فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

پاکستان کی سیاسی لغت میں کچھ نئے الفاظ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جیسا کہ تحریکِ انصاف نے ”سونامی“ کا نعرہ متعارف کروایا جو اس حد تک مقبول ہوا کہ عمران خان ’سونامی خان‘ کے لقب سے مخاطب کیے جانے لگے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے یہ بلند و بانگ دعوے بھی کیے کہ ان کا یہ سونامی اس نظام کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا لیکن وہ کوئی جامع پالیسی پیش کرنے میں ناکام رہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت شاید یہ نعرہ تخلیق کرتے ہوئے یہ فراموش کر بیٹھی تھی کہ سونامی طوفان کس قدر انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا تھا۔

کوئی بھی نعرہ فقط چند الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک سیاسی فکر کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے نعرے تخلیق کیے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد کسی مثبت سوچ کو نمایاں کرنے کے بجائے شہ سرخیوں میں ’اِن‘ رہنا رہا۔

چند روز قبل ایم کیو ایم نے "سیاسی ڈرون“ مارنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان ڈرون حملوں کی زد پر رہا ہے اور بعض حلقوں کے نزدیک ان میں اب تک بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ”ہارس ٹریڈنگ“ ، ”بھان متی کا کنبہ“اور ”لوٹا“ کی اصطلاحات اب ماضی کے اوراق کا حصہ بن چکی ہیں۔ حالیہ سیاسی نعرے اس تاریخی تسلسل کا حصہ ہیں جوپاکستانی سیاست کا خاصہ رہا ہے اور اس کا اظہار مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات سے بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نئی سیاسی جماعت تحریکِ تحفظِ پاکستان کے نام سے وجود میں آچکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ ان کو میزائل کا انتخابی نشان ملے۔ ممکن ہے کہ ان کی اٹامک انرجی کمیشن، پاکستان کے ساتھ طویل رفاقت اس خواہش کا سبب ہو۔ لیکن کیا کیجئے کہ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت خواہاں ہے کہ ان کی پارٹی عقاب کے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابات میں اترے۔ یہ ایک ایسا پرندہ ہے جو اہلِ پاکستان میں اپنی بہادری کے باعث مشہور ہے لیکن اس کی ’خون خواری‘ بھی ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان میں نو برس تک جمہوری عمل اس کے پنجوں میں جکڑا رہا۔

مسلم لیگ نواز کا روایتی نشان شیر گیارہ سال پر محیط جبر کی طویل رات کے بعد اپنی کچھار سے باہر نکلا۔ پیپلز پارٹی کا تیر بھی برسوں سے اس کے سیاسی حریفوں کو ”گھائل“ کرتا آر ہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا نشان گلاب کا پھول ہے لیکن یہ اس قدر مرجھا چکا ہے کہ اس کی ”مہک“ پاکستان کے جمہوری نظام کومعطر کرنے سے عاری دکھائی دیتی ہے۔

ترازو کا نشان ”ہاٹ فیورٹ“ بن چکا ہے کیوں کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی دونوں ہی یہ انتخابی نشان حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مذکورہ سیاسی پارٹیاں دھرنوں کی سیاست اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کوشاں نظر آتی ہیں لیکن انقلاب کے دعوﺅں کے بجائے حقیقت پسندی کا دامن تھامنے سے ہی عوام کا ووٹ بنک ان کے ’پلڑے‘ میں پڑ سکتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کتاب کے انتخابی نشان کی امیدوار ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اس انتخابی نشان پر اعتراض کرتے ہوئے یہ مو قف اختیار کیا تھا کہ مذہبی پارٹیاں اس نشان کو قرآن پاک کے طور پر استعمال کرکے عوام کو اپنی جانب راغب کرسکتی ہیں، چناں چہ یہ تجویز دی گئی کہ اگر کتاب کا نشان کسی جماعت کو الاٹ کیا جاتا ہے تو اس پر انگریزی کے الفاظ لکھے ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس نشان پر انتخاب لڑنے والا ان کے مفہوم سے بھی آشنا ہو۔

کچھ ایسا ہی معاملہ پتنگ کے نشان کے ساتھ بھی درپیش نظر آتا ہے جو مشرف دور میں انتہائی بلندیوں پر اڑتی رہی۔ ان دنوں یہ پنجاب کی فضاﺅں میں بھی نمودار ہوئی لیکن تب ہی صوبائی حکومت نے ”پتنگ بازی“ پر پابندی عائد کر دی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک سیاسی جماعت کا انتخابی نشان سرخ ٹوپی ہے۔ یہ ممکن تھا کہ اگر یہ سیاسی جماعت اپنے سیاسی سفر کے آغاز کے موقع پر تھوڑے ’تدبر‘ کا مظاہرہ کرتی اورسیاہ یا سفید پگڑی کا انتخاب کرتی تو شاید اسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اس قدر قربانیاں نہ دینا پڑتیں۔

دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں سائیکل کو ڈر تھا کہ تیر اسے ”پنکچر“ کردے گا لیکن آنے والے انتخابات میں ”سائیکل سوار“ اپنے ہاتھ میں تیر تھامے انتخابی مہم پر سرگرم نظر آئے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ ناخواندہ ووٹروں کو انتخابی نشان کے ذریعے اپنے امیدوار کی شناخت میں آسانی رہتی ہے۔ پاکستان میں ووٹرز کی اکثریت ان انتخابی نشانات پر انحصار کرتی ہے جو ملک میں فروغ پذیر اس خاص مائنڈ سیٹ کے عکاس ہیں جس کے تحت یہ تصور کیا جاتا ہے کہ عوام کو کبھی امریکہ اور ہندوستان سے خوف زدہ کرکے اور کبھی انقلاب کے نعروں کے ذریعے بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔

لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی خواہش نے ملک کی شمالی سرحدوں کو غیر محفوظ کیا اور بالآخر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ڈاکٹرائن میں تبدیلی کرنا پڑی۔

انتخابات ہونے ہی والے ہیں اور طاہر القادری کی سیاسی منظرنامے پر اچانک دستک ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی گیی ہے لیکن اوال یہ ہے کہ سونامی کی ماند پڑتی لہروں اور دفاعِ پاکستان کونسل کے جوش و ولولے میں آنے والی کمی کے بعد کیا یہ بازی گری زیادہ روز تک عوام کی دلچسپی کا سامان کرسکے گی۔


ali zaef-80 علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں