’راولپنڈی سازش‘: جب سری نگر کی بتیاں صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر تھیں
مشہور زمانہ راولپنڈی سازش کیس جس میں اس وقت کے کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی سال 1951ء کے آغاز میں راولپنڈی میں فوجی جنرل اکبر خان سمیت درجن بھر فوجی افسران سے میٹنگز ہوئی تھیں۔
یہی وہ 16 فوجی افسران تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد تحریک آزادیِ کشمیر میں حصہ لیا تھا اور اپنے محدود عسکری وسائل اور تعداد کے باوجود مقامی قبائلی جتھوں کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے شہروں کو فتح کرتے اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں سے صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر سری نگر کی بتیاں نظر آ رہی تھیں۔
تاہم ممتاز دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز اپنی کتاب ’Cross Swords‘ میں اس سے اتفاق نہیں کرتے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ 35 کلومیٹر تھا۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ مظفرآباد پر قبضہ کرنے کے بعد دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چکوٹھی تک پیش قدمی ہوئی تو کشمیری مہاراجا پرتاب سنگھ دہلی پہنچ گئے اور وزیر اعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں دوہائی دینے کی تیاری کر چکے تھے۔ ایک طرف چکوٹھی سے سری نگر کا محاذ اور دوسری جانب قبائلی جنگجو مغربی جموں میں پونچھ سے فوجیوں کو شکست دیتے ہوئے سری نگر کی جانب بڑھ رہے تھے مگر یہی وہ مرحلہ تھا کہ جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جنرل موسیٰ کی ملی بھگت سے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ کشمیری مجاہدین کی عسکری امداد فوری طور پر بند کرے اور پاکستانی فوج کے جو جوان جنگی محاذ پر لڑ رہے ہیں انہیں واپس بلائے۔
یقیناً اس وقت ہندوستان، اس کے زیرِسایہ کشمیری مہاراجا اور ان کے حامیوں کو اپنی شکست صاف نظر آ رہی تھی۔ اگر اس وقت جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی فوجی افسران کو پنڈی واپس نہیں بلایا جاتا تو آج کشمیر کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔ اس اقدام سے صرف جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی فوجی افسران ہی نہیں بلکہ نوزائیدہ پاکستان میں بددلی اور بے چینی پیدا ہوئی تھی۔
اس زمانے میں پنجاب کی اشرافیہ کے سرخیل میاں افتخار الدین جو قائد اعظم کے ساتھی اور کٹر مسلم لیگی تھے، انقلابی سوچ کے حامل تھے۔ وہ پروگریسیو پیپرز کے تحت پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے مالک بھی تھے۔ فیض احمد فیض ان اخبارات کے ایڈیٹر اِن چیف تھے اور مظہر علی خان ان کے دست بازو تھے۔ جنرل اکبر خان کی بیگم نسیم اورنگزیب جو پنڈی سازش کیس میں گرفتار بھی ہوئیں، پنجاب کی ایلیٹ کلاس میں بڑی سرگرم ہوتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیگم نسیم اکبر خان کے تعلقات سے ہی جنرل اکبر خان اور کمیونسٹ پارٹی کی میٹینگز ہوتی تھیں۔

پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی اس وقت تک انڈین کمیونسٹ پارٹی سے ہی براہ راست منسلک تھی۔ جب ان تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کو شٹ اپ کال دی کہ جہاں دیدہ انڈین کمیونسٹ جانتے تھے کہ اسلام کے نام پر قائم پاکستان میں مٹھی بھر کمیونسٹ انقلاب لانے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ یوں پنڈی میں جنرل اکبر خان اور کمیونسٹ پارٹی کی آخری میٹنگ اس فیصلے پر ختم ہوئی کہ یہ مناسب وقت نہیں۔
ہمارے شاعرِ بےمثال فیض احمد فیض صاحب نے اپنی گرفتاری کے بعد جو چند اشعار جیل سے بھیجے، اس کے ایک شعر نے بڑی شہرت پائی جو پنڈی سازش کیس کے حوالے سے ہی تھا،
