تیسرا دن

07:35pm اختتامی تقریب
پانچواں کراچی لٹریچر فیسٹیول تین دنوں تک مختلف تقاریب اور بحث و مباحثوں کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔
کے ایل ایف کی ڈائریکٹر عامنہ سید نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل تمام کرسیاں اور ٹینٹ ہٹادیے جائیں گے تاہم یہاں ہونے والی بات چیت سے نئی خیالات جنم لیں گے۔
لٹریچر اور معاشرے کے درمیان قریبی تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سید کا کہنا تھا 'خیالات اہم ہیں، کتابیں اہم ہیں اور سب سے بڑھ کر پڑھنے والے اہم ہیں۔'
اعداد و شمار کے رواں سال کے ایل ایف میں 70 ہزار افراد نے شرکت کی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 ہزار زیادہ افراد ہیں۔
کتابوں کے ترجمہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مصنف کاملہ شمسی نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ میری کتابیں انگلینڈ میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں لیکن اگر میں وہاں 10 ہزار کتابیں فروخت کروں تو کوئی 10 افراد اس بارے میں بات کرنے کے لیے آتے ہیں لیکن اگر یہاں میری 10 کتابیں بھی فروخت ہوں تو 12 افراد مجھ سے اس بارے میں بات کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
اس موقع پر ایک اور اسپیکر رضا علی عابدی نے سید اور کو ڈائریکٹر کے ایل ایف آصف فرخی کا شکریہ ادا کیا۔
'جو بات دل کو چھو لینے والی تھی وہ یہ کہ ایک بڑی تعداد میں چھوٹے بچوں نے بھی فیسٹیول میں شرکت کی اور لطف اندوز ہوئے۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ہم یہاں ہوں نہ ہوں لیکن یہ فیسٹیول جاری رہے گا—ماہ نور شیرازی۔
07:20pm اختتامی تقریب

"Let us not try and change other let's take the first step and be the change we want to be" Aman Aziz Siddiqui, #HBL head of strategy #KLF
— AR Rafiq (@arrafiq) February 9, 2014
06:10pm
06:07pm تقریب رونمائی: انتخاب کلام: پروین شاکر
کراچی لٹریچر فیسٹول کے تیسرے روز معروف خاتون شاعرہ پروین شاکر کے کلام کے انتخاب پر ایک مختصر کتاب کی تقریبِ رونمائی ہوئی جس کی ماڈریٹر شاہدہ حسن تھیں اور امجد اسلام امجد موجود تھے۔
شاہدہ حسن نے کہا کہ پروین شاکر کی شاعری بنیادی طور پر رومان اور محبت کی شاعری ہے لیکن اس میں ایک خاتون کے لطیف احساسات اور جذبات ملتےہیں۔
جناب امجد اسلام امجد نے کہا کہ بہت کم عمری سے ہی پروین شاکر کو جاننے اور علم سیکھنے کا جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔
امجد اسلام امجد نے کہا کہ فن اور ہنر یعنی آرٹ اور کرافٹ دونوں پر ہی پروین شاکر کو مہارت حاصل تھی اور انہوں نے کہا کہ عظیم شعرا کے کلام کے انتخاب میں بہت مشکل پیش آتی ہے کہ کس
اس کی تائید کرتے ہوئے شاہدہ حسن نے کہا کہ پروین شاکر کا کمرہ کتابوں سے گھرا ہوتا تھا اور ایک تختے پر ان کی وہ کتابیں دھری رہتی تھیں جو ان کے زیرِ مطالعہ تھیں۔
شاہدہ حسن اور امجد اسلام امجد نے پروین شاکر کے انتخابِ کلام سے چند غزلیں اور اشعار بھی پیش کئے۔
شاہدہ حسن نے کہا کہ پروین کے فن کا ارتقا بتدریج ہوا ہے اور ' خوشبو' ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جس میں محبت کا عنصر غالب ہے جبکہ اگلے مجموعوں میں انہوں نے سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی شاعری کی اور وہ عورت کو مضبوط دیکھنے کی خواہاں تھیں۔
امجد اسلام امجد نے کہا کہ پروین شاکر نے مشکل ترین موضوعات پر بھی بہت آسان انداز میں شاعری کی ہے اور ان کے کلام کی تاثیر اس سے متاثر نہیں ہوتی۔
پروین شاکر پاک و ہند کی معروف شاعرہ تھیں جو 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں کار کے حادثے میں فوت ہوگئی تھیں—سہیل یوسف۔

