تھری جی، فور جی … ہیں جی!؟

اب تو پاکستان کے مسائل چٹکیوں میں حل ہو جائیں گے- ترقی یافتہ کہلاۓ گا- دوسرے ملک ہم سے امداد لینے آیا کریں گے!
اب تو پاکستان کے مسائل چٹکیوں میں حل ہو جائیں گے- ترقی یافتہ کہلاۓ گا- دوسرے ملک ہم سے امداد لینے آیا کریں گے!

پچھلے کچھ دنوں سے ملکی اخباروں، چینلز حتیٰ کہ سوشل میڈیا تک پر، پاکستان میں شروع ہونے والی تھری جی اور فور جی سروسز کا بڑا چرچا ہو رہا ہے- بوڑھے بچے جوان سب ہی تھری جی، فور جی کی مالا جپ رہے ہیں-

جس دن تھری جی/فور جی آکشن (auction ) تھا، ہم بھی بڑے خوش تھے یہ سوچ کر کہ اب پاکستان بھی تیز ترین موبائل انٹرنیٹ سروس والے ممالک کی فہرست میں آگیا ہے- اخبار اٹھایا مختلف موبائل سروس کمپنیز تھری جی، فور جی ٹیکنالوجی کی تشہیر کرتی نظر آئیں-

'واہ!! یہ ہے 'تبدیلی'، دل میں سوچا، ' دیکھنا اب تو پاکستان کے مسائل چٹکیوں میں حل ہو جائیں گے- پاکستان ترقی یافتہ ملک کہلاۓ گا- دوسرے ملک ہم سے امداد لینے آیا کریں گے'- غرض بیٹھے بیٹھے شیخ چلّی کے سپنے دیکھ رہے تھے-

دل میں تھوڑا افسوس تو تھا کہ زونگ (Zong ) یا وارد (Warid ) کی سم کیوں نہ لے رکھی، وہ ہوتی تو آج فور جی کے مالک ہوتے، ہم بھی ٹھاٹھ سے فور جی کی بڑکیں مارتے-

خیر کوئی بات نہیں تھری جی بھی برا نہیں، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے- خوشی تو اس بات کی ہے پاکستان میں ایڈوانس ٹیکنالوجی آگئی ہے (ایک محب وطن کو اور کیا چاہیے!)-

صبح اٹھے یہ سوچ کر کہ جب باہر نکلیں گے تو منظر ہی الگ ہوگا (اپنے وطن کی صبح تو ویسے بھی حسین لگتی ہے) لیکن آج تو بات ہی الگ ہوگی- لوگ ٹریفک سگنل کی پابندی کر رہے ہونگے، عوام کی حفاظت پر پولیس موبائلز مامور ہونگی، ٹریفک سگنلز پر کوئی گداگر ہمیں پریشان نہیں کرے گا-

باہر نکلتے ہی سب سے پہلا ہمارا استقبال گلی میں ابلتے گٹر کے گندے پانی نے کیا، لاحول پڑھتے پائنچے اوپر اٹھاۓ گاڑی میں بیٹھے، 'حد ہے! ملک میں تھری جی، فور جی آگیا مگر یہ صفائی کرنے والوں کا قبلہ درست نہیں ہوا'!

خیر بڑبڑاتے، بھناتے منزل مقصود کی طرف روانہ ہوۓ- منزل پر پنہچ کر پتا چلا بجلی نہیں ہے گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ بعد آئیں- یہاں سے جواب سن کر باہر نکلے کہ اب کیا کریں؟ یاد آیا امّاں نے کچھ دواؤں کا کہا تھا، پاس ہی میڈیکل/ڈیپارمنٹل اسٹور ہے کیوں نہ دوا بھی لے لی جاۓ اور کچھ سامان بھی-

خریداری کر کے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک مائی گود میں بیمار بچہ لئے اور ہاتھ میں کالپول کا میلا سا ڈبّا پکڑے سامنے آکھڑی ہوئی- بولی بچہ بہت بیمار ہے باجی دوائی لینی ہے کچھ مدد کر دو- ایک تو دھوپ اوپر سے ہاتھوں میں بھاری بھرکم سامان اٹھاۓ، طبیعت جھنجھلا ہی تو گئی،

'مائی، تم اب بھی بھیک مانگ رہی ہو!؟ جانتی نہیں ملک میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی آگئی ہے اب بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھیں!!؟'

وہ بیچاری میرا منہہ تکتے ہوۓ حیرت سے بولی، 'ہیں جی!؟ بی بی دوا کے پیسے دینے ہیں تو دو ، لیکچر نہ دو'- یہ کہہ کر محترمہ مارچ پاسٹ کرتیں آگے نکل گئیں اور ہم اپنا سا منہہ لے کر رہ گۓ-

خیر قصّہ مختصر کام ختم کر کے ہم روڈ کے کنارے اپنی کار میں بیٹھ ہی رہے تھے کہ اچانک بائیک پر سوار ایک شخص میرے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور گن پوائنٹ پر پرس نکالنے کو بولا- ارد گرد نظر دوڑائی، چند گز کی دوری پر ایک پولیس موبائل موجود تھی جس کے باہر کھڑا سپاہی ہماری طرف ہی دیکھ رہا تھا، مجھ سے نظریں ملتے ہی اس نے چہرہ دوسری جانب پھیر لیا- وہاں سے ناامید ہوکر چار و ناچار پرس حضرت کے حوالے کرنا پڑا. شکر ہے موبائل گھر بھول آئی تھی ورنہ وہ بھی جاتا، پھر نصیب دشمناں میرے تھری جی /فور جی کا کیا ہوتا ؟-

آج کا سارا دن منحوس ہی گزرا تھا- تھری جی اور فور جی کی آمد کی جتنی خوشی تھی سب کافور ہوچکی تھی- شام کو حسب معمول لیپ ٹاپ آن کر کے بیٹھے لیکن طبیت اتنی مضمحل تھی کہ کچھ لکھنے کا دل نہ کیا. سوچا آج دوستوں سے باتیں کی جائیں- سکائپ لاگ ان کیا، دیکھا بہت سے دوست اور رشتہ دار آن لائن بیٹھے ہیں، پاکستان میں رہنے والے اکثر احباب کے سٹیٹس (status ) پر تھری جی یا فور جی کی شان میں قصیدے لکھے ہوۓ تھے- ہمیں بھی دیکھ کر جوش آیا ہم نے بھی اٹھا کر ایک تھری جی سٹیٹس لکھ مارا- تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ دبئی کے رہائشی ایک پاکستانی دوست نے میسج کیا-

'السّلام و علیکم … کیا حال چال ہیں!؟'

'وعلیکم السّلام … سب خیریت آپ سنائیں؟'، میں نے جواب دیا-

یہاں بھی سب ٹھیک ٹھاک، اور سناؤ تھری جی کے مزے اٹھاۓ جا رہے ہیں؟'

'ہا ہآ! ہاں جی آخر کار ہم بھی تھری جی/ فور جی ٹیکنالوجی کے مالک بن گے'، میں نے فخر کے ساتھ جواب دیا-

'بہت خوب بہت خوب، ویسے اسکا فائدہ کیا ہوگا آپ لوگوں کو؟' آگے سے سوال آیا-

'فائدہ مطلب؟ بھئی تیز اور بہتر موبائل/انٹرنیٹ سروس، انفارمیشن تک تیز ترین رسائی ..اور کیا!'، مجھے ان کے بے تکے سوال پر حیرت ہوئی-

'اوہ! یعنی آپ لوگوں کے یہاں یو-ٹیوب پر سے پابندی ختم ہوگئی؟ ' ایک اور سوال آیا-

'ہیں جی؟ اررر... نہیں ، وہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا'، میں نے جواب دیا-

'ہمم! خیر حل ہوجاۓ گا جلد ہی، اور سنائیں کراچی کے کیا حالات ہیں'-

میں انکی بات کا جواب دینے ہی والی تھی کہ لائٹ چلی گئی اور راؤٹر بند ہوگیا- جنریٹر چلا کر واپس انہیں معذرت کا میسج کرتے ہوۓ بتایا کہ لائٹ چلی گئی تھی-

'لوڈشیدڈنگ عروج پر ہے؟'، انہوں نے پوچھا-

'جی ہاں،گرمیاں شروع ہوگئی ہیں تو آجکل ذرا زیادہ ہی ہورہی ہے'، میں نے جواب دیا-

'آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ مجھے دبئی آۓ آٹھ سال ہوچکے ہیں، لوڈشیدڈنگ کم ہونے کی بجاۓ بڑھتی ہی جارہی ہے-'، میرے یہ دوست آج بحث کے موڈ میں تھے-

'ایک تو لوگ 'کنڈے' لگا کر بجلی چوری کرتے ہیں اوپر سے بعض لوگ بل ادا نہیں کرتے- کل ہی ٹویٹر پر ایک دوست بتایا کہ علاقوں میں بجلی کے بل کی ادائیگی نوے فیصد سے کم ہوتی ہے وہاں لوڈشیدڈنگ زیادہ ہوتی ہے'، میں نے دفاعی انداز میں وضاحت کی-

'یعنی آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سو فیصد میں سے اگر بیس یا پچیس فیصد لوگ بل ادا نہیں کرتے یا بجلی چوری کرتے ہیں تو انکی سزا باقی ستر /اسی فیصد صارفین کو بھی دی جاتی ہے، یہ ناانصافی نہیں؟'

'جی ہے تو لیکن اور کوئی علاج بھی تو نہیں، کوئی کیا کہہ سکتا ہے-'

'بھئی کہنا کیا ہے وہ جو لاکھوں، کروڑوں روپے کے ڈیفالٹر حکومتی ادارے اور ملیں ہیں ان سے پیسا نکلوایا جاۓ اور بجلی کی کمی پوری کی جاۓ-'، انہوں نے صلاح دی-

'دیکھیں یہ سب کام ایک دو دن میں نہیں ہوجاتے، وقت لگتا ہے ان میں- حکومت کو منصوبہ سازی سازی کے لئے وقت درکار ہوتا ہے-' میں نے جھنجھلا کے جواب دیا-

'آٹھ سال سے دیکھ رہا ہوں، اب تک کوئی بھی حکومت ایک جامع منصوبہ نہیں بنا پائی، خیر … ویسے مبارک ہو آپ لوگوں کو'، انہوں نے کہا-

'کس بات کی مبارک باد جناب'، میرا موڈ تلخ ہوچکا تھا-

'سندھ اسمبلی میں چائلڈ میرج پر بل جو پاس ہوگیا ہے- اب کسی معصوم بچی کی زندگی تباہ نہیں ہوگی'، انہوں نے کہا-

'صحیح کہہ رہے ہیں آپ، یہ واقعی ایک بڑی کامیابی ہے-'، میرا موڈ تھوڑا بہتر ہوگیا تھا-

' تو پھر دیگر صوبوں کا کیا ردعمل ہے؟ انہیں تو فوراً سندھ اسمبلی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور اپنی اسمبلی میں بھی اس مسئلہ کے لئے قانون سازی کرنی چاہیے'، (حد ہے یہ حضرت پھر شروع ہوگۓ!)

'دیکھیں تمام صوبوں کے الگ الگ رواج ہیں انکو سامنے رکھ کر ہی قانون سازی کی جاسکتی ہے'، مجھے ایک بار پھر اپنے وطن کا دفاع کرنا پڑا-

'کیا رسم و رواج ایک معصوم کی زندگی اور اس کے مستقبل سے زیادہ اہم ہیں؟' ایک اور سوال-

'……………..'، میرے لئے خاموش رہنا ہی بہتر تھا-

'خیر چھوڑو ، اور سناؤ………...' -

اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے میں نے اپنا سکائپ لاگ آؤٹ کرنے میں ہی عافیت سمجھی-

تھری جی /فور جی کی خوشی پر ایک بار پھر گھڑوں پانی پڑ گیا تھا-

تبصرے (1) بند ہیں

Ali Tahir May 19, 2014 05:42pm
بہت عمدہ ناہید. کما ل عکاسی کی ہے اُپ نے. آپکا انداز تحریربہت خوب تھا.