یو اے ای ویزا کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا کرتے پاکستانی کیسا محسوس کرتے ہیں؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ ندیم جوکہ مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، نے جب رواں سال اپنے پہلے تفریحی دبئی کے دورے کی منصوبہ بندی کی تو انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ سفر مہینوں کی طویل آزمائش میں بدل جائے گا۔
انہوں نے ایک ٹریول ایجنسی کے ذریعے وزٹ ویزا کے لیے درخواست دی وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ یہ ایک ‘معمول کا عمل‘ ہے۔ لیکن ان کی درخواست پہلی مرتبہ جنوری میں اور پھر دوبارہ نومبر کے آغاز میں دو بار مسترد ہوگئی۔
جس ایجنسی نے ان کا کیس سنبھالا تھا، اس نے سادہ سا سبب بتایا کہ وہ ’40 سال سے کم عمر‘ ہیں اور کم عمر درخواست گزاروں کو زیادہ سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ندیم جنہوں نے اپنا پہلا نام ظاہر کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ وضاحت الجھن میں مزید اضافے کا باعث بنی جبکہ بہت سے مسافر بھی اس سے پریشان تھے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتا۔ میری عمر کا اس سے کیا تعلق؟ میں فل ٹائم ملازم ہوں اور میں نے اپنا بینک اسٹیٹمنٹ بھی جمع کروایا تھا۔ میرا ایک دوست فری لانسر ہے، پہلی کوشش میں ہی اسے ویزا مل گیا۔ میں نے تیسری بار درخواست دی ہے، دعا ہے کہ اس بار منظور ہو جائے لیکن یہ بہت تھکا دینے والا عمل رہا ہے‘۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) جانے والے پاکستانیوں کے لیے ویزا مسترد کیے جانے کے واقعات تواتر سے سامنے آ رہے ہیں حالانکہ خلیجی ملک کے پاکستان کے ساتھ قریبی سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ ابوظبی مشرق وسطیٰ میں اسلام آباد کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور ترسیلاتِ زر کا بڑا ذریعہ بھی جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکینِ وطن مقیم ہیں۔
جمعرات کو ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری نے سینیٹ کی انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی کو بتایا کہ یو اے ای پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستانی پاسپورٹس پر کوئی رسمی پابندی نہیں ہے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری جو کمیٹی کی سربراہ ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ یہ پابندیاں اس وجہ سے لگائی گئی ہیں کہ مسافروں کے ‘جرائم میں ملوث ہونے‘ کے خدشات ہیں اور کہا کہ حال ہی میں بہت پیچیدگیوں کے بعد ہی چند ویزے جاری کیے گئے ہیں۔
یہ مسئلہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ جنوری 2025ء میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تارکین وطن پاکستانیوں کو بتایا گیا کہ بعض ممالک کے ویزے ’غیر رسمی طور پر بند‘ کر دیے گئے ہیں۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر اعصام بیگ نے کہا کہ یو اے ای کو پاکستان سے آنے والے وزٹ ویزہ رکھنے والے افراد کے حوالے سے خدشات ہیں کہ وہ ممکنہ طور پر ’گداگری‘ میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
اس کے اگلے ماہ پاکستان کے سابق سفیر برائے یو اے ای فیصل نیاز ترمذی نے پاکستانی شہریوں کو ویزا نہ دینے کے معاملے کو ایک ’سنگین اور اہم‘ مسئلہ قرار دیا۔ عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اماراتی حکام نے دستاویزات کی صداقت، بشمول تعلیمی اسناد اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے درخواست دہندگان کے معاملات پر خدشات ظاہر کیے ہیں۔
فیصل ترمذی نے کہا، ’اگر کہیں بھی تضاد پایا گیا، پھر چاہے دستاویز اصلی ہی کیوں نہ ہوں مگر پاکستان یا یو اے ای میں تصدیق اصلی نہ ہو تو یہ ویزے رد کیے جانے کا سبب بن سکتا ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی تصدیقی نظام استعمال کیا جا رہا ہے۔
