آن لائن فراڈ کے نئے حربے، آپ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
حال ہی میں گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمر (scams) 2025ء نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستانی ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کے آن لائن فراڈ کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن بات صرف اتنی سادہ نہیں۔ یہ رقم پاکستان کی کُل جی ڈی پی کا 2.5 فیصد بنتی ہے۔
رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کا ہر 10 میں سے 7واں فرد کسی نہ کسی فراڈ کا شکار ہوا ہے جو تقریباً 57 فیصد آبادی ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک دنیا بھر میں 442 ارب ڈالر ڈیجیٹل فراڈ کے ذریعے لوٹے جا چکے ہیں جبکہ 0.05 فیصد ہی مجرمان پکڑے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے 42 ممالک کے 46 ہزار افراد کے سروے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کے سینئر جوائنٹ ڈائریکٹر سائبر رسک مینجمنٹ ریحان مسعود کا کہنا ہے کہ پیپر لیس مارکیٹ یقیناً ایک سیکیورٹی رسک ہے لیکن جب تک صارف اپنے ہاتھوں سے اسکیمرز کو اپنا متعلقہ پن نہیں دیں گے تب تک فراڈ مکمل نہیں ہو سکے گا۔ اسٹیٹ بینک اپنے تمام بینکوں کو ہدایت دیتا ہے کہ اپنے صارف کی سائبر سیکیورٹی کو ہر صورت ممکن بنائیں۔
اس رپورٹ کے بعد ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) بھی ان اسکیمرز اور فراڈی ٹولے کے کام کو آسان بنا رہا ہے کیونکہ کہیں آپ جیسے سادہ لوگ چھوٹی موٹی اور سادہ سی کہانی کا شکار ہورہے ہیں وہیں پروفیشنل حضرات کو جھانسے میں لینے کے لیے اب اے آئی سے مدد لی جارہی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی آپ کی بہن بھائی یا کسی دوست کی آواز میں پیغام بھیجے کہ اسے ایمرجنسی میں پیسوں کی اشد ضرورت ہے یا اسے آپ کے اے ٹی ایم کے پاس ورڈ کی ضرورت ہے۔ آپ کو شک بھی نہیں ہوگا کہ یہ اے آئی کی مدد سے بنائی گئی انسانی آواز ہے جو بالکل آپ کے قریبی افراد سے مماثلت رکھتی ہے۔ ہیکنگ کرکے آپ کے خاندان کو بھیجے ہوئی ذاتی معلومات سے بینک اور دیگر ایپلی کیشن تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی نے جہاں طرز زندگی کو آسان بنا دیا ہے وہیں کلوننگ سے اب آپ چہرہ ہی نہیں بلکہ آواز بھی نقل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اس سے بچنے کا طریقہ صرف ان خطرات کے بارے میں جان کر جینے میں ہی ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ آگاہی کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔
آن لائن فراڈ ہو یا فیشنگ (phishing) کے ذریعہ ہونے والے جرائم، یہ اس لیے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ سڑک پر ہونے والے کسی بھی حادثے کا ہمیں اندازہ ہوتا ہے اور ہم احتیاط کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خطرہ کیا ہے اور کس سے ہے؟ ہم خود بھی جانتے ہیں اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرتے ہیں تاکہ ان سے بچ سکیں۔