6:02pm شرمین عبید چنوئے کی نئی فلموں کی اسکریننگز: حمیرا: دی ڈریم کیچر اور ہو یقین: سیدہ فاطمہ۔
میں ایک ایسی دنیا، ایسا پاکستان چاہتی ہوں جہاں میری بیٹی کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہوں—شرمین عبید چنوئے۔
6:00pm شرمین عبید چنوئے کی نئی فلموں کی اسکریننگز: حمیرا: دی ڈریم کیچر اور ہو یقین: سیدہ فاطمہ۔
پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ خواتین ہے—شرمین عبید چنوئے۔
5:59pm شرمین عبید چنوئے کی نئی فلموں کی اسکریننگز: حمیرا: دی ڈریم کیچر اور ہو یقین: سیدہ فاطمہ۔
5:55pm تغیر تاریخ
تاریخ کو سمجھنے سے ہمیں زندگی کے دیگر شعبوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کیوں کہ یہ لگاتار بدلتی رہتی ہے۔ اس سے ہمیں قبول کرنے، مزاحمت نہ کرنے اور آگے بڑھتے رہنے کا سبق ملتا ہے—سارہ انصاری۔
5:52pm تغیر تاریخ
تاریخ کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں اپنے معاشرے کو تبدیل کرنے میں مدد ملتی ہے کیوں کہ تاریخ کے بارے میں ایک چیز کبھی نہیں بدلتی کہ یہ لگاتار جاری رہتی ہے—مبارک علی۔
5:52pm تغیر تاریخ
05.49pm امر جلیل کے ساتھ گفتگو
05.40pm
05.33pm پروین شاکر کی کتاب انتخابِ کلام کی تقریب رونمائی
پروین شاکر ہمیشہ سیکھنے کی کوشش میں رہتی تھیں۔ امجد اسلام امجد
05.18pm یروشلم: اے جرنی بیک ان ٹائم۔ افتخار صلاح الدین کی گفتگو۔
Muhammad Haneef: So a fiction writer is just like Nawaz Shareef. Promising something which isn't true #klf #KhiLF #klf2014
— Ali Hassan (@enspec) February 9, 2014
Books. Book launches. INTERACTION WITH THE WRITERS. Witty Conversations. Food. You are missing something if you haven't visited it yet. #klf
— Miss Ridx (@MissRidx) February 9, 2014
04.53pm واپسی کا سفر: عبداللہ حسین کے ساتھ ایک نشست اور اداس نسلوں کا جوبلی ایڈیشن
ناول نگار اور مختصر کہانی نویس عبداللہ حسین کہتے ہیں کہ ان کا پہلا ناول 'اداس نسلیں' بنیادی طور پر ایک مختصر لو سٹوری تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑے ناول کی شکل اختیار کر گئی۔
حسین نے اعتراف کیا کہ وہ حادثاتی طور پر ناول نگار بنے کیونکہ میانوالی کے قریب داؤد خیل میں واقع ایک سیمنٹ فیکڑی میں دوران ملازمت انہیں اس کام کے لیے بے پناہ وقت مل جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ لندن میں تھے تو ان کی ایک مختصر کہانی 'واپسی کا سفر' پر فلم 'براتھرز ان ٹربل' بھی بنائی گئی۔
اس کہانی میں حسین نے برطانیہ آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کے مصائب کو موضوع بنایا تھا۔
اپنے مقبول ناولوں میں سے ایک 'اداس نسلیں' پر گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ' اس کہانی کے پلاٹ کے لیے انہوں نے عینی شاہدین کے مشاہدات سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی'۔
حتی کہ وہ اس حد تک چلے گئے کہ پہلی جنگ عظیم میں لڑنے اور خدمات کے نتیجے میں انگلینڈ سے وکٹوریہ کراس پانے والے ایک پاکستانی سپاہی سے بھی ملاقات کر ڈالی۔
سیشن کے ماڈریٹر احمد شاہ نے بتایا کہ 'اداس نسلیں' ترکی، امریکا اور ناروے کی کچھ یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا جا رہا ہے۔ — تحریر سہیل یوسف
04.52pm محمد حنیف کے ساتھ بات چیت