اپریل میں یو اے ای کے سفیر برائے پاکستان حمد عبید ابراہیم سالم الزعابی نے اعلان کیا کہ ویزا کے مسائل حل ہو گئے ہیں اور پاکستانی شہری اب پانچ سالہ ویزے سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ان یقین دہانیوں کے باوجود، جولائی کے شروع میں دوبارہ مسائل سامنے آئے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے یہ معاملہ اپنے یو اے ای ہم منصب کے ساتھ اٹھایا اور 11 جولائی کی ملاقات میں یو اے ای کے لیفٹیننٹ جنرل شیخ سیف بن زاید النہیان نے پاکستانی شہریوں کے ویزوں کی تیز تر پروسیسنگ کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اس سب کے باوجود مسافروں کو اب بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافی فاطمہ عطاروالہ نے دبئی میں ہونے والے بڑے ایونٹ گل فوڈ کی کوریج کے لیے اپنی کوششوں کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’میرا ویزا دو بار مسترد ہوا۔ پہلے ہم ایک ایجنسی کے ذریعے گئے پھر اس ایونٹ کی کوآرڈینیٹنگ آفیشل ایجنسی کے پاس گئے لیکن 45 سال سے کم عمر کے ہر درخواست دہندہ کا ویزا مسترد کر دیا گیا۔
’یہاں تک کہ کمپنی ڈائریکٹرز کے ویزے بھی پہلے راؤنڈ میں منظور نہیں ہوئے۔ دوسرے راؤنڈ میں صرف 45 سال سے زائد عمر کے درخواست دہندگان کے ویزے دیے گئے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، افریقہ اور دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی یہی صورت حال دیکھنے کو ملی‘۔
25 سالہ سید عباس رضا نقوی جو ایک امریکی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں نے کہا کہ انہیں کمپنی کی اسپانسر شپ کے باوجود ان کا ویزا بار بار رد کیا گیا۔ ’میں نے گزشتہ سال ستمبر میں جنوری میں ہونے والی ایک کانفرنس کے لیے درخواست دینا شروع کی۔ میری کمپنی نے دعوت نامہ اور تمام معاون دستاویزات فراہم کیں لیکن پھر بھی کامیابی نہ ملی۔ میں نے تین بار کوشش کی۔ آخرکار ایک ’گارنٹی شدہ ویزا‘ زیادہ فیس پر جاری کیا گیا لیکن یہ عمل اب بھی غیر شفاف اور پریشان کن ہے‘۔
عباس رضا نے اس سال ستمبر میں پانچ سالہ، ملٹی پل انٹری وزٹ ویزا کے لیے درخواست دی لیکن اسے دوبارہ مسترد کر دیا گیا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘ویزے کی قیمت ایک ہزار 200 ڈالر (3 لاکھ 39 ہزار روپے) تھی۔ مجھے 650 ڈالر واپس کیے گئے لیکن پھر بھی مجھے ایک بڑا مالی نقصان ہوا۔ خوش قسمتی سے، میری کمپنی نے اخراجات برداشت کیے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک مایوس کن تجربہ رہا‘۔
کراچی کے ایک 36 سالہ ٹیک کاروباری صاحب کا ویزا بھی مسترد ہوا، انہوں نے ڈان کو نام نہ ظاہر کرنے شرط پر بتایا کہ انہوں نے اس سال ستمبر میں کوشش کی تھی۔ اس کے بعد میں نے پہلی درخواست کے بجائے نئی ویزا کے لیے درخواست دی۔ حیرت انگیز طور پر اسی مہینے میں ویزا جاری کر دیا گیا‘۔
مزمل آصف ایک اسپورٹس جرنلسٹ ہیں جو دبئی میں ایشیا کپ کی کوریج کے لیے تعینات تھے، اپنے ویزا مسترد ہونے کی وجہ سے سفر نہ کر سکے حالانکہ ان کے پاس تمام ضروری اجازت نامے اور دستاویزات موجود تھیں۔
’ہمارے ٹریول ایجنٹ نے کہا کہ دبئی ویزوں کے رد کیے جانے کی شرح ’100 فیصد‘ ہے۔ ہر ایجنسی نے درخواست دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ابو ظبی کے ذریعے درخواست دینے کی ہدایت دی لیکن پھر بھی منظوری غیر یقینی تھی۔ آخرکار میرا ویزا اس لیے مسترد کر دیا گیا کیونکہ میں 35 سال سے کم عمر اور غیرشادی شدہ ہوں۔ ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ پہلے ہی ہو چکی تھی اور میری نیوز ایجنسی کو تقریباً ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا‘۔
ٹریول ایجنسیز نے اس رجحان کی تصدیق کی۔