مگر بہرحال کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں جنرل اکبر خان اور ان کی ساتھیوں سے ملاقاتیں محض کاکٹیل پارٹیز نہیں تھیں۔ اس زمانے کے انٹیلی جنس افسر انور علی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’جب ہمیں پنڈی سازش کیس حوالے کیا گیا تو ہم نے ملزمان اور ان میں وعدہ معاف گواہ بننے والوں کے بیانات کی روشنی میں یہ رپورٹ دی کہ کمیونسٹ پارٹی کے قائدین سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، سبط حسن کی جنرل اکبر خان کے ساتھیوں سے کم از کم تین ملاقاتیں ہوئیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان سمیت سینئر جرنیلوں کی گرفتاری کی منصوبہ بندی کی گئی تاکہ حکومت پر قبضہ کیا جائے۔ بعد میں یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا‘۔ انور علی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس منصوبے کو ’سازش‘ کا نام دیا جو آشکار ہوگئی۔
پنڈی سازش کیس کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ایک تو کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی اور ان کی قیادت سمیت سیکڑوں کارکنان کی گرفتاری نے پاکستان میں ابھرتی ہوئی بائیں بازو کی کمر توڑ دی۔
1955ء میں طویل قید سے رہائی کے بعد سجاد ظہیر ہندوستان چلے گئے اور فیض دیگر کامریڈ سمیت دیگر نوکریوں پر لگ گئے۔ ادھر انگریز کے تربیت یافتہ جنرل ایوب خان ایک کے بعد دوسرے سینئر رینک کے جرنیلوں کو کھڈے لائن لگا کر فوج کی مکمل باگ ڈور سنبھال چکے تھے۔ پنڈی سازش کیس نے جنرل ایوب خان کو ایک اور سنہری موقع فراہم کردیا کہ وہ اپنی طویل المعیاد اقتدار کی بنیاد رکھ سکیں۔

پروفیسر فتح ملک نے فیض صاحب پر اپنی کتاب میں پنڈی سازش کے حوالے سے لکھا ہےکہ انگریز جنرل گریسی نے جنرل ایوب خان کو جاتے جاتے نصیحت کی تھی کہ ’پاکستانی فوج کو خود سے زیادہ اہم کردار ادا کرنا ہے جس کی اجازت اسے آئین دیتا ہے یعنی وزیر اعظم پر ہمیشہ فوجی جنرل کی بالادستی رہنی چاہیے‘۔
تقریباً دو دہائی تک جنرل ایوب خان وطن عزیز کے سیاہ اور سفید کے مالک بن بیٹھے اور ان کے بعد آنے والے جنرل یحیٰی خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہی دو لخت کر بیٹھے۔
پنڈی سازش کیس کی یہ ساری روداد لکھتے ہوئے میں تحریک آزادی کشمیر اور تنازع کشمیر کو پیچھے چھوڑ آیا مگر معذرت کے ساتھ 1948ء کی جنگ ہو یا 1965ء کی، درجنوں کتابیں سیکڑوں تحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں لیکن بھارتی حکمرانوں کے ظلم اور کشمیر پر تسلط اپنی جگہ برقرار ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھی قیادت کا کردار بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ آج کی حساس صورت حال میں، میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔
تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان دو آزاد ممالک بن کر سامنے آئے۔ پاکستانی قیادت کو یہ توقع تھی کہ مسلمان اکثریت کے الحاق کے اصول کے مطابق کشمیر کا فیصلہ پاکستان کے ہی حق میں ہوگا۔ بھارت کی 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 40 لاکھ 21 ہزار 616 کی آبادی میں سے 31 لاکھ ایک ہزار 247 مسلمان تھے یعنی ان کی اکثریت تھی۔ صرف جموں اور ادھم پور کے اضلاع میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی۔
1947ء میں جب کشمیر کا معاملہ حل طلب تھا تو نئی دہلی کے ایوانوں میں یہ کوشش کی جارہی تھی کہ اقتدار پُرامن طریقے سے منتقل کر دیا جائے۔ شجاع نواز ’Crossed Swords‘ میں لکھتے ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کے مہاراجا کو سمجھایا تھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ریاست کے باشندوں کی رائے لے لیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے محتاط حکمت عملی اپنائی. دو بڑی ریاستوں کشمیر اور حیدرآباد دکن کو اپنی جانب آنے کا موقع دینے کی وجہ سے پاکستان نے مہاراجا کشمیر کے ’اسٹینڈ اسٹل‘ کے معاہدے کو منظور کر لیا جبکہ بھارت نے ایسا نہیں کیا۔
بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اپنے ڈپٹی وزیراعظم سردار پٹیل کو ستمبر 1947ء میں خط لکھا، ’میں دیکھ رہا ہوں کہ وہاں (کشمیر) میں ایک خطرناک اور بگڑتی ہوئی صورت حال ہے، مسلم لیگ پنجاب اور سرحد سے کشمیر میں داخلے کی کوشش کی جارہی ہے، جلد ہی موسم سرما کی وجہ سے کشمیر بھارت سے کٹ جائے گا اور اس کے بعد یہی راستہ رہ جائے گا جو بذریعہ وادی جہلم ہے۔ جموں سردیوں میں ناقابل گزر ہوجائے گا اور فضائی راستے بھی بند ہوجائیں گے، میرے خیال میں پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ فوری طور پر گھس جائے اور جب تک کشمیر ناقابل رسائی ہے وہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرلے‘۔
میں اس سے پہلے بھی میں لکھ چکا ہوں کہ کشمیر پر بھارتی تسلط کا سبب جواہر لال نہرو جیسے اسٹیٹ مین کا ایک پنڈت ہونا بھی تھا جنہوں نے بڑی سفاکی سے لاکھوں کشمیریوں کو بدتر صورت حال میں دھکیل دیا۔ نیشنل کانفرنس کے سربراہ شیخ عبداللہ جو برسوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور تقسیم ہند کے وقت بھی جیل میں تھے، جواہر لال نہرو نے اپنی شاطرانہ چال سے اپنے سحر میں جکڑ کر انہیں جیل سے رہا کردیا اور یہ تحریری عہد بھی لیا کہ وہ ہندوستان سے وابستہ رہیں گے۔
ایسا ہونے کے بعد پاکستان کے لیے مشکل ہوجائے گا کہ وہ بھارت کا سامنا کیے بغیر کشمیر پر حملہ کر سکے۔ دوسری جانب ایک اور محاذ کشمیر کے لیے کھلا تھا جس کا کم ہی ذکر ہوتا ہے۔ یہ مغربی جموں پونچھ کے جنگی قبیلے تھے جن کی طویل جنگی تاریخ ہے۔ 60 ہزار قبائل دوسری جنگ عظیم میں حصہ لے چکے تھے۔ جب وہ جنگ سے واپس لوٹے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ پونچھ کے رحم دل مہاراجا نہیں بلکہ کشمیر کے ظالم کے زیر نگیں ہیں۔
پونچھ کے یہ فوجی اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر پاکستانی سرحد میں داخل ہوگئے اور اس مسلح جنگ کا حصہ بن گئے جو چکوٹھی سے سری نگر کے محاذ پر لڑی جا رہی تھی۔ یہاں پونچھ کی فوج میں شامل ایک اہم سیاسی رہنما (جو بعد میں کشمیر کے ایک بڑے رہنما کی حیثیت میں ابھرے) سردار ابراہیم خان نے ایک اہم کردار ادا کیا اور بہت جلد ہی پاکستانی فوج کے کرنل اکبر خان سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
اکبرخان اس وقت جی ایچ کیو راولپنڈی میں اسلحہ و دیگر ہتھیاروں کے ذمہ دار تھے۔ اکبر خان کو پتا چلا کہ 4 ہزار رائفلیں پنجاب کے لیے منظور ہوئی ہیں تو انہوں نے اپنے خفیہ ذرائع اور دوستوں کی مدد سے یہ اسلحہ کشمیری مجاہدین کے لیے حاصل کرلیا۔ کرنل اکبر کی ان سرگرمیوں کی اطلاع جب پاکستانی حکمرانوں تک پہنچی تو انہیں فوری طور پر لاہور طلب کر لیا گیا جہاں ان کی ملاقات وزیراعظم لیاقت علی خان اور سردار شوکت حیات سے ہوئی۔
شوکت حیات جو حکومت پنجاب میں وزیر تھے، انہوں نے ایک اور منصوبہ تشکیل دیا۔ کرنل اکبر نے یہ محسوس کیا کہ جوش و جذبات کے علاوہ کوئی اور مسئلہ زیر غور نہیں۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ راولپنڈی واپسی پر کرنل اکبر نے ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس کرنل شیر خان کو اعتماد میں لیا۔ اکتوبر کے اوائل تک پاکستانی فوج کو یہ بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ کشمیر کی صورت حال بہت نازک ہوتی جا رہی ہے۔
کرنل اکبر کا منصوبہ تھا کہ ان 2 بڑے راستوں کو تباہ کر دیا جائے جو کشمیر کو ہندوستان سے ملاتے ہیں۔ پہلا کتھوا-جموں راستہ جو ایک خام شکل میں تھا اور جس کو گوریلا ایکشن کے ذریعے ناکارہ بنایا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد بارشیں اور موسم سرما کی شدید برفباری اس راستے کو مکمل طور پر ناقابل استعمال بنا دیں گی۔ ساتھ ہی سری نگر کے ایئر پورٹ کو ناکارہ بنا دینا تاکہ وہ بھی نقل و حمل کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔
مجھے علم ہے کہ میں اگر مزید تفصیل میں گیا تو یہ موضوع طول پکڑ جائے گا اس لیے گفتگو سمیٹتے ہوئے اسے آئندہ کے لیے رکھتا ہوں کہ کس طرح جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی مجاہدین اور قبائلی جتھوں کو ایک سازش کے تحت نہ روکا جاتا اور انہیں مطلوبہ عسکری امداد مل جاتی تو سری نگر اتنی آسانی سے بھارتی تسلط میں نہ آ پاتا۔ (جاری ہے)