مجھے بڑی کوفت ہورہی تھی، چھ مہینے میں یہ پہلا دن نہیں تھا جب مجھے اداریہ لکھتے ہوئے جھنجھلاہٹ ہورہی تھی، پہلے بھی اکثر ایسا ہوتا رہا ہے۔ کون لوگ اس تیز رفتار زندگی میں اپنا وقت اداریہ پڑھتے ہوئے ضائع ہونے دیں، ہم ایسے خبری دور میں جی رہے ہیں جہاں باخبر ذرائع سے درآمد و برآمد ہونے والی پیش بین خبریں رائے عامہ کا تعین کرتی ہیں۔ درحالیکہ اداریہ اخبارات کے گُم گشتہ وقت کی ایک یادگار رسم بن کر رہ گیا ہے۔ روشنیوں کے اس شہر میں جرائم و سنسنی خیز خبروں کی مارکیٹ خوب چلتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ہر کس و ناکس وقت پر کام آنے والے کرائم رپورٹر سے بنا کر رکھتے ہیں۔

نویں منزل کی راہداری میں ٹہلتے ٹہلتے اب بیزاری ہونے لگی تھی۔ سگریٹ کے کش لینے سیدھے ہاتھ کی جانب کھڑکی پر جا کھڑا ہوتا، جہاں میکلوڈ روڈ پر گاڑیاں چھٹی والا دن ہونے کے سبب زناٹے سے گزر رہی تھی۔ روز ہاتھ کے اشاروں سے گاڑیوں کو رکنے یا چلنے کا اشارہ دینے والا ٹریفک پولیس کا اہلکار بھی آج اپنے موبائل کیبن سمیت غائب تھا۔

بائیں جانب کی کھڑکی سے دیکھتا، تو سٹی ریلوے اسٹیشن سے نوآبادیاتی زمانے کی کھینچی گئی ایک سڑک گزرہی تھی جو جونا مارکیٹ سے گزرتی ہوئی لیاری سے جا ملتی ہے اور میوہ شاہ قبرستان پر بند گلی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

یہی وہ دن تھا جب میں نے سوچنا شروع کردیا کہ لیاری کا جسم کیسے جرائم کا منبع بن گیا؟

"جب شام کے سائے پھیلنا شروع ہوں تو لیاری کا رخ مت کرنا، یہ ایک اداس کردینے والا مقام ہے۔ دکانوں، ہوٹلوں پر روشنیاں کچھ زیادہ نہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کی طبیعت پر اچھا اثر نہ پڑے۔" ایک دوست نے برسوں پہلے بتایا تھا

بلبلِ ہزار داستان ۔۔۔۔ لیاری کی طرف جا نکلنے سے پہلے آپ کا استقبال کرتا ہے۔ یہ عہدِ رفتہ کی ایک یادگار ہے۔ اپنے عروج کے دنوں میں برطانوی سپاہیوں نے چارلس نیپئر کی قیادت میں سندھ فتح کیا تو وہ دو کام کرنا نہ بھولے۔ سٹی ریلوے اسٹیشن سے لیاری جانے والی سڑک کو سر چارلس نیپئر کے نام سے منسوب کردیا اور اس سڑک کے کنارے نیپئر پولیس اسٹیشن بھی قائم کردیا۔

بلبلِ ہزار داستان کی کہانی کے رنگ بھی ہزار ہیں۔

"ڈینسو ہال کے پاس داہنے اور بائیں سڑکیں نکلتی تھیں۔ بائیں ہاتھ والی سڑک 'نئی چالی' محلے سے (جہاں 'الوحید' اخبار کا دفتر تھا) گزر کر میکلوڈ روڈ پر پہنچتی تھی۔ داہنے ہاتھ دو سڑکیں تھیں، ایک میریٹ روڈ جس پر کاروبار کی کھولیاں اور دکانیں تھیں، اور دوسری نیپئر روڈ جس کے شروع میں میمن بیوپاریوں کے دفتر تھے (سر حاجی عبداللہ ہارون کا دفتر اور بعد میں صوبائی مسلم لیگ کا دفتر اسی سڑک پر تھا)، اور اس سے آگے چکلا تھا۔ چکلے کے علاقے میں کسبیاں اور گانے والیاں تو رہتی تھیں مگر جن لوگوں کا ان پیشوں سے تعلق نہ تھا اور بڑے درجے کے صاحب تھے وہ بھی یہاں مکان بنا کر رہتے تھے۔" (پیر علی محمد راشدی، 'وہ دن وہ لوگ'، اردو ترجمہ، اجمل کمال، کراچی کی کہانی، جلد اول ص 107)

بلوچی کے مقبول عام مزاح نگار بیگ محمد بیگُل نے اپنی کتاب 'جوکر' میں نیپئر روڈ کا دلچسپ نقشہ کھینچا ہے؛

"ہمارے محلے میں ایک شخص رہتا تھا جن کا نام حسین گوادر میل تھا۔ بیسویں صدی کی چوتھی، پانچویں دہائیوں میں اس کی گھوڑے گاڑی کراچی میں بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔ ایک تو یہ کہ اس کی گاڑی ہر وقت نئی نویلی اور صاف ستھری رہتی، دوسری یہ کہ اس کی گاڑی میں ہمیشہ سفید عربی گھوڑا بندھا رہتا جو بلاتکان چلتا تھا۔ کالا ناگ، دادُل، شیرک کی طرح حسین گوادر میل بھی نپروٹ (نیپئر روڈ) کا غنڈہ تھا، اسی لئے علاقے کے ہر کونے کھدرے سے واقف تھا.

حسین گوادر میل نے نیپئر روڈ کی درجہ بندی اس طرح کی تھی۔ کمار سینما سے لیکر نگار سینما کا علاقہ اے کلاس، کیونکہ یہاں کی رقاصائین اپنی مثال آپ تھیں اور ان کے قدر دان شہر کے بڑے روساء تھے۔

بی کلاس کا علاقہ صوفی ہوٹل سے لیکر سُپر سینما یعنی نپروٹ کا جنوب کا علاقہ تھا اور یہاں آنیوالے درمیانی طبقے کے سفید پوش ہوا کرتے تھے البتہ اس کے بغل میں ایک گلی جس کا نام امام باڑا والی گلی تھا، یہاں خدا کی تخلیق کردہ تیسری جنس کے لوگ آباد تھے۔ تیسری کلاس یعنی سی کلاس کا علاقہ نپروٹ کے آغاز اور صوفی ہوٹل سے لیکر اسلام ہوٹل تک پھیلا ہوا تھا، جس کا نام ٹھوکر گلی تھا۔"

"ایسے میں صبح گیارہ سے لیکر رات بارہ بجے تک کراچی کے ہر کونے سے قسم قسم کے لوگ نپروٹ آتے اور سر چارلس نیپئر کو خراج تحیسن پیش کرتے۔" (ھئو ڈے بلوچ، "جوکر" بیگ محمد بیُگل، صفحہ 323 اور 324، مطبوعہ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ)

"نبی بخش عرف کالا ناگ اپنی مثال آپ تھا۔" ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے محمد بیگ بیگُل نے کہا "وہ جو کرتا، اکیلے ہی کرتا، یک و تنہا البتہ دادُل، شیرک کی بات الگ ہے وہ چار، پانچ بھائی تھے، مل کر کام کرتے تھے، بہرحال ان کی دہشت تھی۔ میں نے "ھئو ڈے بلوچ" میں جو کچھ لکھا ہے وہ میری یادداشتوں کا حصہ ہے بلکہ حسین گوادر میل گُل محمد لین میں میرا پڑوسی رہا۔"

"کراچی چورہ رودین انت" کراچی بے سہاروں کی پرورش گاہ ہے۔ مغربی بلوچستان (ایران) میں یہ مقولہ سالوں زبان عام رہا۔ سلسلہ قاجاریہ اور رضا پہلوی کے جبر میں بلوچوں کیلئے مغربی بلوچستان میں زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔ وہ مختلف ادوار میں خاندان در خاندان نقل مکانی کرتے رہے، ان کا آخری پڑاؤ لیاری کراچی میں ہوتا تھا۔ جو اس زمانے میں پھیلا ہوا شہر نہیں تھا اور لیاری بیوہ کی مانگ کی طرح نیپئر روڈ کے اختتام پر میوہ شاہ قبرستان کے کنارے لیاری ندی کے اردگرد واقع تھا۔

"بلوچ شرپسند ہوتے ہیں! آپ کو دیکھ کر اندازہ ہوا، میری رائے غلط تھی۔ میں کیا کرتی، میں کبھی کسی بلوچ سے ملی نہیں۔ بس ان کے بارے میں سنی ہی ایسی باتیں۔"

ایرانی موسیقار آزادے کی والدہ نے بلوچ بینجو نواز غلام محمد سوری زہی بلوچ کو اپنے گھر عشائیہ کے موقع پر اپنی باتوں سے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ غلام محمد بلوچ ان کو رحیم زرد کوہی کی ایک کہانی سناتے ہیں۔

رحیم زرد کوہی سیستان بلوچستان کے شہر "ایرانشہر" سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، کہیری چیک پوسٹ کے قریب، زرد کوہ کے رہنے والے نوجوان تھے۔ شاہ محمد رضا کے دور میں وہ سیاسی ناراضگی کے سبب پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں، کچھ دوستوں کیساتھ مل کر حکومت کیخلاف گوریلا کارروائیاں شروع کرتے ہیں۔

سیستان و بلوچستان میں تعینات ایک سخت گیر، متعصب فارس سیکورٹی افسر کے بارے میں خبر ملتی ہے۔ وہ معلومات حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ افسر کس مہینے چھٹیوں پر گھر جانے والے ہیں۔ فارس افسر کی چھٹیوں کے دن جب قریب پہنچتے ہیں تو رحیم زرد کوہی سرباز کے نخلستانی علاقے سے گزرنے والی "گوہیمرگ" ندی میں پڑاؤ ڈال کر ان کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔

وہ دن آ پہنچتا ہے جس کا انتظار رحیم زرد کوہی کو تھا۔ فارس افسر چھٹیوں پر گھر جانے کیلئے مسافرت کا آغاز کرتے ہیں۔ ندی نالے پار کرکے، جب وہ افسر شہر کی طرف جا نکلنے والی پہاڑی سڑک پر آتے ہیں، کچھ فاصلے پر ان کا سامنا رحیم زرد کوہی کے ناکے سے ہوجاتا ہے۔ افسر کی شناخت کی جاتی ہے۔ وہ وہی تھے جن کا رحیم کو قتل کیلئے انتظار تھا۔ رحیم کچھ دیر سوچ کر افسر کو "تم بلوچی لباس پہنے ہوئے ہو، تمہارے ساتھ ایک خاتون بھی ہے جو میرے لئے بہن جیسی ہے۔ تمہیں آج قتل کرنا میرے خیال میں نامردانگی ہوگی۔" کہہ کر انہیں بخش دیتے ہیں۔

1979 کے اسلامی انقلاب کے آغاز میں، رحیم زرد کوہی ایرانشہر کسی دوست سے ملنے جاتے ہیں جہاں مخبری ہونے پر، ریاستی فورسز سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔

...جاری ہے

تبصرے (0) بند ہیں