موجودہ دور میں اب لوٹنے کا نیا انداز اپنا لیا گیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جانیں کہ بعض گروہ سادہ لوح افراد کو کیسے اپنے جال میں پھنسا کر ان سے پیسہ اور مال بٹورتے ہیں لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ پاکستانی کن ڈیجیٹل جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم آسلام آباد کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر آن لائن سائبر کرائم ایسے جرائم کو کہا جاتا ہے جو انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل فون یا کسی بھی ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کیے جائیں۔ پاکستان میں یہ جرائم پیکا ایکٹ 2016ءکے تحت آتے ہیں اور ان کی تفتیش ایف آئی اے کا سائبر ونگ کرتا ہے۔

ڈیجیٹل اور آن لائن فراڈ کی چند کہانیاں
سرکاری جامعہ کی ایک استاد نے بتایا کہ مجھے پیغام ملا کہ آپ کا اے ٹی ایم کارڈ، ویریفائیڈ نہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک کی جانب سے آپ کا اے ٹی ایم بلاک کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ اپنا کارڈ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو درجہ ذیل نمبر پر رابطہ کریں اور ساتھ ہی موبائل نمبر درج تھا۔
ایک صحافی نے بتایا کہ ان کے پاس جسٹس وجیہ الدین کے واٹس ایپ سے میسج آیا کہ میں ایک صاحب کا نمبر بھیج رہا ہوں، 50 ہزار ٹرانسفر کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو نقد دیتا ہوا چلا جاتا ہوں، اکاؤنٹ میں پیسے نہیں۔ ہیکر نے ایک چیک کی تصویر بھیجی کہ اس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں جو ملتان کے پتے پر تھا۔
ہمیں ایک قریبی دوست نے بتایا کہ انہیں فیس بک پر اپنے ایک دوست کا میسج ملا کہ وہ کچھ پیسے بھیج رہے ہیں۔ یہ 17 لاکھ روپے ان کے والدین تک پہنچا دیں۔ منی گرام کی سلپ تھی۔ یہ صاحب غیر قانونی طور پر برطانیہ پہنچے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پیسے آنے پر وہ یہ روپے ان کے والدین تک پہنچا دیں گے لیکن پھر 3 گھنٹے بعد میسج آیا کہ انہیں ایمرجنسی ہے ایجنٹ فوری پیسے مانگ رہا ہے۔ اگر اسے پیسے نہیں دیے تو ان کا ویزا کینسل ہو جائے گا۔ لہٰذا انہیں فوری پیسے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا ابھی تو بس چند ہزار ہی پڑے ہیں اور وہ بھیج دیے۔ کہا کہ باقی صبح جب پیسے آجائیں گے تو ٹرانسفر کر دیں گے لیکن صبح ہونے پر اس دوست کی پوسٹ تھی کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہوگیا ہے۔ وہ شکر کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے کم تھے۔
کراچی کی رہائشی نسیم حمزہ ایک ریٹائرڈ خاتون ہیں۔ اخبار پڑھتی ہیں، وہ اپنے ساتھ ہونے والےآن لائن فراڈ کا قصہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک دن بینک سےکال آئی کہ آپ کا اے ٹی ایم بند ہو رہا ہے لہٰذا اپنا نمبر دیں۔ انہوں نے دے بھی دیا، جو جو وہ پوچھتے رہے سب معلومات بھی دیتی رہیں۔ کال ختم ہوتے ہی تھوڑی دیر میں بیٹی آگئی۔
انہوں نے بتایا کہ بینک سے کال تھی۔ بیٹی نے فورا کہا اماں یہ کوئی فراڈ کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے بینک فون کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے کوئی کال نہیں کی تھی۔ ہم نے فوراً ہی اے ٹی ایم بلاک کروادیا۔ اگر بیٹی بروقت نہیں آتی تو میں یقیناً اپنی محنت کی کمائی سے محروم ہو چکی ہوتی۔

ایس ایس پی سی آئی اے کراچی، محمد آصف رضا بلوچ کا کہنا ہےکہ ہنی ٹریپ کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ کئی گروہ سوشل میڈیا یا فون کال پر ٹریپ کرکے اغوا اور پیسے بٹور لیتے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ مجھے ہنی ٹریپ کرکے شادی کے لیے بلایا گیا لیکن وہاں خاتون نہیں بلکہ آدمی تھا۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ اس ہی طرح مختلف ای کامرس سائٹ پر جاب کے حوالے سے اشتہار لگائے جاتے ہیں تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔
آخر ہمارا ڈیٹا اسکیمر تک پہنچتا کیسے ہے؟
ریاض اینڈی، معاشی امور اور بینک سے متعلق اہم نام ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیٹا تک رسائی کے کئی طریقے ہیں۔ ہم جگہ جگہ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دے رہے ہوتے ہیں۔ راہ چلتے لوگوں سے سم خرید کر اپنے شناختی نمبر اور فنگر پرنٹ دے دیتے ہیں۔ کہیں کارڈ سے شاپنگ کرتے ہیں اور کہیں آن لائن خریداری کرتے ہوئے اپنی بنیادی معلومات دے دیتے ہیں۔
’کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے اپنی ڈیوائسز کی پرائویسی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں اور اپنا ڈیٹا ان اپیس کو پہنچا دیتے ہیں۔ کسی نامعلوم ای میل کا جواب دے دیتے ہیں۔ یہی نہیں ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہر گزرتے دن ڈیٹا تک رسائی کے نئے طریقے دریافت ہورہے ہیں لیکن آخری ضرب لگانے کے لیے انہیں آپ کی پن یا پاس ورڈ اور او ٹی پی کی ضرورت پڑتی ہے جو آپ ہی فراہم کرتے ہیں‘۔

ایف آئی اے سائبر کرائم کیا کہتا ہے؟
ایف آئی اے اسلام آباد سائبر کرائم برانچ نے بتایا کہ بنیادی طور پر آج کل ایک طریقہ کار نہیں بلکہ طرح طرح کے فراڈ ہمارے سامنے آتے ہیں جیسے آن لائن ہراسانی یا بلیک میلنگ۔ خواتین یا مردوں کی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے دھمکانا یا بلیک میل کرنا بھی اسی زمرے میں آئے گا۔
غیر اخلاقی یا دھمکی آمیز پیغامات، ای میلز یا فون کالز، سوشل میڈیا کرائمز، فیک آئی ڈیز بنانا، فنانشل/آن لائن فراڈ، بینک اکاؤنٹ ہیک کرنا، اے ٹی ایم، کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کا فراڈ، آن لائن شاپنگ یا سرمایہ کاری کے اسکیمز، ہیکنگ یا ڈیٹا چوری، ای میل یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کرنا، بچوں سے متعلق جرائم جیسے پورنوگرافی، ممنوعہ اور غیر قانونی مواد آن لائن پھیلانا، یہ سب ہی آن لائن فراڈ کی فہرست میں نمایاں ہیں اور پاکستان بھر میں یہ واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ آن لائن گیمز بھی اس کی بڑی وجہ بن رہے ہیں۔
پاکستان میں کیسز کس طرح رپورٹ ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے سائبر کرائم برانچ کا کہنا ہے کہ ہم شکایت کنندہ کو کہتے ہیں کہ جب کبھی کسی بھی قسم کا ڈیجیٹل فراڈ کا سامنا ہو تو فورا آن لائن شکایت درج کروائیں۔ ایف آئی اے کی ویب سائٹ complaint.nccia.gov.pk پر فارم موجود ہے اسے پُر کریں اور وہ ای میل کے ذریعے [email protected] بھی بھیج سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو قریبی سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر یا قریبی ایف آئی اے یا سائبر ونگ کے دفتر جا کر بھی اپنی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 24 گھنٹے ہیلپ لائن نمبر 1799 پر بھی کال کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل فراڈ سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
