• KHI: Partly Cloudy 24.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 18°C
  • ISB: Rain 13.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 24.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 18°C
  • ISB: Rain 13.1°C

سب سے بڑا ٹائم بم

شائع November 21, 2013

سیاسی حکام کی بیان بازیوں اورعدالتی دباوُ کے باوجود یہ بھیانک جرم جسے ‘غیرقانونی گمشدگی’ کہتے ہیں کسی طور ختم نہیں ہوپایا ہے-

الہٰی بخش مارخند جو ایک نوجوان طالبعلم تھا اس کے سترہ مہینے کی غیر قانونی قید اور جسمانی تشدد کے واقعے نے جو پچھلے ہفتے ہی منظر عام پر آیا ہے اس بے جا گمشدگی کے شکارلوگوں کے اندوہناک کرب کو ایک بار پھر لوگوں کے سامنے اجاگر کردیا ہے-

اسے دن کے اجالے میں وارا، سندھ میں گورنمنٹ کالج سے اٹھایا گیا تھا جبکہ وہ امتحان دے رہا تھا- اس کی گمشدگی کی اطلاع ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کو اس کے کزن ساجد مارخند نے اس واقعہ کے فوراً بعد دی تھی- چند دن بعد ساجد اپنے دوست امیر مارخند کے ساتھ خود بھی غائب ہوگیا اور دو دن کے بعد دونوں نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملیں-

اس دوران میں، الہٰی بخش کے چچا کی ایک پٹیشن کے جواب میں سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بنچ نے پولیس کو حکم دیا کہ “گمشدہ شخص” کو عدالت میں پیش کیا جائے- 30 اکتوبر کو، ایس ایس پی، قمبر- شہدادکوٹ نے عدالت کے حکم پر کامیابی کے ساتھ عمل کرکے تاریخی کارنامہ انجام دیا-

نوجوان الہٰی بخش کو عدالت میں دو آدمیوں کی مدد سے لایا گیا- وہ خود سے چلنے کے قابل بھی نہیں تھا اوراسے نارمل طریقے سے بات کرنے میں مشکل ہورہی تھی- پھر بھی، وہ اپنے سر اور پیروں پر زخموں کے نشان بتا سکتا تھا-

الہٰی بخش کی دردناک کہانی میں تعجب کا کوئی پہلو نہیں- عالی مرتبت ارباب اختیار اور بدبخت شہریوں نے اس طرح کی کہانیاں بار بار سنی ہونگی- انجانی جگہوں پر قید اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے کراچی پولیس کے حوالے کردیا گیا جس نے اس کوغیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں دھر لیا-

بالکل اسی نوعیت کے طرزعمل پر تین ممبروں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے جو 2010 کے گمشدہ افراد پر تحقیق کررہا تھا، پولیس فورس کو سرزنش بھی کی تھی — کہ پولیس ان قیدیوں پر جھوٹے الزامات اوپر سے لگا دیتی ہے-

الہٰی بخش کی رہائی سے تین دن قبل، “گمشدہ افراد” کے چند خاندانوں نے کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ کا فیصلہ کیا تاکہ قوم کے ضمیر کو ان کی پریشانیوں سے آگاہ کرکے جھنجھوڑنے کی کوشش کی جائے- اسی دن بلوچستان کے بےبس وزیراعلیٰ گمشدہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں اپنی ناکامی کا رونا رو چکے تھے-

انتہائی مایوسی کا احساس ہر بلوچ کے دل کو اندر سے کھرچ رہا ہے- یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کے حالات کو نارمل بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے-

وہ قوم پرست جو چاہے کتنے ہی صلح پسند کیوں نہ ہوں اور اسلام آباد پر ایک بار پھر بھروسہ کرنے کیلئے تیار ہوں کچھ بھی نہیں کرسکتے جب تک لوگوں کو اچانک غائب کردینے کا، ان کو بلا وجہ قید میں رکھنے کا، ان پر تشدد کرکے ان کے مردہ جسموں کو کہیں بھی پھینک دینے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا-

خیبرپختونخوا میں بھی، بمشکل کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب پشاور ہائی کورٹ قانون نافذ کرنےوالی ایجنسیوں کو ان کی لا پرواہیوں اور غیر قانونی کارروائیوں کے بارے میں سخت قسم کے تنقیدی ہدائت نامے جاری نہ کرتی ہو-

پچھلے سال، صوبائی انتظامیہ نےعدالت کو خبر دی کہ 1930 گمشدہ لوگوں میں سے 1035لوگ بازیاب کرکے رہا کردئے گئے تھے اور 895 لوگ نظربندی مراکز کے حوالے کردئے گئے تھے جو کہ ایک متنازعہ عمل کے تحت شہری انتظامیہ کی مدد کے لئے قائم کیا گیا تھا- تاہم خیبرپختونخوا کی حکومت گمشدہ لوگوں کے خاندان کے دکھ کو نہیں محسوس کرسکتی تھی کیونکہ اس کے ریڈار پر تو صرف ڈرون نظر آتے تھے-

