۔’

بیان میں کہا گیا کہ’ (یہ معاہدہ) دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔

اگرچہ ابھی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، لیکن بدھ کے معاہدے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ’ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔’

دونوں ممالک طویل عرصے سے ایک کثیر الجہتی تعلق رکھتے ہیں، جس کی بنیاد اسٹریٹجک فوجی تعاون، باہمی اقتصادی مفادات اور مشترکہ اسلامی ورثے پر ہے۔

یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل نے قطر پر حالیہ حملہ کیا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کی مجموعی سیکیورٹی کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

سابق سفیر ملیحہ لودھی نے اس معاہدے کو ’ ایک اہم پیش رفت’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ’دور رس اثرات‘ ہوں گے۔

جیو نیوز سے گفتگو میں سابق سفیر نے کہا کہ ’ پاکستان اور سعودی عرب طویل عرصے سے دفاعی تعاون میں مصروف ہیں اور ان کے سفارتی تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں، لیکن اس معاہدے کے ساتھ یہ تعلق ایک بالکل نئی جہت میں داخل ہوگیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ’ اس وقت یہ واضح ہے کہ پاکستان نے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کا کردار سنبھال لیا ہے۔’

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ’ اس معاہدے کے وقت اور سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، کیونکہ قطر کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے بعد عرب ممالک کہیں اور سے سیکیورٹی ضمانتیں تلاش کر رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ’ امریکا کا بطور سیکیورٹی گارنٹر کردار حالیہ دنوں میں سوالیہ نشان بن گیا ہے اور اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے’، ’یہ معاہدہ شاید کچھ عرصے سے زیر غور تھا لیکن اس کے پس منظر کو دیکھنا ضروری ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’فی الحال زیادہ کچھ کہنا مشکل ہے اور مکمل تجزیہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب مزید تفصیلات سامنے آئیں۔‘

بھارت کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ’ یہ واضح ہے کہ اگر پاکستان اپنی دفاعی صلاحیت اس طرح بڑھاتا رہا تو اس کا مخالف خوش نہیں ہوگا، لیکن ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ بھارت کا ردعمل کیا آتا ہے۔‘

ساؤتھ ایشیا کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ایک پوسٹ میں کہا کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد پاکستان اب ’ ایک بہت ہی اچھی پوزیشن‘ میں ہے۔

کوگل مین نے کہا کہ ’یہ معاہدہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے نہیں روکے گا، لیکن جب تین اہم طاقتیں، چین، ترکیہ اور اب سعودی عرب مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ ہیں تو پاکستان ایک مضبوط جگہ پر ہے۔‘

سابق سینیٹر مشاہد حسین نے بھارت کے بارے میں کہا کہ ’بھارت صدمے میں ہے، وہ حیران رہ گئے ہیں۔‘

مشاہد نے جیو نیوز سے گفتگو میں اس معاہدے کو ’ لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد گزشتہ 50 برسوں میں سب سے اہم فوجی اور سفارتی اقدام قرار دیا۔’

انہوں نے کہا کہ ’ یہ دو مسلمان ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہے‘ اور مزید کہا کہ ’سعودی عرب کوئی عام مسلمان ملک نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کا مضبوط سفارتی اثر و رسوخ ہے۔‘

اسرائیل کے معاملے پر مشاہد حسین نے کہا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے ایک رکاوٹ کا کردار ادا کرے گا؛ ’پاکستان کی فوجی صلاحیت اور عرب اقتصادی طاقت کے امتزاج سے اسرائیل کچھ نہیں کر سکے گا۔‘

سابق سینیٹر کے مطابق بھارت اور پاکستان کے حالیہ چار روزہ فوجی تنازع نے ’ہماری مہارت، قابلیت اور عزم کو دکھایا کہ ہم اپنے عرب دوستوں کا بھی بھرپور دفاع کر سکتے ہیں،‘ جس سے پاکستان کو ایک علاقائی سیکیورٹی گارنٹر کے طور پر پیش کیا گیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کے ملک کے اندر دہشت گرد عناصر، خاص طور پر کالعدم ٹی ٹی پی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

سابق سفارتکار حسین حقانی نے ایک پوسٹ میں اس معاہدے میں استعمال ہونے والے لفظ ’اسٹریٹجک‘ کے حوالے سے کہا کہ ’اسٹریٹجک مشترکہ دفاعی معاہدہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہ ایٹمی اور میزائل دفاعی نظام کو بھی شامل کر سکتا ہے، پاکستان ہمیشہ اپنی ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ’اسٹریٹجک اثاثے‘ کہتا رہا ہے۔‘

ایک الگ پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ’اب غالباً پاکستان سعودی پیسوں سے امریکی ہتھیار خرید سکے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ فروخت کرنے پر تیار دکھائی دیتی ہے، اسی طرح کی خریداری 1970 کی دہائی میں بھی ہوئی تھی جب امریکی کانگریس پاکستان کو فارن ملٹری فنڈنگ کے تحت قرضے دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔‘

تجزیہ کار عزیریونس نے کہا کہ اس معاہدے نے ’عرب جزیرہ نما میں پاکستان کے بطور نیٹ سیکیورٹی فراہم کنندہ کے کردار کو مستحکم کر دیا ہے۔‘

صحافی افتخار فردوس نے اس معاہدے کو ’علامتی طور پر طاقتور اور اسٹریٹجک لحاظ سے نہایت اہم‘ قرار دیا، کہتے ہیں کہ پاکستان اب ’ اسرائیل کے لیے براہِ راست رکاوٹ‘کے طور پر دیکھا جائے گا۔

’ سعودی عرب کے لیے یہ غیر یقینی صورتحال کے خلاف ایک انشورنس ہے اور آزادی کا ایک اشارہ ہے۔ اگرچہ اس معاہدے میں باضابطہ طور پر ایٹمی ضمانت شامل [کم از کم دستیاب معلومات کے مطابق)، پاکستان کا ایٹمی ہتھیار ایک ڈیٹرنس شیڈو ڈال دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سے سعودی عرب کو باضابطہ طور پر عدم پھیلاؤ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کیے بغیر ایک ڈی فیکٹو ’ایٹمی چھتری‘ مل جاتی ہے،‘ ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ یہ قدم ’مقامی تنازعات کو ایٹمی پہلوؤں کے ساتھ علاقائی جنگوں میں بدلنے کے امکانات بڑھاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کو عرب دنیا اور اس کی سیاست میں’ ایسے لے آیا ہے جیسے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔‘