• KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.1°C
  • ISB: Rain 15.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.1°C
  • ISB: Rain 15.2°C

فساد فی سبیل اللہ ؟

شائع May 9, 2014

وہ کوئی بھی دوسرا عام سا مریض ہو سکتا تھا جو ایک آئی کلینک پر علاج کیلئے آیا ہو-

لاہور کے بادامی باغ کا رہائشی، بیس پچیس سالہ عبدلرؤف، اپنے والد کو ڈاکٹر علی حیدر کے کلینک لے گیا- کلینک پر اس کی باری آنے میں ہونے والی تاخیر نے اسے اتنا غصہ دلایا کہ اس نے ڈاکٹر علی حیدر کو قتل کرنے کی پلاننگ کر ڈالی- اور پھر کچھ روز بعد، اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر حیدر اور ان کے گیارہ سالہ بیٹے کو ایک ساتھ ایف سی کالج کے داخلی رستے کے قریب قتل کر دیا-

تاہم یہ مکمل کہانی نہیں-

عبدالرؤف فرقہ ورانہ نفرت میں جل رہا تھا- اس بات کے احساس نے کہ جس ڈاکٹر کے پاس وہ اپنے والد کو علاج کیلئے لایا تھا ایک شیعہ تھے، اسے فرقہ ورانہ عصبیت میں اندھا کر دیا- اس کی نفرت اتنی گہری اور راسخ تھی کہ حملہ آوروں نے گیارہ سالہ مرتضیٰ کو بھی نہ بخشا جسے اس کے والد اسکول چھوڑنے جا رہے تھے-

پنجاب پولیس نے حال ہی میں ایک گینگ کو گرفتار کیا ہے جو کہ سولہ فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگز اور بہت سوں پر جان لیوا حملے کرنے میں ملوث تھا- گینگ کے ہاتھوں حملے کا شکار ہونے والوں میں سے اکثر لاہور کے شیعہ پروفیشنلز تھے- معروف صحافی رضا رومی پر ہونے والے حملے میں بھی یہی گروہ ملوث تھا- اس حملے میں رضا رومی زخمی ہوئے تھے جبکہ ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا- اس چھ رکنی گروہ کے پنجاب میں فرقہ ورانہ عسکریت میں ملوث معمول کے مشتبہ افراد کے ساتھ روابط ہیں-

ان کی گرفتاری پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں تاہم یہ کہیں وقت سے پہلے تو نہیں ہو رہا- پاکستان میں شاید ہی کسی فرقہ ورانہ قاتل کو آج تک سزا ملی ہو- فرقہ پرستی کے پیش اماموں کی طرح، جو کہ کئی دہائیوں سے انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے آ رہے ہیں، ان کے پیدل سپاہی بھی جن کے برین فساد فی سبیل الله مچانے کیلئے واش کیے جا چکے ہیں، ہر بار کی طرح اس بار بھی آزاد ہو جائیں گے-

جہاں پنجاب میں شیعوں، عیسائیوں اور قادیانیوں کے خلاف فرقہ ورانہ جنگ میں اضافہ ہوا ہے تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے لیڈرشپ نے مذہبی اور دوسری اقلیتوں کو درپیش سنگین حالات سے آنکھیں چرائی ہوئی ہیں- بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ طالبان سے مذاکرات کے ثمرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور اسی کے نتیجے میں آجکل ملک میں امن و سکون ہے- خان صاحب کا ماننا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے-

تاہم، عمران خان کے اس بیان میں دو مسئلے ہیں-

پہلا تو یہ کہ یہ مکمل طور پر درست نہیں- تاہم، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات کی وجہ سے واقعی شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملوں میں کمی آئی ہے تو یہ چیز خود اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ طالبان پاکستان میں عام شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کے ذمہ دار ہیں-

ہندوستان کے ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل میں بیان کئے جانے والے تازہ ترین اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گرد حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں میں کمی آئی ہے (نیچے دیا گیا چارٹ دیکھیں)- مثال کے طور پر، پاکستان میں جنوری 2014 میں دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 236 تھی جبکہ اس کے مقابلے میں جنوری، 2013 میں یہ تعداد 414 تھی- کچھ ایسے ہی اعدادوشمار فروری اور مارچ کے بھی ہیں- سب سے نمایاں کمی اپریل کے مہینے میں ریکارڈ کی گئی، جس میں اپریل، 2014 میں 116 سویلین ہلاکتیں ہوئیں جبکہ اپریل، 2013 میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد 230 تھی-

Source: South Asia Terrorism Portal. ©Murtaza Haider
Source: South Asia Terrorism Portal. ©Murtaza Haider