سپریم کورٹ جو پچھلے چھ سال سے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے کئی بارمایوس ہو کر نا امید ہوچکی ہے-

گمشدہ لوگوں کی بازیابی کے بارے میں اسلام آباد اور کوئٹہ میں پٹیشن سننے کے علاوہ عدالت نے اور بھی کئی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں بعض ریاستی اداروں پر جواب دہی کے اصولوں کا اطلاق بھی شامل ہے-

ابھی چند دن پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج نے فوج کے ایک ادارے کا نام لیا اور کہا کہ شہریوں کے اوپر تمام تر زیادتیوں میں جن میں کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے وہ ادارہ ملوث ہے-

کیا پاکستانی ریاست ابھی بھی ان گمشدگیوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں مسلسل اپنی مجبوریوں کا رونا روتی رہیگی، ایک ایسا ناقابل معافی اور بھیانک جرم جو شہریوں کے زندہ رہنے کے حقوق، آزادی کے حقوق اور دنیا کی نظر میں انسانیت کے احترام پر حملے سے کم نہ ہو؟

کے پی میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں عسکری شدت پسندوں کے ساتھ زیادتیوں کا عموماً جواز ڈھونڈ لیتی ہیں- مگر اس طرح کا کوئی جواز بلوچستان اور سندھ میں لوگوں کو مار کر انکے مردہ جسموں کو پھینکنے کے سلسلے میں کبھی نہیں دیا گیا- بلکہ ان لوگوں کو کبھی “غیر ملکی دشمن” بھی نہیں گردانا گیا-

بلوچستان اور سندھ یا کسی اور جگہ بھی ممکن ہے کہ یہ منحرف عوامل ایسے مطالبات پیش کرتے ہوں جو بااختیار اداروں کو پسند نہیں آتے ہوں- لیکن صرف مطالبات جو کسی عدالت کی نگاہ میں غیرقانونی نہیں پائے گئے ہوں، قانونی تحفظ کا حق اس فرد سے نہیں چھین سکتے-

وہ تمام گمشدہ افراد چاہے وہ ملک کے کسی حصے میں ہوں اور ان کے خاندان کے افراد، ہمارے اپنے لوگ ہیں ہمارا خون ہیں- وہ جن مصیبتوں سے گزر رہے ہیں وہ کسی بیرونی طاقت یا پاکستان کے دشمنوں کے ایجنٹ یا دہشت گردوں کے لئے کام کرنے والے غیر ریاستی عوامل کی وجہ سے نہیں ہے- ان کی مصیبتوں کی وجہ اکثر اوقات وہ سرکاری عہدیدار ہوتے ہیں جو اپنے اعمال کیلئے ریاست کو جوابدہ ہوتے ہیں- حکومت گمشدہ لوگوں کی بازیابی یا نئی گمشدگیوں کو روکنے میں ناکامی کا سبب موجودہ حالات میں خرابی کو قرار دے سکتی ہے-

ریاست کو کتنی مرتبہ یاددہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ غیر قانونی گمشدگیوں کا مسئلہ ایک بہت بڑے بم کے مشابہ ہے جو ریاست کی بڑی آسانی سے توڑی جانیوالی سیکیورٹی کے رحم و کرم پر ہے-

پاکستان ڈرون حملوں کے اثرات کو سہہ لیگا جس کے بارے میں وزیراعظم ساری دنیا کے آگے رونا روتے رہتے ہیں لیکن اپنے شہریوں کو برگشتہ کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا اس لئے کہ وہ اپنے تنخواہ دارملازموں پر قابو نہیں پاسکتا ہے-

ان گمشدگیوں کو روکنے کے طریقے کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ کہا جاچکا ہے- ان تمام کھوکھلی بیان بازیوں کو ایک طرف رکھ کے حکومت عوام کی بڑی خوشنودی حاصل کرسکتی ہے اگر وہ صرف یہ تین کام کرلے-

  1. سب سے پہلے، کوئی بھی شخص کسی کو بھی غیرقانونی طور پر گرفتارنہیں کرے گا یا غیر قانونی جگہ پراس کو قید نہیں رکھیگا -

  2. دوسرے یہ کہ، کسی بھی موت کو جو حوالات میں یا کسی عدالت میں پیش کئے جانے سے پہلے غیر قانونی حراست کے دوران ہوئی ہو، قطعی طور پر برداشت نہ کیا جائے-

  3. تیسری بات یہ کہ، بلوچستان میں حالات پرامن رکھنے کے نئے طریقے معلوم کئے جائیں نہ کہ ان کو فرنٹیرکور اور دوسری پیراملٹری فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے-

اور سب سے آخر میں، اقوام متحدہ کے گمشدگیوں کے کنونشن پر دستخط، جس کیلئے پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے-

ترجمہ: علی مظفر جعفری

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025