• KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C

مشرف کی آمد کے سیاسی مضمرات

شائع March 25, 2013

PAK112_PAKISTAN-MUSHARRAF- 670
کوئٹہ میں عوامی مجلس عمل کے کارکن سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی پر ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے والے پہلے فوجی آمر ہیں جو دلیری سے واپس ملک آگئے ہیں اوروہ سیاست میں سرگرم ہوناچاہتے ہیں۔ ورنہ دوسرے آمر جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کو آمریت ختم ہونے کے بعد عوامی زندگی میں آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جنرل ضیا دوران آمریت ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔

جنرل مشرف نے 1999ء میں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹا، ان کو جلاوطن کیا اور آئین توڑا۔ وہ دس سال تک پاکستان پر مسلط رہے۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی جماعتوں مل کر اُنہیں مواخذہ کی دھمکی دی اور خود عسکری حلقوں میں ان کی حمایت کم ہوئی تو وہ صدارت سے استعفا دینے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ جاتے جاتے انہوں نے کہا تھا کہ اب پاکستان کا خدا حافظ ہے۔ لیکن خدا کے فضل سے پاکستان اب بھی قائم ہے۔

مشرف بینظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں مطلوب ہیں اور سپریم کورٹ کے ججز کو حبس بے جا رکھنے کے بھی الزامات ہیں۔

حال ہی میں مدت مکمل کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت امریکی فارمولے کے تحت بنی تھی۔ جس کے مطابق مشرف اور بینظیر بھٹو کو ساتھ ساتھ حکومت کرنی تھی۔

ستمبر میں مشرف پر واضح کیا گیادیا کہ“بنیادی طور پر ہم آپ کے ساتھ ہیں، مگر چاہتے ہیں کہ حکومت پر جمہوری لبادہ ہو، اور اس کے لیے بینظیر نہایت ہی موزوں ہیں۔”

مگر مشرف مستقبل کی اتحادی کو تحفظ فراہم نہ کر سکے اور محترمہ کو راولپنڈی میں جلسے کے بعد قتل کردیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد بھی اسی فارمولے پر عمل ہوا۔ فرق یہ ہوا کہ بینظیر اس جہان میں نہیں رہیں اور مشرف ملک میں نہیں رہ سکے۔

خود کو ضرورت سے زیادہ دانا سمجھنے والے مشرف نے ملک میں کسی بھی پارٹی یا ادارے سے بنا کے نہیں رکھی۔ نواز لیگ کی حکومت کو برطرف کیا۔ پیپلز پارٹی ان کو بی بی کے قتل کا ذمہ دار ٹہراتی ہے۔ عدلیہ کو برطرف کیا۔ آخری ایام میں خود عسکری حلقے بھی ان سے ناخوش تھے۔

ان کے اتحادی آج نئی سیاسی صف بندی میں چلے گئے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کا اتحاد مجلس عمل کے لوگ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ ایم کیوایم اور قاف لیگ پیپلز پارٹی کی اتحادی ہیں۔ اگرچہ قاف لیگ ڈھائی سال پہلے مشرف کو “عاق” کر چکی ہے، جس کو جنرل صاحب نے بڑے ارمانوں سے بنایا اور پالا تھا۔ ویسے بھی یہ لیگ اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔

سندھ میں مشرف نے ار باب غلام رحیم اور علی محمد مہر پر بڑی نوازشیں کی تھیں۔ ارباب نواز شریف سے اتحاد کرنے کے چکر میں تقریباً لاہوری بن بیٹھے ہیں، لیکن مشرف نے تھر سے الیکشن لڑنے کی بات کرکے نواز شریف کے پاس ارباب رحیم کے نمبر کم کر دیے ہیں۔

مشرف کی حامی جماعتیں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں رہیں، سوائے متحدہ مجلس عمل کے۔ ان میں سے مولانا فضل الرحمان نے پی پی کا دیا۔

مشرف واپس تو آگئے ہیں، کیاسیاسی طور رپر بھی وہ خود کو بحال کر لیں گے؟

وہ عناصر جو کل مشرف کے ساتھ تھے آج کہاں کھڑے ہیں؟

کیا ملکی سیاست میں مشرف کا کوئی رول ہے؟

وہ جس رول کی تلاش میں لوٹ کر آئے ہیں کیا وہ رول ان کو مل سکتا ہے؟

ان کے ساتھ کون کون کھڑا ہوگا؟

یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کے جواب میں یہ حقیقت پنہاں ہے کہ مشرف کا مستقبل کیا ہوگا؟

وہ خود کو پی پی اور نواز شریف کے بعد تیسرے آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی ہر نشست پر اُمیدوار کھڑے کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی دوسرے نمبر پر بڑی پارٹی نواز لیگ یہ کام نہیں کرسکتی، مشرف کہاں سے کر لیں گے؟