Glad to see Sir Zia Mohyeddin with same charm and provoking personality at #KLF http://t.co/wSK48gDfqj via @Dawn_News
— Umar Khan (@MUmar_Khan) February 9, 2014
04.45pm صوفیت پر گفتگو
صوفیت میں موت محبوب الہٰی سے ملاپ کا سبب ہے۔ اسی وجہ سے تمام اولیاء اکرام کی برسی کو عرس قرار دیا جاتا ہے، جس کے لغوی معنی شادی کے ہیں۔ ان صوفیاء اکرام کی پیدائش پر وہ خوشی نہیں منائی جاتی جس شدت سے ان کی اگلے جہاں رخصت پر منائی جاتی ہے۔ ثروت محی الدین
04.37pm کیا پاک - امریکا تعلقات چل پائیں گے؟
رواں سال کے آخر تک افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے پیش نظر پاک -امریکا تعلقات پر بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔
کے ایل ایف کی منتظمین نے آخری لمحات میں اعلان کیا کہ پاکستان کے لیے امریکی سفیر رچرڈ اولسن 'کیا پاک - امریکا تعلقات چل پائیں گے؟' نامی سیشن میں شریک ہوں گے۔
اس سیشن کے ماڈریٹر آئی بی اے کے ڈین اور ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین تھے۔
عشرت نے اولسن سے دریافت کیا کہ افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد امریکا کے سٹریٹجک مفادات میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟
اس پر اولسن نے واضح کیا کہ وہ آج کی صورتحال کا موازنہ 1989 میں افغانستان پر سویت قبضہ سے نہیں کریں گے۔ 'ہم 2014 میں 1989 کی غلطیاں نہیں دہرانا چاہتے'۔
اولسن کے مطابق، امریکا نے ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط افغان فوج تیار کی ہے۔ امریکی سفیر کا دعوی تھا کہ موجودہ افغان فوج ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط فوج ہے۔
'امریکا نے 1989 کے واقعات سے بہت سبق سیکھے اور ہم مستقبل میں پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے ہیں'۔
دہشت گردی پر گفتگو کے بعد عشرت نے معیشت کا موضوع چنا اور اولسن نے پوچھا کہ امریکا امداد کے بجائے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت پر توجہ کیوں نہیں دے رہا؟
اس پر اولسن نے بتایا کہ 2050 تک پاکستان آبادی کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور ایسے میں امریکا یہاں معاشی استحکام اور سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اولسن نے بتایا کہ امریکا اس وقت پاکستان کے شعبہ توانائی پر کام کر رہا ہے۔
' امریکا نے گزشتہ کچھ سالوں میں تین آبی اور دو تھرمل پاور پلاٹنس کی مدد سے پاکستان کے گرڈ میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ کیا ہے'۔
توانائی کے شعبے اور ترقیاتی منصوبوں میں بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
اس حوالے سے ہیوسٹن میں دونوں ملکوں کے وزراء برائے توانائی اور ماہرین کے درمیان ملاقات بھی متوقع ہے۔
پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک زیادہ رسائی کے حوالے سے اولسن کا کہنا تھا: ہمیں اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ — تحریر ماہ نور شیرازی
04.33pm شطرنج کی بازی: زنبیل کی پیشکش

@hyzaidi @mohammedhanif I think Hanif is very disco. And I say that as an avid disco fan rooted in the 70s :)
— Fifi Haroon (@fifiharoon) February 9, 2014
04.04pm پاک - امریکا تعلقات: کیا چل پائیں گے؟
ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انڈیا کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے اور یہی معاملہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ رچرڈ اولسن
03.55pm پاک - امریکا تعلقات: کیا چل پائیں گے؟
امریکا پاکستان سمیت تمام ملکوں کی علاقائی حدود اور ان کے بااختیار ہونے کا احترام کرتا ہے۔ - رچرڈ اولسن
03.55pm پاک - امریکا تعلقات: کیا چل پائیں گے؟

