اوچ شریف - 1

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2014
چنی گوٹھ ریلوے سٹیشن -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
چنی گوٹھ ریلوے سٹیشن -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


احمد پور شرقیہ اور لیاقت پور کے بیچ، ریل، چنی گو ٹھ میں رکتی ہے۔ سو سال پرانے اس ریلوے اسٹیشن کی کہانی، اب معکوس رابطوں کی صورت گنبدوں میں اٹی پڑی ہے جو کبھی کبھار کسی پرانے جھونکے کے اندر آنے پہ گونج اٹھتی ہے ۔

پچھلی صدی میں یہاں سے گڑ کی بھیلیاں پورے ہندوستان کو جاتی تھیں مگر پچھلے سال جب فاتر العقل غلام عباس نے قرآن کی بے حرمتی کی تو شہر والوں سے رہا نہیں گیا۔ سنّت پہ چلنے والی ایک جماعت نے لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا تو ایمان والوں کے ہوش ٹھکانے آئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مشتعل افراد نے تھانے پہ حملہ کیا، ملزم کو حراست سے نکالا اور جان سے مارنے کے بعد اس کی لاش کو چنی گوٹھ کے مرکزی چوک میں آگ لگا دی۔ رات گئے جب چھ گھنٹے تک بند رہنے کے بعد ٹریفک کھلا تو تھانے سے ملحقہ کوارٹروں اور پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ غلام عباس کا مخبوط الحواس وجود بھی جل چکا تھا۔ اس واقعے میں اسلام کی تحریم تو بچ گئی مگر زبان پہ دھری سالوں پرانی شیرینی دھوئیں اور آنسوؤں کے ساتھ زائل ہو گئی۔

پانچ دریاؤں والے پنجند سے ذرا پہلے، جہاں سندھ، چناب کا ہاتھ پکڑتا ہے، سیت پور کا صدی پرانا قصبہ موجود ہے۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو دو دریاؤں کے بازوئی حصار میں ایک علی پور ہے جو آدھا یہاں اور آدھا کرناٹک میں آباد ہے ۔ کہنے کو تو تقریبا ہر علی پور ہی اپنے نام کے سحر میں مبتلا ہے مگر لہہ سے کنیا کماری تک ہندوستان میں ایران کا اتنا گہرا رنگ اور کہیں نہیں ملتا۔ پانی کی اسی آغوش میں ایک پرانی بستی جتوئی کی بھی ہے جس کا سرکاری سکول، چنی گوٹھ کے ریلوے اسٹیشن کا ہم عمر ہے۔

دریائے سندھ کی دوسری طرف جام پور بسا ہے۔ بہت پہلے اہیروں کی ایک گوٹھ جادم، ہوا کرتی تھی، جن کے آنکڑے راجپوت بھٹی اور سمہ لوگوں سے بھی ملتے ہیں۔ پیغمبروں کے پیشے سے وابستہ ان جادو بنسی چرواہوں نے یہاں ڈیرے ڈالے تو یہ جگہ جادم پور بنی اور آہستہ آہستہ جام پور کے نام سے مشہور ہو گئی۔

سالوں پہلے یہاں کے تراشے ہوئے قلم بہت مشہور ہوا کرتے تھے مگر اپنے اصلی نام کی طرح، اب یہ سوغات بھی متروک ہو چکی ہے۔ شائد یہ وہی دور تھا جب پڑھنے والے لکھا کرتے تھے اور لکھنے والے پڑھا کرتے تھے، اب تو جنہیں لکھنا چاہئے وہ پڑھ رہے ہیں اور جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں۔

دریاؤں کی ان آڑی ترچھی سلوٹوں میں کوٹ ادو کے ہوت بلوچ قبیلوں سے مظفر گڑھ کے قدیم شہر تک، ان گنت کہانیاں ہیں جو یا تو خالق کی مصلحت سے چھپی ہیں یا مخلوق کی محرومی سے اوجھل ہیں مگر یہ طے ہے کہ کل جب یہ گپت داستانیں، نئے سننے والوں کو نصیب ہوں گی تو کسی تاریخ کا حصہ بننے کی بجائے خود ایک تاریخ لکھیں گی۔

احتراما تو سندھ کے راستے کی تمام بستیوں کا تذکرہ ضروری ہے مگر اوچ شریف کی منقبت ایک ایسا فرض ہے جس کا کفارہ نہیں۔ آب و خاک کے مرقد میں سانس لیتے اس شہر کی کہانی بے حد دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ سکندر اعظم یہاں سے گزرا تو اسے تین دریا سر جوڑے نظر آئے۔ مقدونیہ کے شہزادے نے اپنے، تیکھی ناک والے، پرکھوں سے سن رکھا تھا کہ دریاؤں کے سنگم پہ آباد ہونے والے شہر ہمیشہ بسا کرتے ہیں۔

آدمی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کل جہان پھرنے کے باوجود اسے اپنے ہی لوگ سب سے گیانی لگتے ہیں سو سکندر نے اس تروینی پہ شہر بسانے کا حکم دے دیا۔ اب دریاؤں کا سنجوگ تو کہیں نیچے مٹھن کوٹ کو بہہ گیا ہے، مگر شہر کا حکم اب بھی اچ شریف میں تعمیل کا فرض ادا کر رہا ہے ۔۔۔۔ کچھ سیانے ٹھیک بھی تو کہتے ہیں۔

سکندر کے آباد کئے ہوئے شہر، پہلے تو فتوحات کے زعم میں ایک دوسرے سے ملتے ملاتے رہے پھر قوم قبیلے کی بنیاد پہ اردگرد کی وابستگیاں بھی گہری ہو گئیں اور شہر پھیلتا رہا۔ چھچھ نامہ والے راجہ چھچھ کے عہد میں سمندر کو پہاڑ سے جوڑنے والے تجارتی قافلے اس راستے سے گزرنا شروع ہوئے تو فساد کا کچھ کچھ اندیشہ پیدا ہوا مگر شہر کو دفاعی چوکی کا درجہ وسطی ایشیا سے آنے والے منگول حملہ ٓاوروں کے چرچے سے ملا۔

تھوڑا وقت اور گزرا تو محمد بن قاسم، حجاج بن یوسف کی تلوار، اسلام کی نیام میں لپیٹ کر لے آئے۔ فصیلوں میں رہنے والوں نے پہلے پہل تو حوصلے بلند رکھے مگر سات دن کے محاصرے کے بعد بالآخر یہ شہر بھی ایمان لے آیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہند سندھ میں تو مذہب کی اکائی مضبوط ہوتی گئی مگر عرب و عجم میں عقیدے کی تفریق بڑھتی گئی۔ وقتاً فوقتاً بنو امیہ اور بنو عباس کے غیض و غضب کا نشانہ بننے والے علماء اور فقہاء اوچ شریف آتے گئے اور آباد ہوتے گئے۔ یوں ایک ہزار سال کے عرصے میں ہانکا لگانے والوں کا بسایا ہوا شہر، راستہ دکھانے والوں کا نگر بن گیا۔

تاریخ کی رنگینی اور وقت کی دھوپ چھاؤں کے باعث، اچ شریف کی یاد اب اس پوسٹ کارڈ کی مانند ہے جس کے ایک طرف خوبصورت تصویر اور دوسری طرف اداس تحریر ہوا کرتی ہے۔ خوبصورت تصویر رنگ برنگے دھاگوں سے درختوں پہ ٹنگی مناجاتوں والے ایک احاطے کی ہے جس میں حضرت جلال الدین سرخ پوش، ان کے پوتے حضرت جہانیاں جہاں گشت، ان کی پوتی مائی جاوندہ، استاد عبدالعلیم، اور ماہر تعمیرات بابا نوریا کے مقابر ہیں اور اداس تحریر آس، امید سے بوجھل فضا، بھربھری اینٹوں، زمیں بوس گنبدوں اور مٹتے ہوئے نقوش کی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دونوں طرف سرشاری، ہجر اور وصال کا رنگ بالکل ایک جیسا ہے۔ ۔ ۔ ۔

انگلش میں پڑھیں

(... جاری ہے)

تبصرے (0) بند ہیں