ایف آئی اے نے واضح کیا کہ جس طرح ہم ظاہری خطرے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپناتے ہیں، اس ہی طرح ڈیجیٹل چوری سے بچنے کی پہلی شرط احتیاط ہے۔ اور اسے نظر انداز نہ کریں۔ وہ تاکید کرتے ہیں کہ ہمیشہ مضبوط پاس ورڈ استعمال کریں۔ جو کم از کم 12 سے 16 حروف، چھوٹے بڑے حروف، اعداد اور علامات ملا کر بنایا جائے۔ کوشش کریں کہ ہر اکاؤنٹ کے لیے الگ پاسورڈ رکھیں یعنی ایک پاسورڈ سب جگہ استعمال نہ کریں۔ اکثر محفوظ رہنے والے اکاؤنٹ Two-Factor Authentication (2FA) نظام کو فعال رکھتے ہیں۔
جتنے بھی اہم اکاؤنٹس ہیں (ای میل، بینکنگ، سوشل میڈیا) ان میں ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن آن کریں۔ شک اور احتیاط کم از کم اس معاملے میں اچھی بات ہے۔ ہر لنک اور اٹیچمنٹ کو مشکوک نگاہ سے دیکھیں۔ نامعلوم ای میلز یا پیغامات میں آنے والے لنکس کو نہ کھولیں۔ ایک اور مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا یو آر ایل (ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کا ایڈریس) ضرور چیک کریں۔

ZIP/PDF/EXE اٹیچمنٹ تب ہی کھولیں جب بھیجنے والے کو آپ جانتے ہوں۔ ذاتی بنیادی معلومات شیئر نہ کریں۔ اہم ترین بات کی نشان دہی کرتے ہوئے افسر کا کہنا تھا کہ کبھی ایس ایم ایس یا ای میل میں پاس ورڈ، شناختی کارڈ نمبر، بینک کی تفصیلات یا او ٹی پی شیئر نہ کریں۔ یہ نہ بھولیں کہ بینک کبھی ایسی معلومات طلب نہیں کرتے۔ اپنے سافٹ ویئر اور موبائل OS اپ ڈیٹ رکھیں۔
ساتھ ہی اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق تمام بغیر آن لائن منی ٹرانسفر سسٹم کم از کم دو گھنٹے تک ٹرانسفر نہیں ہوسکتے یعنی اگر کوئی موبائل والٹ سے پیسے نکالتا ہے اور آپ کو الرٹ کا پیغام آتا ہے تو آپ اپنی کمپنی کو اس رقم کی منتقلی کو روکنے کا کہہ سکتے ہیں۔
یہ سوال کہ پاکستان کے کن شہروں و علاقوں میں آن لائن فراڈ زیادہ ہوتے ہیں، سائبر کرائم افسر نے کہا کہ فی الحال کوئی حتمی ڈیٹا دینا مشکل ہے۔ سال بھر میں کتنے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس کا ریکارڈ سال کے آخر میں جاری ہونے والی رپورٹ میں ہی مل سکتا ہے۔ تاہم پنجاب اس کا گڑھ بن چکا ہے۔ خاص طور پر سرگودھا، خوشاب، خانیوال، شیخوپورہ اور قصور میں یہ عام ہیں۔ یہ علاقے پنجاب کے زیادہ آبادی والے علاقے ہیں۔
بظاہر یہ چھوٹے شہر نظر آتے ہیں لیکن اکثر آن لائن فراڈ اور ڈیجیٹل چوری میں جب کبھی کوئی بڑا گروہ پکڑا جاتا ہے تو یہ علاقے خبروں کی زینت بن جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی طرح کے آن لائن فراڈ کیے جارہے ہیں۔ کچھ لوگ مقامی، بین الاقوامی فراڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص متعدد بار پکڑا جا چکا ہے۔ جیل بھی مدت بھی کاٹی لیکن واپس آ کر وہ پھر وہی کام کر رہا ہے۔ فراڈیا بار بار جیل جانے کے باوجود اسکیم اور فراڈ سے اتنی رقم بٹور لیتا ہے کہ اس کام میں اسے مزہ آنے لگتا ہے۔
کیا بینک اپنے صارف کی حفاظت کرتا ہے؟
کراچی کے مقامی بینک کی ایک خاتون اسسٹنٹ منیجر نے بتایا کہ ’ہاں فراڈ ہوتے ہیں۔ جب پیسے نکل جاتے ہیں تو لوگ شکایت لے کر ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہم انہیں شکایت درج کرنے کے لیے فارم دے دیتے ہیں لیکن بینک اپنی پالیسی کے مطابق عمل کرتا ہے‘۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ان کا کہنا تھا کہ ’یقیناً ڈیٹا تک رسائی اندرون خانہ ہی ممکن ہے۔ ان کے پورے بینکنگ کریئر میں کئی افراد فراڈ کیس میں شمولیت کی وجہ سے جیل گئے کیونکہ آن لائن ڈیٹا تک رسائی دینے میں ان کا اپنا حصہ بھی شامل ہوتا ہے‘۔
ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بیرون ملک سے کوئی فراڈ کیا جائے جس میں کوئی او ٹی پی کال نہیں آتی بلکہ وہاں زیادہ بڑے پیمانے پر منظم جرائم کیے جارہے ہیں جس میں کارڈ ہولڈرز کا نقصان بینک کی طرف سے پورا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں موجود بینک اکاؤنٹ ہولڈر کے کارڈ سے چین کے اسٹور سے تقریباً 18 لاکھ روپے کی آن لائن شاپنگ کی گئی۔ بینک نے یہ پیسے صارف کو ادا کیے کیونکہ کارڈ کی مکمل سیکیورٹی فراہم کرنا بینک کی ذمہ داری ہے۔

کیا شکایت کنندہ ایف آئی اے سے مطمئن ہیں؟
کراچی کی مقامی خاتون ثنا نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ہزاروں روپے کے ڈیجیٹل فراڈ کی رپورٹ جب ایف آئی اے سائبر کرائم کی ویب سائٹ پر کی، جس میں انہوں نے ایک فارم پُر کیا، مگر ویب سائٹ پر شکایتی فارم بھرنے کے بعد درخواست کا کوئی نمبر، ای میل پر یا ان کے فون نمبر پر موصول نہیں ہوا۔ اور نہ ہی کبھی اس درخواست پر کسی بھی قسم کی کارروائی سے متعلق انہیں بتایا گیا۔
اسی طرح کا حوالہ ایک اور صاحب نے بھی دیا کہ جب انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کی کہانی محکمہ کو دی تو ان کا کہنا تھا وہ یہ چھوٹے موٹے آن لائن غبن اور فراڈ کو نہیں دیکھتے بڑے بڑے فراڈ پر کام کرتے ہیں۔ یقیناً سرکاری ادارے کو اپنی ٹیم میں اضافہ کرنا پڑے گا تاکہ شکایت کنندہ صارف کی شکایت بروقت دور کی جاسکے۔ آن لائن جرائم چھوٹا ہو یا بڑا، مجروم پکڑے جانے چاہئیں۔
جرمن ریڈیو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء میں پاکستان میں آن لائن فراڈ میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اب سستی ٹیلی فون ڈیوائسز موجود ہیں جن سے آپ کا موبائل، کمپنی کا ٹاور سمجھ کر جڑ جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس اتنی طاقتور ہے کہ وہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک لاکھ سے زائد فون کو پیغام بھیج سکتی ہے۔ خطرہ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ اسکیمرز آپ کے موبائل میں موجود آپ کے لاگنگ تفصیلات اور بینک کی بنیادی معلومات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔
ان تمام باتوں کے بعد سمجھ یہی آتا ہے کہ آگاہی ضروری ہے جبکہ احتیاط اور خطروں کی پہچان بھی آپ کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ جان لیں کہ بینک کبھی آپ کو فون نہیں کرے گا۔ یاد رکھیں کہ نہ اس قرعہ اندازی میں آپ کا انعام نکلے گا جس میں آپ نے رجسٹریشن ہی نہیں کروائی۔
ہمیشہ ایسی کالوں پر کچھ دیر غور کریں کہ جو چیز آپ نے آن لائن خریدی ہی نہیں اس کی وصولی کا فون آپ کو کیوں آئے گا؟ جو پارسل آپ کو کسی اور نے بھیجا ہے، اس کے لیے کسی کو آپ کی معلومات کیوں چاہئیں؟ لہٰذا بچ کر رہیے!
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