03.40pm منتخب کلاسک تحریریں اور ضیاء محی الدین
03.35pm ناہید صدیقی سے گفتگو

03.32pm

Somebody just asked Richard Olson what the US reaction would be, if the Pakistan government gives in to TTP's demand for Shariah. Umm. #KLF
— S (@sukaina_ali) February 9, 2014
03.15pm واپسی کا سفر: عبداللہ حسین کے ساتھ ایک نشست اور اداس نسلوں کا جوبلی ایڈیشن

03.12pm دھوپ کرن: امداد حسینی کے ساتھ ایک نشست
فہمیدہ ریاض نے اس سیشن میں امداد حسینی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی شاعری میں بھر پور اصلیت پاتی ہیں کیونکہ ان کی نظموں میں ایک روانی ہے اور ان نظموں کے آخری شعر تو قائرین کے دلوں کو چھول لیتے ہیں۔
'حسینی کی اردو شاعری ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہے'۔
فہمیدہ ریاض کا مزید کہنا تھا کہ محبت اردو شاعری کا ایک مضبوط اور اہم جزو ہے جسے آج کل کی شاعری میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امدام حسینی نے اسی روایت کو اپنی تحریروں میں جلا بخشی ہے۔ حسینی کی جانب سے فیض کی شاعری کے سندھی ترجمہ پر گفتگو کرتے ہوئے فہمیدہ نے کہا کہ یہ محض ترجمہ نہیں بلکہ اصل سندھی شاعری معلوم ہوتی ہے۔
'حسینی نے دراصل فیض کے کام کو از سر نو تخلیق کرتے ہوئے اسے سندھی انداز میں بیان کیا ہے'۔
فہمیدہ نے حسینی کو مخاطب کرتے ہوئے کہ ان کی اردو کتاب 'دھوپ کنارے' کو ہندی سکرپٹ میں بھی شائع کیا جانا چاہیے تاکہ برصغیر کے دوسرے حصے بھی اس سے فیضیاب ہو سکیں۔
نشست میں امداد حسینی نے اپنی ایک اردو کتاب اور فیض احمد فیض کے سندھی ترجمہ پر مشتمل نظمیں بھی پڑھیں۔ — تحریر سہیل یوسف
03.10pm فائر ورکس ان اے ونڈو پین: تنویر انجم کے ساتھ ایک بیٹھک
میرے خیال میں وہ شاعر ہی نہیں جو محروم لوگوں کے خیالات اور ان کے مصائب کو بیان اور ان پر اپنی رائے نہ دے سکے۔ تنویر انجم
02.50pm فکشن اور نان فکشن کے درمیان موجود معمولی فرق

