آئی ڈی پیز قانون نہ ہونے پر مشکلات کا شکار
پاکستان کے مختلف حصوں خاص طور پر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخواہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کا بے گھر ہونا اب کوئی غیرمعمولی بات نہیں رہی۔ گزشتہ دہائی کے دوران قدرتی اور دیگر آفات کے نتیجے میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مگر اس وقت عسکریت پسندی اس کی بنیادی وجہ ہے۔
اس وقت جب عسکریت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد ہزاروں دہشت زدہ افراد شمالی وزیرستان سے بھاگ رہے ہیں، ان بے گھر افراد کی امداد پر مختلف حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے صورتحال غیر واضح ہے۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا باجوڑ، مومند اور خیبرایجنسیوں میں بھی اس وقت لوگوں کو ہوا تھا، جب کہ وفاق اور صوبائی انتظامیہ نے نوشہرہ کے جلوزئی کیمپ میں آئی ڈی پیز کے قیام کے حوالے سے ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردی تھی۔
قدرتی آفات سے متعلق 2010ءمیں نافذ کیا جانے والا قانون آفات سے نمٹنے کیلئے تیار کیا گیا تھا، مگر بدقمستی سے اس میں آئی ڈی پیز کے حوالے سے کوئی وضاحت ہی موجود نہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں کو اس قانون میں وقت کے مطابق تبدیلی لانی چاہئے اور آئی ڈی پیز کے حقوق کی وضاحت شامل کی جانی چاہئے، تاہم وفاق اور صوبوں کی جانب سے اس بارے میں کوئی دلچپسی نہیں دکھائی جارہی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر ممالک کے مہاجرین کے مقابلے میں آئی ڈی پیز پاکستان کے شہری ہیں اور انہیں آئین کے تمام دیگر شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔
ایسی اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے مختلف وجوہات کا جواز پیش کرکے آئی ڈی پیز کی آمد پر پابندی لگادی ہے، جو کہ ان حکومتوں کی جانب سے آئین کی واضح خلاف ورزی ہے جو ہر پاکستانی کو ملک کے کسی بھی حصے میں جانے اور وہاں رہائش کی اجازت کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت ڈیزاسٹر منیجمنٹ اب صوبائی معاملہ ہے اور صوبائی اسمبلیاں ہی این ڈی ایم اے 2010ءکے قانون میں تبدیلی لاسکتی ہیں۔
خیبرپختونخواہ کی سابقہ صوبائی حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ 2012ء نافذ کیا تھا جس کے تحت این ڈی ایم اے میں تبدیلیاں لائی گئی تھیں۔
صوبائی حکومت نے جو سب سے اہم ترامیم اس قانون میں کی گئی وہ یہ تھی کہ ہر ضلع میں آفات سے نمٹنے کیلئے اتھارٹی کے قیام کی بجائے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ یونٹس متعارف کرائے۔
این ڈی ایم اے 2012ءمیں قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کو شامل کیا گیا تھا، اس میں کسی ڈیزاسٹر کو بڑی آفت قرار دیا گیا تھا، جو قدرتی یا انسانی وجوہات کی بناءپر کسی علاقے کو متاثر کرے۔ یا کوئی ایسا حادثہ جو بڑی تعدادمیں زندگیوں کے نقصان یا جائیدادوں کی تباہی کا سبب بنے۔ اس کے علاوہ قانون کے تحت متاثرہ علاقے سے مراد ایسا علاقہ یا ملک کا وہ حصہ ہوگا جو کسی آفت کا شکار ہوا ہو۔
اس قانون کے تحت نینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جانا تھا جس کے چیئرپرسن وزیراعظم جبکہ اراکین میں اعلیٰ شخصیات کو شامل کیا جاتا، اس کمیشن کو اعلیٰ ترین پالیسی ساز ادارے کی حیثیت حاصل ہوتی جو اپنے اجلاسوں میں اس بات کی وضاحت کرتے کہ کس واقعے کو ڈیزاسٹر منیجمنٹ کو ترجیح دینی چاہئے۔ اس ایکٹ کے تحت قومی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کا قیام بھی عمل میں آنا تھا۔
اس ایکٹ کی شق گیارہ قومی اتھارٹی کو پابند کرتا ہے کہ وہ متاثر افراد کی امداد کیلئے گائیڈلائنز مرتب کرے۔ اس شق کے مطابق نیشنل کمیشن کی ہدایات کے مطابق قومی اتھارٹی گائیڈ لائنز مرتب کرے جس کے تحت اس سانحے سے متاثرہ افراد کو فراہم کی جانے والی امداد کا تعین کیا جاسکے۔ امداد کی کم از کم ضروریات میں پناہ گاہ، خوراک، پینے کا پانی، طبی امداد اور سیوریج کی سہولیات شامل ہیں، جبکہ انسانی جانوں کے ضیاع، گھروں کو نقصانات اور روزگار کی فراہمی جیسے ریلیف کی فراہمی کیلئے خصوصی انتظامات کئے جائیں۔
اقوام متحدہ نے 1998ءمیں آئی ڈی پیز کے حوالے سے بنیادی اصول وضع کئے تھے، جن کے تحت آئی ڈی پیز کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی 'افراد یا لوگوں پر مشتمل ایسے گروپس جنھیں مسلح تنازعات کے دوران زبردستی یا مجبوراً اپنے گھروں سے نکلنا پڑے، اور وہ کسی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحد کو عبور نہ کرسکتے ہوں'۔
اقوام متحدہ کی گائیڈلائنز کے مطابق انتظامیہ کو ایسے افراد کیلئے رہائشی انتظامات کو یقینی بنانا چاہئے، اور تحفظ، صحت، صفائی اور صحت بخش غذا وغیرہ پر مشتمل ماحول فراہم کرنا چاہئے۔
ان گائیڈلائنز کے تحت حکومت کی جانب سے متعلقہ قانون میں ترامیم کرنا مناسب اقدام ہوگا، جس میں آئی ڈی پیز کی واضح تعریف اور ان کے حقوق سمیت حکومتوں اور انتظامیہ کی انتظامیہ کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی جانی چاہئے۔











لائیو ٹی وی