ویزا ایکسپریس کراچی کی کسٹمر سروسز نمائندہ سحر نصیر نے ڈان کو بتایا کہ ’دبئی کے لیے پہلی بار اور سنگل انٹری ویزا کی درخواستوں کو 70 سے 80 فیصد تک مسترد کر دیا جاتا ہے جبکہ یو اے ای میں خاندانی تعلقات رکھنے والے افراد کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘۔
منیجر ٹرِپس ٹریول اینڈ ٹورز ظہیر زبیر نے کہا کہ سنگل ویزوں کی منظوری کی شرح صرف 20 فیصد ہے جبکہ فیملی ویزوں کی منظوری تقریباً 80 فیصد ہے۔
اے ای جی ویزا کے ایک ٹریول ایجنٹ عبید سجاد نے ویزا حاصل کرنے کے لیے سخت مالی تقاضوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا، ’اگر آپ چھ ماہ کی بینک اسٹیٹمنٹ کے ساتھ تقریباً 30 لاکھ روپے جمع کرواتے ہیں تو آپ کے امکانات بہتر ہیں۔ سنگل ویزا مسترد ہونے کی سب سے بڑی وجہ ناکافی فنڈز ہیں‘۔
ادھر پریمیو ٹریول اینڈ ٹورز کی ایجنٹ قرۃ العین نے کہا کہ گزشتہ زائد قیام یا غیر واضح مالی دستاویزات‘ ویزا مسترد ہونے کی وجوہات ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر بات چیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں وسیع پیمانے پر مایوسی پائی جاتی ہے۔ ریڈٹ صارفین نے بلاک شدہ ٹرانزٹ ویزے اور ایجنسیز جیسے VFS گلوبل کی متضاد اطلاعات کا ذکر کیا اور ایک صارف نے بتایا کہ پیشہ ورانہ حیثیت یا عمر اکثر ویزا منظوری کا تعین کرتی ہے۔
کچھ صارفین نے کہا کہ ’پاکستانیوں کے لیے دبئی میں وزٹ ویزے پر عملی طور پر پابندی‘ ہے جس کی وجہ مبینہ غیر قانونی ہجرت کے خدشات ہیں۔
تاہم یو اے ای ایمبیسی کے ایک سینئر سفارتکار جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے اس قیاس آرائی کو مسترد کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ ’پاکستانی شہریوں کے لیے یو اے ای ویزے پر کوئی پابندی نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا، ’یو اے ای حکومت مختلف کیٹیگریز کے تحت درخواست دہندگان کو روزانہ ویزے جاری کرتی ہے۔ البتہ بعض پاکستانی ٹریول ایجنٹس نے ماضی میں درخواست دہندگان کے ڈیٹا میں تبدیلیاں کیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے جس کے بعد مرکزی ویزا نظام متعارف کروایا گیا‘۔
سفارتکار نے مزید بتایا کہ شفافیت یقینی بنانے کے لیے ایمبیسی میں تین بایومیٹرک ڈیسک قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’یو اے ای میں 22 لاکھ 70 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جو نئے قانون کے تحت اپنے خاندانوں کی اسپانسرشپ کر سکتے ہیں۔ تاہم جن لوگوں کا کریمنل ریکارڈ ہے یا جنہوں نے اپنا ڈیٹا تبدیل کیا تھا، انہیں اپنے ریکارڈ درست کرنے کو کہا جا رہا ہے‘۔
دوسری جانب یو اے ای کے سفیر سالم الزعابی نے جمعرات کو وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کو ویزا سہولت کاری میں بڑے اصلاحات سے آگاہ کیا جن میں آن لائن پروسیسنگ، پاسپورٹ اسٹیمپ کے بغیر ای ویزے اور سسٹم ٹو سسٹم لنکیجز کی تیز رفتار سہولت شامل ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کے مطابق، پاکستان میں نئے قائم شدہ یو اے ای ویزا سینٹر میں روزانہ تقریباً 500 ویزا پراسیس کیے جاتے ہیں۔
سفارتی یقین دہانیوں اور حال ہی میں اعلان شدہ اصلاحات کے باوجود ندیم اور دیگر پاکستانی ویزا درخواست دہندگان کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ عمل پر اب بھی غیریقینی صورت حال پائی جارہی ہے۔
ندیم نے فون پر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ کہا، ’ایسا لگتا ہے جیسے آپ اپنے منصوبوں، کام کی ذمہ داریوں اور پیسوں کے ساتھ لاٹری کھیل رہے ہیں۔ میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میں جا سکتا ہوں یا نہیں‘۔
اضافی رپورٹنگ: عبداللہ مہمند
ہیڈر: خالی شیخ زائد روڈ ’دبئی رن 2025‘ کی صبح سویرے شروعات کے لیے تیار ہے جو دبئی فٹنس چیلنج کے نویں ایڈیشن کے حصے کے طور پر 23 نومبر 2025 کو دبئی میں منعقد ہوا — تصویر: اے ایف پی
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