02.10pm فائر ورکس ان اے ونڈو پین: تنویر انجم کے ساتھ ایک بیٹھک
شاعری کو ہمیشہ ہی خیالی دنیا میں رہنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور ہم بھی اس دنیا میں داخل ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں۔۔۔ تنویر انجم
02.05pm فکشن اور نان فکشن کے درمیان موجود معمولی فرق
بطور ناول نگار، مجھ میں تخیل کی کمی ہے۔ میں ادھر ادھر سے باتیں سن کر کوئی کہانی نہیں لکھ سکتا۔ میرا انحصار ٹھوس معلومات اور شواہد پر ہوتا ہے۔ ایچ۔ ایم۔ نقوی
02.00pm فکشن اور نان فکشن کے درمیان موجود معمولی فرق
سچائی کے برعکس، فکشن کو ممکنات سے ڈیل کرنا ہوتا ہے ۔ راب کریلی
01.34pm
01.30pm ڈرامہ اور ٹی وی
صبح کا آخری سیشن 'ڈرامہ اور ٹی وی' کے ماڈریٹر ڈائریکٹر، اداکار، ڈرامہ نگار اور پارٹ ٹائم لیکچرر سرمد کھوسٹ جبکہ پینل میں حسینہ معین، عطیہ داؤد، شکیل، سیما طاہر خان اور سلطانہ صدیقی شامل تھیں۔
پینل کے تفصیلی تعارف کے بعد ماڈریٹر نے سیشن کی توجہ اس جانب دلائی کہ مستقبل میں پاکستانی ڈرامے کو بہتر بنانے کے لیئے کیا اقدامات کیئے جا سکتے ہیں۔
گفتگو کا آغاز نامور مصنفہ اور ڈرامہ نگار حسینہ معین سے ہوا۔
انہوں نے ایک اچھا ڈرامہ لکھنے اور اس کے بہتر اختتام کی کمی کے حوالے سے معقول تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈراموں میں اچھے اختتام نہ ہونے کی وجہ ہندوستانی یا ترکی ڈرامے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ڈراموں کا زوال شروع ہو گیا ہے۔
حسینہ معین نے اپنی گفتگو میں پاکستانی معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو متاثر کرنے والے مختلف عناصر کی بھی نشان دہی کی۔
کراچی کی نمایاں میڈیا شخصیت سیما طاہر خان نے بتایا کہ ان کا ٹی وی چینل شروع کرنے کا مقصد ٹی وی ڈرامہ بالخصوص خواتین کے ذریعے معاشرے کو بااختیار بنانا تھا۔
اسی طرح ، ایک اور مشہور میڈیا شخصیت سلطانہ صدیقی نے بتایا کہ انہوں نے بھی اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹی وی چینل 'ہم' شروع کیا تھا۔
شوبز صنعت کے سینیئر اور مشہور اداکار شکیل نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے دلیل دی کہ پاکستانی ڈرامہ بالخصوص پی ٹی وی کس طرح آج بھی دوسرے ملکوں میں آباد ہمارے لوگوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کئی سالوں کے دوران پاکستانی ڈرامہ کی ترقی پر بھی بات چیت کی۔
سکرپٹ ایڈیٹر، رضا کار، سکرین رائیٹر، مصنفہ اور شاعر عطیہ داؤد نے پاکستانی ڈرامہ کے اندر توہین آمیز اور معمولی انداز میں ریپ واقعات کی منظر کشی پر گفتگو کی۔
انہوں نے آج کے ڈراموں میں بعض قانونی مسائل پر علماء سے رہنمائی دکھانے پر بھی تنقید کی۔
سیشن کے اختتام پر جاندار سوال و جواب کا سلسلہ ہوا، جس کے بعد فیسٹیول کے آخری دن صبح کے سیشنز بھی اپنے انجام کو پہنچے
01.24pm بزبانِ قاسمی: عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ایک نشست
میری گلی میں تین کتے ہیں، جن سے میں ڈرتا ہوں۔ ایک پروفیسر کا، ایک شاعر کا اور ایک صحافی کا ۔ عطاء الحق قاسمی اپنی کہانی 'کتے' سے اقتباس پڑھتے ہوئے
01.19pm بزبانِ قاسمی: عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ایک نشست


01.07pm مہاتما کی میراث

12.55pm ڈرامہ اور ٹی وی
عورت کا ایک ایک آنسو ہماری ریٹنگ بڑھاتا ہے۔ حسینہ معین کو کسی نے بتایا
Rajmohan Gandhi about to go on stage to talk about the Mahatma's legacy, with Sarah Ansari #KLF2014 #KLF packed
— Ehsan Masood (@EhsanMasood) February 9, 2014
12.50pm