مشرف گزرا ہوا زمانہ ہیں،تاہم میڈیا میں ضرور ہائیپ پیدا کیاہوا ہے۔ دراصل ان کی اہمیت پریشرگروپ کی سی ہے۔ وہ صرف ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل پیدا کریں گے، اور انہیں مجبور کریں گے کہ وہ بعض اشوز پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔

اسلام آبادکے حلقوں کے مطابق عسکری قیادت نے ریٹائرڈ جنرل کو فی الحال ملک سے باہر رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہی مشورہ بینظیر کو مشرف نے دیا تھا کہ ان کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل نے و طن واپسی کے لیے سعودی عرب اور عرب امارات کا اثر رسوخ استعمال کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت انہیں گرفتاری کی دھمکیاں دے رہی تھی، اس حکومت کے ختم ہونے کے بعد مشرف وطن واپس لوٹے ہیں۔ اب ان کی فرمائش ہے کہ انہیں گرفتار  نہ کیا جائے۔

مبصرین کے مطابق مشرف اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت میں آسکیں گے، البتہ سیاسی منظر نامے، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے اداروں پر ضرور اثرانداز ہوں گے۔

عسکری قیادت:

ریٹائرڈ جنرل کا سیاست میں سرگرم ہونا سیاستدانوں کے لیے ہی نہیں خود موجودہ عسکری قیادت کے لیے بھی درد سر ہوگا، جس نے حالیہ برسوں میں ادارے کو سراب سے نکالنے اورنئے طریقے سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان کی آمد سے قبل تجزیہ نگار ان سوالات پر غور کررہے تھے کہ کیا فوج میں ان کے حامی اس پوزیشن میں ہیں کہ ان کو گرفتار ہونے سے بچا سکیں ؟

یا یہ کہ فوج برداشت کرلے گی کہ ایک سابق فوجی سربراہ جیل چلا جائے؟

 فوج آخر ایک ریٹائرڈ جنرل کو سر پرکیوں بٹھائے گی ؟

طالبان کی دھمکی کے بعد اگر خدانخواستہ ان کو کچھ ہو جاتا ہے تواس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ اگر ان کو کچھ نہیں ہوتا، تو اس تاثر کو ختم کرنا ناممکن ہوجائے گا کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں فوج کا رول زیر بحث آئے گا۔

عدلیہ:

جب عدلیہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع کرے گی، تب صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ یہ وہ عدلیہ ہے جس کو انہوں نے برطرف کردیا تھا۔تاریخ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ مشرف نے جس عدلیہ کو لتاڑا تھا،وہ اب ان کی آزادی اور مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

سیاسی بازار میں یہ باتیں بھی گشت کر رہی ہیں کہ غیرملکی فیکٹر نے یہ یقین دہانی حاصل کرلی ہے کہ عدلیہ ہلکا ہاتھ رکھے۔ یہ افواہیں ان ججز کے لیے خاصی تکلیف دہ ہوں گی، جنہوں نے گزشتہ برسوں میں بڑی محنت اور ہمت سے اپنا امیج بنایا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے۔ بہرحال یہ افواہیں عمل سے ہی ختم ہو سکیں گی۔ فی الحال تو عدلیہ نے ریٹائرڈ جنرل کی بینظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں ضمانت منظورکر لی ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے آئین کو توڑا، ان کے معاملے پر عدلیہ آزمائش میں آئے، وہ عدلیہ جس نے دو منتخب وزیر اعظموں کو طلب کیا، جن میں سے ایک کو نااہل قرار دیا۔ صدر کو مشورہ دیا کہ وہ آئین کے مطابق چلیں، طاقتور نوکرشاہی سے بھی پوچھ گچھ کی۔ لوگ منتظر ہیں اُس وقت کے،جب عدلیہ مشرف کے معاملے کو ہینڈل کرے گی۔

سیاسی جماعتیں:

سب سے بڑا امتحان مسلم لیگ نون کا ہوگا۔ نواز شریف مسلسل مشرف کے خلاف بولتے رہے ہیں، اور زور دیتے رہے ہیں کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے والے پر آئین کی دفعہ چھ کا اطلاق کیا جائے یعنی غداری کا مقدمہ چلایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی مہم جوئی کی ہمت نہ ہو۔

مشرف کی آمد کے بعد نون لیگ ان کو سزا دلانے کے لیے کتنا زور دیتی ہے، اس سے پتہ چلے گا کہ وہ اس مطالبے میں کتنی سچی ہے۔

اگر نواز لیگ انتخابات جیت جاتی ہے تب یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوجائے گا۔ تاہم ابھی تک نواز لیگ کا کوئی سخت موقف سامنے نہیں آیا۔

عمران خان اور مشرف دونوں ایک ہی حلقے سے حمایت کے آسرے میں ہیں۔ عمران کی کیا پوزیشن بنے گی جو شروع میں جنرل مشرف کے ساتھ تھے، مگر بعد میں ان سے الگ ہو گئے۔ اس وقت ان کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ طالبان کے حامی سمجھے جاتے ہیں اور میاں نواز شریف کی بھی یہی لائن ہے۔ ان کے ساتھ مذہبی جماعتیں بھی کھڑی ہیں ۔ یہ پوری لابی طالبان سے مذاکرات کے حق میں ہے۔

