قائدِ ملت لیاقت علی خان کا قتل: وہ سوالات جن کے جواب قوم کو آج تک نہیں مل سکے
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کیا ہماری قومی تاریخ میں اس سے زیادہ تاریک دور بھی کبھی آیا ہے جو ہم اس وقت جھیل رہے ہیں؟ لیکن پھر جب میں اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جس دلدل میں ہم آج دھنسے ہوئے ہیں، وہ برسوں پر محیط جھوٹ، فریب اور مفاد پرست ٹولوں کی مکروہ سازشوں کا نتیجہ ہے۔ وہ ٹولے جو قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی ہمارے سسٹم کا حصہ رہے ہیں۔
آج پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی 74ویں برسی کے موقع پر، قوم کو دوبارہ سوچنے اور خود پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مجھ پر میرے دادا کے قتل سے جڑے حقائق پہلے سے زیادہ واضح ہو چکے ہیں۔ آج بھی پہلے وزیرِاعظم کے کچھ پُرجوش حامی موجود ہیں جنہوں نے اس واقعے پر وسیع تحقیق کی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اُن ابتدائی برسوں کے ریکارڈ اور شواہد کا بھی جائزہ لیا ہے جو قتل کے فوراً بعد کے تھے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر اس بات پر مختلف نتائج اخذ کیے ہیں کہ ان کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے اس قوم کے لیے سازش کے حقائق پر مبنی تحقیقات اور دستاویزات جو اُس وقت کے اسپیشل پولیس کے انسپکٹر جنرل نوابزادہ اعتزاز الدین کے سپرد کی گئی تھیں، کبھی منظرِ عام پر نہ آ سکیں۔ اعتزاز الدین وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کے لیے پشاور جا رہے تھے تاکہ انہیں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کر سکیں مگر جس فوجی طیارے میں وہ سوار ہوئے، وہ پُراسرار طور پر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں موجود تمام دستاویزات بھی مبینہ طور پر ’تباہ ہوگئیں‘۔
ایسی پُراسرار داستانیں عوام کے لیے حقیقت اور فسانے میں فرق کرنا مشکل بنا دیتی ہیں۔ اس سے سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلا جاتی ہے اور یوں لوگ اصل معاملے کی جڑ تک پہنچنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

حل نہ ہونے والا اسرار
چند سال قبل بی بی سی نیوز اردو نے لیاقت علی خان کے قتل پر ایک مختصر مگر ہمدردی کے احساس سے بھرپور آڈیو کہانی نشر کی تھی جو اعلیٰ تحقیق اور فکری تجزیے پر مبنی تھی۔ اس رپورٹ میں وہ سوالات سامنے لائے گئے جو بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنے شوہر کی پہلی برسی پر اٹھائے تھے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام سوالات کے آج تک جواب نہیں مل سکے ہیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بتایا تھا کہ ان کے شوہر وزیراعظم لیاقت علی خان کا جس دن قتل ہوا، اس دن وہ ایک اہم پالیسی اعلان کرنے والے تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد وہ تقریر کبھی بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ بیگم رعنا لیاقت نے سوال کیا کہ کیوں؟
انہوں نے مزید سوالات کیے۔ ان کے شوہر کے قاتل کو موقع واردات پر ہی کیوں مارا گیا جبکہ اسے لوگوں نے پہلے ہی پکڑ لیا تھا؟ اور قاتل کو ہلاک کرنے والے سب انسپکٹر محمد شاہ گل کی سرزش کے بجائے اسے ترقی کیوں دی گئی؟ لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے والے اعلیٰ سطح کے سازشی کردار دراصل کون تھے اور کیوں انہوں نے ایسا کیا؟
اور ان کے تمام سوالات کے جوابات آج تک ہمیں کیوں نہیں مل سکے ہیں؟
میں ان لوگوں سے واقف ہوں جن کے بارے میں میری دادی کو یقین تھا کہ اُن کے شوہر کے قتل میں انہیں کا ہاتھ تھا۔ آج ان ناموں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے اور جو کچھ میں نے سنا ہے، اس کے مطابق ان کی موت بھی اتنی آسان نہیں رہی۔ ہر ایک کردار نے اپنے اپنے انداز میں اُس سازش میں ملوث ہونے کی قیمت چکائی ہے۔