12.46pm بلوچ ادب اور قدرتی مناظر
12.37pm برنگنگ ڈاؤن دی جینڈر والز
عورت ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میرے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک جرم بن جائے - مندیرہ سین
12.37pm برنگنگ ڈاؤن دی جینڈر والز
پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بچوں اور بچیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پرائمری تعلیم دی جاتی ہے اور اس وجہ سے تعلیمی اخراجات دگنے ہو جاتے ہیں۔ اسد سعید
12.25pm برنگنگ ڈاؤن دی جینڈر والز
فیسٹیول کے آخری دن صبح کے سیشنز میں سے ایک ' برنگنگ ڈاؤن دی گینڈر وال' بھی تھا۔
اس سیشن کے پینل میں مندیرہ سین، ڈاکٹر آمینہ یقین، زویا حسن اور ڈاکٹر اسد سعید جبکہ لال بینڈ کے تیمور رحمان ماڈریٹر تھے۔
شرکاء کے مختصر تعارف کے بعد، کولکتہ سے تعلق رکھنے والی پبلیشر اور خواتین کے مسائل پر کام کرنے والی مندیرہ سین کو مائک دیا گیا۔
انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز برصغیر ہندوستان میں خواتین لکھاریوں کی مختصر تاریخ سے کیا، جو حاضرین کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزاء اور معلوماتی تھا۔
اس کے بعد لندن سے آئیں سکالر اور تعلیم دان ڈاکٹر آمینہ یقین نے گفتگو کی اور بتایا کہ کس طرح امریکا میں پیش ہونے والی اسلامی گڑیا باربی ان کی زندگی پر اثر انداز ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ہلال کھانوں کی طرح اسلامی باربی اور دوسرے اسلامی ملکوں سے درآمد شدہ گڑیوں نے امریکا میں دوسرے ملکوں سے آباد ہونے والوں میں مقبولیت حاصل کی۔
آمینہ یقین کے مطابق، ان گڑیوں کو درآمد کرنے کا مقصد مقامی مارکیٹ میں مشہور باربی اور کن گڑیوں کو مقابلہ دینا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے برطانوی ثقافت میں مسلمانوں کی نمائندگی کو اپنی بحث کا موضوع بنایا، جس میں انہوں نے خاص طور پر برطانوی ثقافت میں مسلمان خواتین کی روائتی خدو خال پر بات کی۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پولیٹکل سائنس دان اور مشہور دانشور زویا حسن نے انڈیا میں مسلمان خواتین پر گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ انڈیا میں مسلمان خواتین اہم سماجی و معاشی حقوق سے محروم ہیں۔
زویا کے مطابق، برصغیر کی تقسیم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ رویے کی پالیسی پر اثر انداز ہوئی۔
ماڈریٹر کے ایک سوال پر ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اسد سعید نے جواب دیا کہ گو خواتین بڑی تعداد میں معاشرے کی مرکزی دھارا میں شامل ہوئی ہیں لیکن اب بھی انہیں ان کی محنت کا صلہ نہیں مل رہا۔
انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کی لیبر فورس میں خواتین کی نمائندگی اور شراکت داری کم ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کی لیبر فورس میں شامل خواتین کی تعداد بلاخر ضرور بڑھے گی۔
یہ سیشن بھی کم وقت ہونے کی وجہ سے مختصر کرنا پڑا ۔ — تحریر سونہے ابڑو
12.20pm دھوپ کرن: امداد حسینی کے ساتھ ایک نشست
امداد حسینی نے فیض کا بہت خوبصورتی سے سندھی ترجمہ کیا اور اسے بالکل اصل شاعری جیسا بنا کر پیش کیا ۔ فہمیدہ ریاض
12.15pm تاریخ سازی
اس سیشن میں دانشوروں کا کہنا تھا کہ تاریخ لکھنے کی ذمہ داری پروفیشنلز اور غیر جانبدار مورخوں کی ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
جامعیہ ملیہ دہلی کے سابق وائس چانسلر اور ہندوستانی مورخ مشیر الحسن کا کہنا تھا ' ہمیں کم از کم تاریخ کے دقیانوسی تصورات کو محدود کر دینا چاہیے'۔
حمیدہ کھوڑو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکسٹ کتابیں لکھتے ہوئے اعتدال پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔
انہوں نے صوبوں کی جانب سے ٹیکسٹ کتابوں کے خراب معیار پر اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا۔
تعلیم دان، عصمت ریاض کا کہنا تھا کہ تاریخ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آدمی خود کو پہچان سکے۔
مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے کہا کہ تاریخ پر ان کی لکھی ہوئی بہت سی کتابوں پر ملتان یونیورسٹی، قائد اعظم لائبریری اور کئی دوسرے تعلیمی اداروں میں پابندی عائد ہے۔
'اس پابندی کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے نوجوان میری کتابیں پڑھتے اور سراہتے ہیں'۔— تحریر سہیل یوسف
Muslim and Muslim women lag behind in 3 areas in #india: education, employment and access 2 social welfare #GenderWalls #klf #KhiLF #klf2014
— Ali Hassan (@enspec) February 9, 2014
Nauman Naqvi, the moderator of session with #AshisNandy seems like one of the finest, I have seen through the #KLF session in these years
— Ali Arqam (@aliarqam) February 9, 2014
3rd day of #KLF started with an excellent & thoughtful session on #Karachi with an illustrious panel #Karachi
— Ali Arqam (@aliarqam) February 9, 2014
11.58am برنگنگ ڈاؤن دی جینڈر والز
11.55am دھوپ کرن: امداد حسینی کے ساتھ ایک نشست


