’نو مور سپریم‘ عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹس کی وصیت
ٹی ایس ایلیٹ (دی ہالو مین) نے کہا تھا کہ ’دنیا کا یہی انجام ہے‘، دھماکے سے نہیں بلکہ سرگوشی کے ساتھ۔
ڈان اخبار میں شائع سینئر وکیل مخدوم علی خان کی تحریر میں کہا گیا ہے کہ کبھی کبھار اخبارات کے مدیران مصنفین سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ مشہور شخصیات کے بارے میں ایک مختصر مضمون تیار کریں، جو ان کے انتقال کے بعد وصیت یا ’مرگ نامے‘ کے طور پر شائع کیا جا سکے، اسی طرح، ان اداروں کو بھی اسی طرح کی توجہ دی جانی چاہیے جو زوال کے دہانے پر ہوں۔
یہ مضمون 27ویں آئینی ترمیم کے عدلیہ پر اثرات کے بارے میں نہیں ہے، یہ حتیٰ کہ ایک تبصرہ بھی نہیں ہے، یہ سپریم کورٹ اور اُن ہائی کورٹس کی وصیت ہے، جنہیں ہم ایک زمانے میں جانتے تھے۔
اگر آپ کسی شخص یا ادارے کو اچھی طرح اور طویل عرصے تک جانتے ہوں، تو ایسی تحریر لکھنا بھی آسان نہیں ہوتا، اظہار کے لیے الفاظ درکار ہوتے ہیں، 27 ویں آئینی ترمیم کا بل ہمیں الفاظ کا محتاج چھوڑ گیا ہے، تاہم کوشش کے باوجود، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔
ہائی کورٹس
کسی بھی متاثرہ شہری کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ریاست کے کسی عمل کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے, یہ اتھارٹی برقرار رہے گی، مگر ایسے مقدمات اب ہائی کورٹس کے آئینی بینچز میں سنے جائیں گے۔
ماضی میں، متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یہ کیسز تفویض کرتے تھے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد، یہ اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے س پی) کو منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر ججز اقلیت میں ہیں۔
ریاست کا عروج اور کیسز کی تفویض
ہر تجربہ کار وکیل جانتا ہے کہ جو پارٹی کیسز کی تفویض کا اختیار رکھتی ہے، وہ نتائج پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
ججز بھی دیگر افراد کی طرح اپنے رجحانات اور تعصبات رکھتے ہیں، جب کسی مقدمے کے مطلوبہ نتیجے کو جج کے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا جائے، تو کامیابی تقریباً یقینی ہے۔
ٹرانسفر (انتقال) کی طاقت ججوں کے رویوں میں کسی بھی غلط حساب کو محدود کر دیتی ہے۔
صدر مملکت کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی ہائی کورٹ کے جج کا دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کر سکے، وہ شہر یا علاقے سے، جہاں انہوں نے ساری زندگی گزاری، کسی دوسرے صوبے کی ہائی کورٹ میں بھیج دیے جائیں گے۔
اگر کوئی جج یہ منتقل ہونا قبول نہ کرے، تو اسے ریٹائرڈ سمجھا جائے گا۔
سپریم کورٹ اور ججز کی کمزوری
اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان کی طاقتور اختلافی رائے سے ہمیں خبردار ہونا چاہیے تھا، مگر ہم نے مکمل طور پر مخالف سمت میں حرکت کی۔
اب سپریم کورٹ کے ججز بھی ایسے اقدامات سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے ججز یا تو وکلا میں سے ہوں گے یا سپریم کورٹ کے ججز میں سے، کسی سپریم کورٹ کے جج کو اگر یہ تقرری قبول نہ ہو تو اسے ریٹائرڈ سمجھا جائے گا، جلد ہی سپریم کورٹ کے ’ناپسندیدہ‘ ججز کی صفائی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کو اب ہائی کورٹس سے آئینی مقدمات میں اپیلیں سننے کا اختیار نہیں رہے گا، یہ اختیار ایف سی سی کو منتقل کر دیا جائے گا، جن میں صوبوں کے درمیان تنازعات کے فیصلے، بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے درخواستوں کا فیصلہ، اور صدر کو آئینی قانونی مشورہ دینے جیسی اپیلیں شامل ہیں۔
تمام موجودہ مقدمات جو سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں، ایف سی سی کو منتقل ہو جائیں گے۔
متعلقہ قوانین، جیسے الیکشن ایکٹ 2017 میں بھی ایف سی سی کی اتھارٹی کے مطابق ترمیم کی جائے گی۔
اس طرح تمام انتخابی تنازعات ایف سی سی کے دائرہ اختیار میں آ جائیں گے۔
ایک قلم کے اشارے سے تقریباً صدی پرانا قانونِ سابقہ فیصلوں ختم ہو جائے گا، ایف سی سی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند نہیں ہوگی، بلکہ سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتیں ایف سی سی کے فیصلوں کی پابند ہوں گی۔
اس سے واضح ہے کہ کس عدالت کا درجہ اعلیٰ ہے۔
سپریم کورٹ اب ملک کی سب سے بڑی عدالت نہیں رہے گی، یہ بالکل ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ کی طرح صرف سول اور فوجداری مقدمات میں اپیلیں سننے تک محدود ہو جائے گی، ملکی اور آئینی سطح پر کوئی اہم اختیار اس کے دائرہ کار میں نہیں رہے گا۔
سب اثرات کے لحاظ سے، یہ ’سپریم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ‘ بن جائے گی۔
نتیجہ
جس کا خواب جنرل ضیا الحق نے دیکھا، اور جسے جنرل پرویز مشرف حاصل نہ کر سکے، وہ جلد حقیقت بن جائے گا۔
یہ ترمیم یہ ظاہر کرے گی کہ ہمارے منتخب نمائندگان کی نااہلی اور پارلیمنٹ کی کمزوری کے بارے میں احتجاج کرنے والے سب غلط تھے۔
ڈبلیو ایچ آڈن (فنیریل لیوز) نے کہا تھا کہ ’کسی بھی اچھائی کی امید اب باقی نہیں‘۔