میں مکافاتِ عمل پر پختہ یقین رکھتی ہوں۔ ہمارا ہر انفرادی اور اجتماعی عمل، ہماری زندگیوں اور ہمارے قریبی لوگوں کی زندگیوں میں مساوی ردِعمل کو جنم دیتا ہے۔ حکومت میں شامل جن افراد نے اس سازش میں حصہ لیا، اُن کے علاوہ بھی ایسے کئی شواہد موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کچھ غیر ملکی مفادات بھی اس کا حصہ تھے۔
قاتل کو تو آواز ملی لیکن مقتول کو نہیں
حال ہی میں میں نے ایک پوڈکاسٹ سیریز سنی جس میں لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کے چھوٹے بیٹے، امریکا میں مقیم مصنف فاروق ببرک زئی کا صحافی حیدر مہدی نے انٹرویو لیا۔ ان کی گفتگو کی بنیاد ببرک زئی کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب تھی جس کے عنوان کا اردو ترجمہ ’لیاقت علی خان کا قتل: پاکستان کی ابتدائی تاریخ پر ایک تنقیدی نظر‘ ہے۔
بظاہر کوئی پاکستانی ناشر اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے راضی نہیں تھا تو بھارت میں ایک پبلشنگ ہاؤس نے اسے شائع کرنے کی رضامندی ظاہر کی۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں جلد ہی اس کتاب کی رونمائی ہوگی۔
یہ انٹرویو بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ یہ نہ صرف ہماری تاریخ کے ابتدائی دنوں میں بنائی جانے والی کہانیوں کے بارے میں بتاتا ہے بلکہ اس بارے میں بھی بتاتا ہے کہ مصنف نے کچھ واقعات کی وضاحت کس طرح کی ہے۔ میں اس تحریر میں کی گئی محنت، تحقیق اور فکری کاوش کی قدر کرتی ہوں۔ اور میری یہ رائے صرف پوڈکاسٹ کی بنیاد پر ہے کیونکہ میں نے ابھی تک کتاب خود نہیں پڑھی ہے۔
درحقیقت اس انٹرویو نے مجھے گہرے دکھ اور اضطراب میں مبتلا کیا۔ اس احساس پر کہ لوگوں کو میرے دادا کے قاتل کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع تو مل گیا ہے مگر اُنہیں میرے دادا کے بارے میں جاننے کا حق نہیں دیا گیا۔
گزشتہ 70 برسوں کی حکمران اشرافیہ نے گویا یہ اپنا مشن بنا لیا ہے کہ عوام کو اس بات سے ناواقف رکھا جائے کہ قائدِ ملت نے اپنی زندگی اور اپنی موت کے لمحے تک، اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے کتنی عظیم قربانیاں دی تھیں۔

اس المناک دن کے حوالے سے خیالات بار بار میرے ذہن میں گردش کرتے ہیں۔ پوڈکاسٹ میں ریڈیو پاکستان کی اُس براہِ راست نشریات کا ایک منٹ چلایا گیا جس میں لیاقت علی خان کے افتتاحی الفاظ ’برادرانِ ملت‘ گونجتے ہیں اور پھر اچانک دو گولیاں پے در پے چلتی ہیں اور افرا تفری پھیل جاتی ہے۔
میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ ایک قاتل اپنے 11 سالہ بیٹے کو ایسے موقع پر بھلا کیوں لے کر آیا؟ اس کی ایک ہی معقول وجہ ہو سکتی ہے کہ اسے یقین تھا کہ وہ فرار ہوجائے گا۔ میرے ذہن میں اور بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا دونوں گولیاں ایک ہی بندوق سے چلائی گئی تھیں؟ ان کی آوازیں ایک دوسرے سے دور دور تھیں۔ تو شاید یہ ایک بندوق نہیں تھی۔
کیا میرے دادا جانتے تھے کہ وہ موت کی جانب جا رہے ہیں؟ انہیں اپنی زندگی کے خلاف سازش کی تنبیہ دی جا چکی تھی، پھر انہوں نے راولپنڈی جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہی وہ جگہ تھی جو اس سے پہلے بھی ایک سازش کا گڑھ بن چکی تھی۔ وہ کراچی میں محفوظ رہ سکتے تھے تو پھر وہ وہاں کیوں نہ رکے؟
کوئی بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن سانحات ہونے کے بعد ان کا فیصلہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔
لیکن میرا دل جانتا ہے۔ وہ بےخوف تھے کیونکہ وہ تنظیم، اتحاد اور ایمان پر یقین رکھتے تھے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری ڈیولپمنٹ پروفیشنل اور امپیکٹ ایڈوائزر ہیں جن کے پاس لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے پروگرامز کو ڈیزائن کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا 25 سال سے زائد کا تجربہ ہے۔

