نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی میں مبینہ بدعنوانیوں کی رپورٹوں کو پڑھ کر حیران ہونا بیکار ہے- اگرچہ این اے سی ٹی اے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کا بااختیار ادارہ بننے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن یہ افسر شاہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور اسکی نظر حکومت کے دیگر شعبوں کے دائرہ اختیار پر ہے- یہ اپنے اصلی مقصد کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں پائی جانے والی سیاست اور بدعنوانیوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے-

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ این اے سی ٹی اے میں مبینہ بدعنوانیوں کی خبریں میڈیا پر آرہی ہیں- اس تنظیم سے وابستہ سینکڑوں افراد ماضی میں موبائیل فون پر انٹرنیٹ کے ذریعہ براؤزنگ کرتے پکڑے جاچکے ہیں-

ستم ظریفی یہ ہے کہ، یہ ادارہ اعداد و شمار اور معلومات اکٹھا کرنے نیز انٹیلیجنس کی رپورٹوں کو دیگر اداروں کے ساتھ مل بانٹنے میں سنجیدہ نہیں ہے جو اس کا اصل مقصد ہونا چاہئے؛ بلکہ حقیقت میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتا، گو کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کا خواہشمند ہے، جس کے بارے میں اس کا یہ خیال ہے کہ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں-

یہ صورت حال صرف این اے سی ٹی اے میں ہی نہیں بلکہ دیگر ریاستی ادارے بھی جو داخلی سلامتی کے لیئے ذمہ دار ہیں اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیئے مناسب حکمت عملی تیار کی جائےاور ان پر عمل درآمد کیا جائے-

ملک میں سلامتی کی صورت حال کو کسی طور پر بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے- نومبر میں پاکستان بھر میں دہشت گردوں نے مجموعی طور پر 115 حملے کیئے، جس میں 114 افراد ہلاک ہوئے (اگرچہ کہ پچھلے مہینے کے مقابلے میں 16 فی صد کمی ہوئی) اور 221 افراد زخمی ہوئے-

بحیثیت مجموعی، اس مہینہ میں پاکستان بھر میں مختلف قسم کے 189 تشدد کے واقعات ہوئے- اس میں دہشت گردوں کے حملے، نسلی-سیاسی جھگڑے، سیکیورٹی کے اداروں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں نیز عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ان کی کارروائیاں، عسکریت پسندوں کی اندرونی چپقلشیں اور قبائلی دشمنیاں بھی شامل ہیں- اس کے علاوہ سرحد پار کی جھڑپیں، جرائم پیشہ گینگ کے حملے اور ڈرون حملے بھی شامل ہیں جن میں 232 افراد لقمۂ اجل بنے اور 368 افراد زخمی ہوئے-

دی پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی ماہانہ رپورٹوں میں پاکستان میں عدم سلامتی اور تشدد کی یہی تصویر نظر آتی ہے-

طالبان کی طرف سے کی جانے والی تشدد کی کارروائیاں، اور اس پر حکومت کی جانب سے ناکافی ردعمل کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد حکومت کے لئے ایک چیلنج ہیں- ملک بھر میں محرم کے مہینہ میں عاشورہ کے جلوسوں پر حملوں میں اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کے نتیجے میں بہت سے لوگ ہلاک اور شدید طور پر زخمی ہوئے-

راولپنڈی کی صورت حال کہیں زیادہ بھیانک تھی اور اس خطرہ کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہجوم بھی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں شامل ہوسکتا ہے- تاہم، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ اس قسم کی نازک صورت حال سے نمٹنے کے اہل نہیں ہیں- حقیقت تو یہ ہے کہ سلامتی کو لاحق خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا کہ حکومت سمجھتی ہے جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے-

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے بلوچستان کی صورت حال بھی تشویش ناک ہوتی جارہی ہے حالانکہ اس وقت اس صوبے میں بلوچ نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت ہے- مبصرین باربار کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل قومی توجہ چاہتے ہیں اور ضروری ہے کہ فوج اور وفاق اس جانب توجہ دے، اور یہ ممکن نہیں کہ صوبائی حکومت کوئی معجزہ کر دکھائے-

