پاکستان کو فضائی آلودگی سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت کیوں ہے؟
یہ مضمون دسمبر 2019 میں شائع ہوا تھا اور اب اسے ڈان میڈیا کی لاہور میں ہونے والی فضائی آلودگی کانفرنس کے پیش نظر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کے معیار کے بارے میں بڑھتے ہوئے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کے معیار پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ اگرچہ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ آلودہ ہوا صحت پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے اور بیماریوں و اموات میں اضافہ کرتی ہے، لیکن اس کے چھپے ہوئے اور بتدریج نقصان دہ اثرات پر بات بہت کم کی جاتی ہے۔
اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آلودہ ملک تھا، اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت کراچی اور لاہور دنیا کے 10 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل تھے، جہاں لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے آئی کیو) 188 اور کراچی کا 182 تھا۔
ایئر کوالٹی انڈیکس اگر 50 تک ہو تو ہوا صحت بخش سمجھی جاتی ہے۔ 100 سے 150 کے درمیان ایئر کوالٹی انڈیکس بچوں اور دل یا پھیپھڑوں کے مریضوں کے لیے غیر صحت مند ہو جاتا ہے۔ 150 سے اوپر تمام افراد کے لیے خطرناک اور 300 سے زیادہ کی سطح صحت کی ایمرجنسی کہلاتی ہے۔
لاہور اور پشاور کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر کے مہینے میں کئی دنوں پر ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کر گیا۔ صرف لاہور میں پورے نومبر کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب ہوا کو صحت مند قرار دیا جا سکے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کی سطح اب تمباکو نوشی، تپ دق اور غیر محفوظ پانی و صفائی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین صحت کا بحران بن چکی ہے، جو اوسط عمر میں سب سے زیادہ کمی کا باعث ہے۔
اس صورتحال میں بچے خاص طور پر کمزور ہیں، فضائی آلودگی پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہر دس میں سے ایک موت کی وجہ بنتی ہے، یہ آلودگی بچوں اور بڑوں میں سانس کی بیماریوں کو بڑھاتی ہے، بچپن کے کینسر کا باعث بن سکتی ہے، اور دماغی نشوونما پر منفی اثر ڈالتی ہے، حاملہ خواتین کے لیے آلودہ فضا میں رہنا قبل از وقت پیدائش کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔
اس مضمون میں ہم، بطور ماہرینِ صحت عامہ، اس بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ فضائی آلودگی عوام کی صحت پر کیسے چھپے اور طویل المدتی اثرات ڈالتی ہے۔
تنفس کی صحت پر اثرات
فضائی آلودگی میں بڑے ذرات سے لے کر نہایت باریک مختلف اقسام کے ذرات شامل ہوتے ہیں، جو مختلف ذرائع سے پیدا ہوتے ہیں، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ ذرات پھیپھڑوں کی اندرونی جھلی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی مرمت کے عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں، جس سے غیر معمولی خلیوں کی افزائش ہوتی ہے اور بالآخر پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مزید یہ کہ فضائی آلودگی سانس کی نالی میں موجود باریک بالوں (cilia) کو مفلوج کر دیتی ہے جو عام طور پر جراثیم یا ذرات کو صاف کرتے ہیں، اس سے جراثیموں کی افزائش بڑھ جاتی ہے اور نمونیا جیسی بیماریوں کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔
چونکہ ہم روزانہ اسی آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں، یہ زہریلے ذرات ہمارے جسم میں داخل ہو کر براہِ راست پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں، جس سے دمہ، دائمی پھیپھڑوں کی بیماریاں اور کینسر جیسے امراض بڑھ رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے تخمینے کے مطابق 2018 میں فضائی آلودگی تقریباً ایک کروڑ اموات کی ذمہ دار تھی، دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے تقریباً 35 فیصد سانس کی بیماریوں سے متعلق ہیں، جو براہِ راست یا بالواسطہ فضائی آلودگی سے جڑی ہیں۔
پاکستان میں آلودگی کے ذرائع صرف گاڑیاں اور صنعتیں ہی نہیں، بلکہ گھریلو ایندھن کا جلانا بھی ایک بڑا سبب ہے، بیشتر لوگ لکڑی، کوئلہ یا گوبر جلا کر کھانا پکاتے اور گھر گرم کرتے ہیں، جس سے گھروں کے اندر بھی آلودگی بڑھتی ہے، خصوصاً بچوں کے لیے، اس سے پھیپھڑوں کے امراض اور تپ دق کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
دل کی صحت پر اثرات
سالوں کے دوران ماہرین آبادی نے اُن افراد کے نتائج کا جائزہ لیا ہے، جو فضائی آلودگی کی زیادہ سطحوں کے زیرِ اثر رہے ہیں، اور اُنہوں نے اس بات کا واضح اور آزاد تعلق پایا ہے کہ فضائی آلودگی کے اثرات دل کی بیماریوں اور اُن کے خطرناک عوامل کے پیدا ہونے اور بڑھنے سے جڑے ہیں، ان بیماریوں میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، دل کے دورے (ہارٹ اٹیک)، فالج (اسٹروک) اور دل کی شریانوں کی خرابی (aortic dissection) شامل ہیں۔
دنیا کے معروف طبی جرائد جیسے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن، دی لینسٹ (The Lancet) اور سرکولیشن (Circulation) میں ایسی تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں فضائی آلودگی اور دل کی بیماریوں، قبل از وقت اموات اور دل کے دورے کے بعد زندگی کے معیار میں کمی کے درمیان تعلق ثابت کیا گیا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ان ممالک اور پاکستان کے درمیان فضائی معیار میں بہت زیادہ فرق ہے جہاں یہ تحقیقات کی گئیں۔
وہ آلودہ ذرات جو دل کی صحت پر منفی اثرات سے وابستہ ہیں، پارٹیکیولیٹ میٹر 2.5 (PM2.5) کہلاتے ہیں، جن کا سائز 2.5 مائیکرومیٹر سے کم ہوتا ہے، بڑے ذرات کے برعکس پی ایم 2.5 اتنے باریک ہوتے ہیں کہ یہ پھیپھڑوں کے اندرونی حصے تک پہنچ جاتے ہیں اور خون میں جذب ہو جاتے ہیں، اسی لیے ان کے اثرات پورے جسم پر طویل المدتی اور گہرے ہوتے ہیں، ان اثرات میں سوزش (inflammation)، رگوں کے اندرونی خلیوں کی خرابی، اور خون جمنے کے عمل کا متحرک ہونا شامل ہے۔ یہ تمام عوامل دل کی شریانوں میں چربی کے جمع ہونے (plaque burden) میں اضافہ کرتے ہیں، جو دل کے دورے اور دل کی ناکامی (heart failure) کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق پی ایم 2.5 کی مقدار میں ہر 10 مائیکروگرام فی مکعب میٹر (µg/m³) اضافے کے ساتھ دل کے مریضوں اور دیگر حساس آبادیوں میں قبل از وقت موت کا خطرہ تقریباً 10 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی دل کا مریض ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں PM2.5 کی اوسط مقدار 15 µg/m³ ہے، اور وہ کسی ایسے علاقے میں منتقل ہوتا ہے جہاں یہ اوسط 25 µg/m³ ہے، تو اُس کی قبل از وقت موت کا خطرہ 10 فیصد بڑھ جائے گا۔
یہ اندازے مغربی ممالک میں ہونے والی آبادیاتی تحقیقات پر مبنی ہیں جہاں PM2.5 کی مقدار عام طور پر 5 سے 30 µg/m³ کے درمیان ہوتی ہے، اس کے برعکس، پاکستان کے شہری علاقوں، جیسے لاہور اور کراچی، میں روزانہ کی اوسط سطح 100 µg/m³ سے زیادہ تک پہنچ جاتی ہے۔
ہم اب تک یہ مکمل طور پر نہیں جانتے کہ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں شہری آبادی طویل عرصے سے انتہائی آلودہ فضا میں سانس لے رہی ہے، دل کی بیماریوں پر اس کا مجموعی اثر کس حد تک تباہ کن ہے۔
تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ جب PM2.5 کی سطح 50 µg/m³ سے کم ہو تو خطرات کم ہوتے ہیں، لیکن جیسے جیسے سطح بڑھتی ہے، دل کے دورے، فالج اور اموات کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
تاہم، یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ اگر یہ سطحیں مزید بڑھ جائیں (جیسے پاکستان میں ہیں) تو آیا یہ خطرہ ایک حد کے بعد رک جاتا ہے یا مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔
بدترین صورت میں، خطرہ مزید بڑھتا جاتا ہے، اور بہترین صورت میں یہ اپنی جگہ رک سکتا ہے، مگر بہترین صورت میں بھی خطرہ غیر معمولی حد تک زیادہ ہے، مغربی ممالک میں اس طرح کی آلودگی کی سطح کو بالکل ناقابلِ قبول سمجھا جائے گا۔