مشرف کے مخالفین کا الزام ہے کہ انہوں نے نائین الیون کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت ترک کردی تھی۔ شدت پسند رہنماؤں کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا۔

جبکہ دوسری طرف پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں۔ تاریخ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ مشرف کا اور ان جماعتوں کا اس معاملے میں موقف ملتا جلتا ہے، البتہ اے این پی اب طالبان سے مذاکرات کی بات کرتی ہے۔

کیا مشرف اور علامہ طاہرالقادری کے درمیان کوئی تعلق ہے؟

دونوں خود کو “ماڈرن مسلمان”کہلاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ مشرف بھی دو بڑی پارٹیوں کے خلاف پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے انتخابات میں امیدواروں کی اہلیت کا سوال اٹھائیں اور علامہ قادری کی طرح آرٹیکل 62 اور  63 پر مکمل عملدرامد کی بات کریں۔

جس طرح علامہ خود کوئی سیاسی فائدہ نہ لے سکے، مشرف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ کسی اور کا کھیل خراب کریں گے۔

اس وقت صرف علامہ قادری ہی ہیں جو ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ورنہ کسی پارٹی نے ابھی تک مشرف کا ساتھ دینے یا اتحاد میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔

خود کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دینے والا بلوچستان میں سینکڑوں لوگوں کی پراسرار گمشدگی، ڈرون حملوں کا خفیہ معاہدہ کرنے، بلوچستان میں آپریشن کی ذمہ داری سے بھی بری الذّمہ نہیں۔

مشرف کے ابھی تک بادشاہی خیالات رکھتے ہیں۔

وہ دیہی علاقوں کے تھانوں پر ڈیوٹی کرنے والے تھانیدار کی طرح سوچتے ہیں۔ جو ریٹائر ہونے کے باوجود خود کو تھانیدار ہی سمجھتا ہے۔

جنرل نے ملکی وسائل، عسکری ادارے کی کمانڈ، سرکاری مشنری کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے سیاست اور حکومت کی۔ اب ان کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہیں۔ہاں پیسے ضرورہیں جو خرچ ہوتے ہوئے نظر بھی آتے ہیں۔

مشرف نے ابھی چند ماہ قبل فوج کو مشورہ دیا تھا وہ ٹیک اوور کرے۔ مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ اب اس نسخے کی سیاسی مارکیٹ میں ڈیمانڈ نہیں رہی، اور نہ ہی ان پالیسیوں کی اور شخصی حکومت کی مارکیٹ ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

طفيل احمد عباسي Mar 25, 2013 01:24pm
BEST SIR
Dr:A.Qadeer Memon Mar 25, 2013 02:57pm
بهترين حقيقت مين مشرف سي بهي يهي کام کروايا جائي گا ” آ بيل مار “ 0 پاکستان کا 73 کا آئين مين اس آدمي کي کيا سزا هي جو منتخب حکومت کو تاريکي مين ختم کرکي اقتدار پر قبضه کر لي اور اگر اس پر اب بهي عدالت خاموش رهي تو اس عدالت کي انصاف کو کيا کها جائي ؟
Syed Arzan Ali Rizvi Mar 25, 2013 05:27pm
bohhttt A'la,!! Musharaf ki pusht panahi Foaj kare ya, Saudia Arab, mojuda siyasat me Inka koi ahm role nazar nhi arha... bullet proof jecket pehn kr Watan aaney vala, khud ko, comando or Syed kehny wala kitna buzdil hy, Awwam ny dekh liya.., Ye amar bhi Qabil. e . ghor hoga k kiya Adliya waqayee Azaad or khud mukhtar hey ? Aamir ko bura bhal kehny vali or use ghaddar qrar deny vale Siyasi madari ab tak Q khamosh hyn ??
ALI RAZA Mar 26, 2013 02:51pm
General, ki amad ne waqai chand swalat khare kiye hain , sawalt ka zikar sohail sb uper kar chuke .ek admi intekhabat se chand hafte kabl mulk main confident entry marta hai , aur dharalley se ye baat karta hai k wo tamam sub'on se apne umeedwar khare karega election main bharpur hissa lega ,jub k usey beshtar cases ka samna hai ,life threats hain aur bohat kuch hai jis ka zikar kia jasakta , mulk moujuda politcle atmosphere main survive karne krna General ki liye asan na hoga ,jaise sohail sb ne arz kia un ki guzishta karguzarian aise nahin k unhe usi tarha ka ground milega ,( behar hal) is jandar tehreer se hum khud bhi in sawalat k jawabat mukamal tor p to kafi had tak samajh sakte hain , in ki amad kisi khas planning k bad he amal main aye hai ye to tai hai is k aghraz-o-maqasid kia hain ye dekhna hai!

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025