اوپر دئے گئے چارٹ میں ، دہشت گردی سے منسلک خون خرابے میں کمی کو ثابت کرتی ہے تاہم کیا ان ہلاکتوں کے نمبرز اس حد تک گر چکے ہیں کہ خان صاحب اور دوسرے یہ اعلان کر سکیں کہ "کام ختم ہوا"- صرف اپریل، 2014 میں 116 شہریوں، بیس سیکورٹی اہلکاروں اور 130 مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ اس ملک میں امن و شانتی کا دور دورہ ہے-

جہاں حملوں کی تعداد اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی ہوئی ہے وہیں دہشت گردوں کے ٹارگٹس کے حوالے سے ریجنل فوکس بھی ابھرنے لگا ہے- بلوچستان اور سندھ میں دہشت گرد حملوں کا تناسب 2012 سے ایک ہی جیسا نظر آتا ہے جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں پچھلے دو سالوں کے دوران اس تناسب میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے (نیچے دیا گیا چارٹ دیکھیں)-

مثال کے طور پر، 2012 میں پنجاب میں دہشت گردی میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کا تناسب صرف دو فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا اور 2014 میں پنجاب میں یہی تناسب سات فیصد تک ہو گیا ہے-

اسی طرح کے پی کے صوبے کے آباد علاقوں میں ہونے والی شہری ہلاکتیں، پاکستان میں ہونے والی مجموعی شہری ہلاکتوں کا بارہ فیصد تھیں اور 2014 میں یہ تناسب بڑھ کر بائیس فیصد ہو گیا ہے- اسی عرصے میں فاٹا میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا تناسب جو 2012 میں اٹھارہ فیصد تھا، 2014 میں گھٹ کر پانچ فیصد ہو گیا ہے-

Source: South Asia Terrorism Portal. ©Murtaza Haider
Source: South Asia Terrorism Portal. ©Murtaza Haider

بادامی باغ کا عبدالرؤف یا اس جیسے دیگر فرقہ ورانہ قتل و غارتگری کا اعتراف کرنے والے سینکڑوں قاتل، یہ سب اب وہ مجرم نہیں رہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے دور ہوں-

تاہم ان انتہا پسندوں کو ہمارے کمزور عدالتی نظام کے ذریعے سزا دینا مشکل ہے- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے نام پر موت اور تباہی کا رستہ چنا-

یہ اس وقت تک نہیں رکنے والے جب تک ریاست کے تمام ادارے ایک ساتھ مل کر پاکستان میں انتہا پسند تشدد کے خطرے کا سامنا نہیں کرتے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

فہیم May 09, 2014 01:49pm
پاکستان میں کچھ عرب ملکوں کا بہت عمل دخل ہے، جو پاکستان کے مدارس کے ساتھ رابطے میں ہیں، اس حوالے سے ان عرب ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔ حکومت کو ملکی بقا کے لئے ان عرب ممالک کے ساتھ واضح انداز میں بات کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے اگر حکومت بیرونی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ملک میں امن قائم ہوجائے گا، بصورت دیگر کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے، اسکے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔ جہاں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، وہاں شیعہ سنی علماء کی بھی ذمہ داری میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے پیروکاروں میں برداشت کا شعور بیدار کریں اور دہشت گردوں کے خلاف نفرت پیدا کریں، تاکہ جن صفوں میں بھی شرپسند عناصر ہیں، وہ انہیں نکال باہر کریں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے، جسے ہم نے بہت سی قربانیوں سے حاصل کیا ہے، اسے ہم کس طرح پلیٹ میں رکھ کر مٹھی بھر دہشت گردوں کے حوالے کر دیں۔ ہم اگر ہندو بنیا کے منہ سے یہ ملک چھین سکتے ہیں تو اس کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں، جس کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، سکیورٹی اداروں کو بھی شرپسندوں کی سرکوبی کے لئے کوئی دبائو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
ja wed May 09, 2014 04:22pm
سب سے پہلے تو میں یہ کہو نگا کہ ہما رے یہا ں قا نو ن کی گر فت نہ ہو نے کے بر ا بر ہے جو بھی حکو مت آ ی ہے ا س نے ا ن ا دا روں کی طر ف کبھی سنجید گی سے عمل ہی نہیں کیا بلکہ ا س نظا کو ا یک کا روبا ر بنا کے ر کھد یا ہے جس کے نتا عج آ ج یہ نکل ر ہے ہیں کہ ملک میں آ ج و ہ ہی اپنی ز ند گی کو سیف رکھسکتا جس کے پا س طا قت ہو جہا ں عد لیہ اور قا نو ن نا فد کر نے والے ا دا رے بکا و ما ل ہو ں وہ معا شرہ وہ ملک کبھی تر قی نہیں کر سکتا
walid May 11, 2014 04:51pm
daikhain iran ho ya saudia arab unko apni proxywar apny mulk mai hi larni chahiye......... pakistan ka is p asar ni hona chahiye.........
walid May 11, 2014 04:51pm
daikhain iran ho ya saudia arab unko apni proxywar apny mulk mai hi larni chahiye......... pakistan ka is p asar ni hona chahiye.........

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025