درایں اثناء، تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر سیاسی پارٹیوں کے مبہم اور بے ربط ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سمیت سیاسی قیادت میں عزم کی کمی ہے اور وہ عسکریت پسندوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں سے لاحق خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتی-

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ، حکومت کے موقف کے برخلاف شدت پسندوں نے متعدد بار حکومت کے ساتھ مذاکرات کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے- خاص طور پر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد، ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات طالبان کو پھانسنے کا محض ایک بہانہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت مذاکرات سے پہلے ان کی تین شرائط پوری کرے؛ 1. ڈرون حملے بند کر دیئے جائیں، 2. قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلائی جائے اور تمام گرفتار جنگجو رہا کر دیئے جائیں- 3. اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت پسند واضح طور پر جانتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں لیکن حکومت اب تک گومگو کا شکار ہے کہ خطرات کا تدارک کس طرح کیا جائے-

اس حقیقت کے پیش نظر کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور وفاقی حکومت اب تک سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی پالیسی بنانے اور اس کا اعلان کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ان علاقوں کے لیئے اچھا شگون نہیں ہے جہاں دہشت گردی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے-

بجائے اس کے کہ داخلی سلامتی کے اقدامات کئے جائیں کے پی کی حکومت کی توجہ ڈرون حملوں اور امریکہ کے خلاف نعرہ بازی پر زیادہ ہے جس کے نتیجے میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بنانے میں مزید ابہام کا شکار ہیں-

اب بھی اس بات کے تھوڑے بہت امکانات ہیں کہ حکومت طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے پر کامیب ہو جائیگی لیکن ملک میں امن اور سلامتی قائم کرنے کے لئے حکومت کی پالیسی کے اس پہلو پر مکمل طور پر بھروسہ کرنا درمیانی اور طویل مدت کے لئے مناسب نہیں ہے-

عدم سلامتی اور تشدد کے موجودہ رجحان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کو ہلاک کرنے کی وارداتیں جاری رہینگی اور طالبان بھی آنے والے ہفتوں میں حملے کرتے رہینگے- بحیثیت مجموعی حکومت کی سلامتی کی پالیسی کراچی میں اس کی کارروائیوں پر بھی اثر انداز ہوگی جو فرقہ واریت اور جنگجویانہ تشدد کی سمت کا تعین کرے گی-

پاکستان بھر میں سلامتی کے تعلق سے صورت حال اچھی نہیں ہے، سوائے پنجاب کہ جہاں نومبر کے مہینے میں ہلکی نوعیت کی پانچ وارداتیں ہوئیں- پنجاب میں اس صورت حال کو معمول کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پنجاب بھر میں سیکیورٹی کے تعلق سے اعلیٰ انتظامات کیئے گئے ہیں- اس کے باوجود لوگوں میں عدم سلامتی کے احساس کو کم کرنے میں مدد نہیں ملی ہے-

گزشتہ چند ہفتوں میں ملک میں دہشت گردی کے خطرناک واقعات پیش نہیں آئے- اگر حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھ کر اطمینان کا سانس لیتی ہے اور سلامتی کی پالیسی تشکیل نہیں دیتی تو وہ غلطی پر ہے --- جو اس سے پہلے کی حکومتیں بھی کر چکی ہیں- حملوں کی تعداد میں کمی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سلامتی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے-

ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حملوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے سیکیورٹی کے ذمہ دار افسران مطمئن ہوگئے اور عوام اور میڈیا میں سلامتی اور انتہاپسندی سے توجہ ہٹ گئی- ان اداروں نے، جن کا کام دہشت گردی کو ختم کرنا ہے اور اس میں این اے سی ٹی اے بھی شامل ہے، اپنی توجہ کم کردی-

اس کا براہ راست تعلق دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والی تنظیموں اور سیاسی قیادت کے ادراک سے ہے اور دونوں ہی فریقین کو چاہیئے کہ اپنی نظریں وسیع تر کرئیں تاکہ وہ صورت حال کو مکمل طور پر سمجھ سکیں- اگر آنے والے دنوں میں حملوں میں اضافہ ہوتا ہے تو قیادت اپنی غفلت کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکے گی- اسے سابقہ حکومت کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا-


انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں