پاک-افغان امن معاہدہ: لوگوں کو جھڑپوں کے خاتمے اور سرحد پار تجارت بحال ہونے کی امید
افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب رہنے والے لوگ ایک ہفتے کی پرتشدد جھڑپوں کے بعد امید کر رہے ہیں کہ نئے جنگ بندی معاہدے سے جھڑپوں کا خاتمہ ہوگا اور اہم سرحد پار تجارت دوبارہ بحال ہوگی۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ گزرگاہیں بدستور بند ہیں، لیکن زندگی معمول پر آنے لگی ہے، نان بائی آٹا گوندھ رہے ہیں، پھل اور سبزی فروش اپنی ریڑھیاں لگا رہے ہیں، اور گاہک دکانوں کا رخ کر رہے ہیں۔
پاکستانی علاقے بیزئی کے 56 سالہ دکاندار صادق شاہ کہتے ہیں کہ ’ لوگ اب سکون کا سانس لے سکتے ہیں اور اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔ (لیکن) اس سے پہلے، فائرنگ سے ہمارے گاؤں کے کچھ گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔ ’
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپیں 9 اکتوبر کو کابل میں ہونے والے دھماکوں کے بعد شروع ہوئی تھیں۔
طالبان حکومت نے ان دھماکوں کا الزام اسلام آباد پر لگایا تھا اور پاکستان پر سرحدی حملہ کیا تھا، جس پر اسلام آباد نے سخت ردعمل دینے کا اعلان کیا تھا۔
اسلام آباد نے کابل پر زور دیا تھا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔
14 اکتوبر کو پاک-افغان سرحد میں کرم کے مقام پر ایک بار پھر افغان طالبان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی تھی، پاک فوج نے بروقت جوابی کارروائی کی تھی، جس کے نتیجے میں طالبان پوسٹوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
15 اکتوبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک میں 4 مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے تھے، جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور اور مؤثر انداز میں ناکام بنا دیا تھا، اس دوران 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
مزید جھڑپوں کے بعد ابتدائی 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں جمعے کو پاکستان نے افغانستان میں دوبارہ فضائی حملے کیے تھے، اور کہا کہ وہ ان مسلح گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہیں طالبان پناہ دیتے ہیں اور جو پاکستانی سرزمین پر حملے کرتے ہیں۔
دونوں ممالک نے اتوار کو دوسری جنگ بندی پر اتفاق کیا، جس سے سرحدی علاقوں کے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔
صادق شاہ کا کہنا تھا کہ’ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں، (نسلی طور پر) پشتون ہیں، تو پھر لڑائی کیوں؟ پہلے افغانستان کے ساتھ تجارت اسی راستے سے ہوتی تھی، اور اب ہم ایک دوسرے پر گولیاں چلا رہے ہیں۔’
’ کاروباری نقصان’
اس ہفتے سرحد صرف اتنی دیر کے لیے کھولی گئی تھی کہ پاکستان کی طرف سے نکالے گئے افغان مہاجرین کو واپس جانے دیا جا سکے ، افغان مہاجرین کی بے دخلی کی یہ مہم 2023 میں شروع کی گئی تھی۔
پاکستانی شہر طورخم، جو عام طور پر افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں داخلے کی مصروف گزرگاہ ہے، وہاں پھنسے ہوئے ٹرک ڈرائیور رنگ برنگے ٹرکوں کے پاس چائے پیتے ہوئے انتظار کر رہے تھے۔
پشاور کے قریب ایک پاکستانی کسٹمز اہلکار کے مطابق 1,500 سے زائد ٹرک، ٹریلرز اور کنٹینرز طورخم میں رکے ہوئے ہیں، جن میں سیمنٹ، ادویات، چاول اور دیگر اشیائے ضرورت موجود ہیں۔
طالبان کی وزارتِ معیشت کے ترجمان عبد الرحمٰن حبیب نے بتایا کہ پھل اور سبزیاں پاکستان برآمد ہونے کے انتظار میں گل سڑ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ کاروباری طبقہ نقصان اٹھا رہا ہے’ ، اگرچہ انہوں نے نقصان کا تخمینہ نہیں بتایا، عبد الرحمٰن حبیب نے خبردار کیا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ’ قیمتوں میں اضافہ، بیروزگاری میں اضافہ، اور منڈیوں میں عدم استحکام’ پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ’ تجارتی تعلقات کو سیاسی معاملات سے الگ رکھا جانا چاہیے۔’
دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات کے بعد قطر کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے میں ’پائیدار امن کو مضبوط بنانے کے لیے طریقہ کار کے قیام‘ کی شق شامل ہے، تاہم اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
افغان شہر اسپن بولدک کے 39 سالہ کار ڈیلر نیاز محمد آخوند نے کہا کہ ’یہاں کے لوگ جنگ بندی سے بہت خوش ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کے پاس نہ زمین ہے نہ کوئی اور ذریعہ آمدن ، دونوں جانب سب کا دارومدار سرحد پار تجارت پر ہے۔‘
24 سالہ ریڑھی بان نعمت اللہ نے بھی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ’ یہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا۔’
سرحد کے دوسری جانب پاکستانی علاقے میں ایک مزدور عمران خان نے دونوں ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ ایسا نظام قائم کریں جن سے ان تنازعات کا خاتمہ ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں جیسا برتاؤ شروع کیا جائے۔’