پاکستان کے لیے ہم یہ جانتے ہیں کہ فضائی آلودگی کی یہ بلند سطح عوام کے لیے زہریلی اور خطرناک ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے منفی اثرات کی مکمل حد کا ہمیں ابھی علم نہیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اتنی زیادہ آلودگی کے عوامی سطح پر اثرات کیا ہیں، یعنی یہ طویل المدتی طور پر ہماری آبادی پر کیا تباہ کن نتائج مرتب کر رہی ہے۔
مندرجہ بالا تصوراتی خاکے میں ہم نے دل کے مریضوں میں پی ایم 2.5 کی بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ اموات کے اضافی خطرے کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، پاکستان میں عام پائی جانے والی پی ایم 2.5 کی انتہائی بلند سطحوں پر یہ خط (curve) کیسا دکھتا ہے، یہ ابھی تک نامعلوم ہے۔
یہ واقعی ایک بحران ہے،اس مسئلے کا حل آسان نہیں ہوگا؛ اس کے لیے طویل المدتی پالیسیوں کے ذریعے آلودگی کے اخراج میں کمی، اور قلیل المدتی حکمتِ عملیوں کے ذریعے عوام کو اپنے تحفظ کے قابل بنانا ضروری ہے۔
ذہنی صحت پر اثرات
تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے، فضا میں موجود ذرات خون کے ذریعے دماغ تک پہنچ کر یادداشت، توجہ اور جذباتی توازن پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے کام کی کارکردگی گھٹتی ہے اور معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان میں ماہرینِ نفسیات نے دیکھا ہے کہ سردیوں میں جب آلودگی بڑھتی ہے، تو ذہنی بیماریوں کے شکار مریضوں میں بیماری کے دوبارہ لوٹ آنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔
بچوں کے لیے یہ اثرات اور بھی خطرناک ہیں، کیونکہ وہ زیادہ سانس لیتے ہیں اور ان کا دماغ ابھی نشوونما کے عمل میں ہوتا ہے، آلودہ فضا بچوں کی سیکھنے، یاد رکھنے اور جذباتی نشوونما کی صلاحیت کم کر دیتی ہے، کچھ زہریلے عناصر، جیسے سیسہ، بچوں میں IQ کم کرنے، ضبطِ نفس میں کمی، اور معاشرتی تشدد بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
یوں فضائی آلودگی محض ایک صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور سیکیورٹی چیلنج بن سکتی ہے۔
بچوں کی نشوونما پر اثرات
جنوبی ایشیا میں اندازاً 1.2 کروڑ بچے فضائی آلودگی کے خطرے سے دوچار ہیں، اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آلودگی نہ صرف سانس بلکہ دماغی نشوونما کو بھی متاثر کرتی ہے۔
زندگی کے ابتدائی 1000 دن دماغی نشوونما کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں، آلودہ ہوا میں موجود باریک ذرات خون اور دماغ کے درمیان موجود قدرتی حفاظتی دیوار (blood-brain barrier) کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے دماغ میں فری ریڈیکلز بنتے ہیں جو دماغی خلیوں کو نقصان دیتے ہیں۔
یہ نقصان دماغی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے، IQ پوائنٹس میں 4 سے 6 تک کمی لا سکتا ہے، اور سیکھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے، اس کے نتیجے میں بچوں میں توجہ کی کمی، آٹزم، یا اعصابی بیماریاں جیسے پارکنسنز کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
کیا ہونا چاہیے
پاکستان کو فضائی آلودگی کو ایک قومی بحران کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا، اس مسئلے کا حل قلیل، متوسط اور طویل المدتی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔
مختصر مدت میں شہریوں کو اپنی صحت کا تحفظ خود کرنا چاہیے، گھروں اور دفاتر میں ایئر پیوریفائر کا استعمال کریں، اور باہر نکلتے وقت این-95 ماسک پہنیں۔
طویل مدت میں حکومت، صنعتوں اور پالیسی سازوں کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو اخراجات کو محدود کریں اور صاف توانائی کے ذرائع کو فروغ دیں۔
بطور ماہرینِ صحت عامہ، ہم خبردار کرتے ہیں کہ اگر موجودہ روش برقرار رہی تو یہ ایک تباہ کن مستقبل کی جانب لے جا سکتی ہے، اور یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ ایک ممکنہ حقیقت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