11.30am کراچی: پتھر کے زمانے سے سائبر دور تک

11.14am بلوچ ادب اور قدرتی مناظر
فیسٹیول کے تیسرے اور آخری دن کا آغاز 'بلوچ ادب اور قدرتی مناظر' نامی سیشن سے ہوا۔ سیشن کے شرکاء میں ایوب بلوچ، طارق لونی اور زبیدہ جلال شامل تھے
سیشن کی ماڈریٹر بیلا رضا جمیل تھیں جو پبلک پالیسی میں کام کرنے کے علاوہ بلوچوں کے ساتھ مل کر بچوں کے ادبی فیسٹیول کے انعقاد میں ہمیشہ پیش پیش رہیں۔
بیلا نے آغاز میں بلوچستان کی ثقافت اور تاریخ کو انتہائی متاثر کن انداز میں پیش کیا، جس کے بعد پینل میں شامل مہمانوں کا مختصر تعارف اور آخر میں سیمینار کے فارمیٹ کے بارے میں بتایا گیا۔
ایوب بلوچ نے سیشن کے عنوان کی مناسبت سے اپنے خطاب کا آغاز ایک نظم سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ادبی حوالے سے بلوچستان مالا مال ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو نظر انداز کیا جانا بڑی بھول ہے۔
بلوچی ادب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ صوبہ کا ادب چار مختلف نظریہ خیالات پر مشتمل ہے۔
صوبے کی تاریخ میں خانہ بدوشوں اور شکار کرنے والے معاشروں نے بلوچی ادب کو بالخصوص زبانی کہانی سنانے سمیت بہت سی روایات بخشیں۔
انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ بلوچستان کی تاریخ اور ادب میں سبی شہر کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
ایوب بلوچ کا کہنا تھا کہ مہر گڑھ کا آثار قدیمہ یہاں بسنے والی ہر نسل کے لوگوں کا حق ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام بلوچی میں ایک گانا بجانے کے ساتھ کیا۔
سبی میں پیدا اور بڑے ہونے والے طارق لونی نے اپنے خطاب کا آغاز میں بتایا کہ کس طرح قدرتی مناظر، ادب، شاعری، موسیقی، اس کے سر اور تال ان کی ذندگی کا لازمی جزو ہیں۔
لونی نے بتایا کہ ان کی بلوچی شناخت بطور مجسمہ ساز ان کے فن پر اثر انداز ہوئی۔ اس موقع پر سلائیڈ شو کے ذریعے ان کا آرٹ ورک بھی دیکھایا گیا۔
ان کے کچھ مجسموں میں چائلڈ لیبر، لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقعوں میں کمی جیسے کئی سماجی مسائل کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
سیشن کے اختتام پر زبیدہ جلال نے بتایا کہ کس طرح اپنی والدہ کی وجہ سے ثقاقت ان کے اندر رچی بسی۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے قدیم خانہ بدوشی کے طور طریقے آج بھی رائج ہیں کیونکہ آج بھی لوگ سخت سردیوں اور گرمیوں سے بچنے کے لیے صوبے کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔
وقت کی قلت کی وجہ سے سوالات و جوابات کا سلسلہ مختصر کرتے ہوئے سیشن کو جلد ختم کر دیا گیا۔ — تحریر سونہے ابڑو
11.05am رٹرز تھیٹر کا پتلی تماشہ

Balochistan artifact and sculptures discussed. Awesome artwork @ #KLF
— Imran Baloch (@ImranBaloch123) February 9, 2014
10.53am تاریخ سازی

Today at 5 pm at #klf come watch 2 short documentaries I recently directed & meet a phenomenal surprise guest! #karachi #pakistan
— Sharmeen Obaid (@sharmeenochinoy) February 9, 2014
10.30am ریٹز تھیٹر کا پتلی تماشہ

10.15am
صبح بخیر۔ امید ہے کہ آپ کا دن اچھا گزر رہا ہو گا۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا تیسرا اور آخری دن شروع ہو چکا۔ مختلف ہالز میں سیشن جاری ہیں جبکہ پارکنگ ایریا میں جاری پتلی تماشہ میں بچوں کا بہت شور و غوغا ہے۔











لائیو ٹی وی