احمد ندیم قاسمی کی برسی
اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کی تلخیوں کو لفظوں کا پیرہن دینے والے احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو پنجاب کے علاقے خوشاب میں پیدا ہوئے۔
ان کا اصل نام احمد شاہ تھا اورندیم ان کا تخلص تھا، ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی جبکہ 1923 میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔
وہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا اور پھر 1931 میں میٹرک کیا اور بہاولپور کے ایک کالج سے 1935 میں بی۔ اے۔ کیا۔
سن 1939 میں محکمہ آب کاری میں ملازم ہوگئے، اسی سال ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ چوپال شائع ہوا تاہم 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے اور یہاں دو جریدوں تہذیبِ نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی۔
سن 1943 میں ادب لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ریڈیو پشاور میں سکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازم ہو گئے۔
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تیرہ اور چودہ اگست 1947 کی درمیانی شب انہی کا لکھا ہوا اوّلین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔
قیامِِ پاکستان کے بعد آپ ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے، پھر ہاجرہ مسرور سے مل کر نقوش کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے جبکہ اپنی وفات تک وہ مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے انھوں نے قاسمی کہانی، گھر سے گھر تک سمیت متعدد معروف ڈرامے تحریر کئے۔
وہ شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور صحافی تھے، انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تحریر کیں اور ان کی شاعری کے بارہ مجموعے منظرِ عام پر آئے۔
احمد ندیم قاسمی میں کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں، انہوں نے فرد کی ذات کی کیفیات کے ساتھ معاشرتی ناہمواریوں اور مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا۔
احمد ندیم قاسمی نے نہ صرف عوام کے مسائل پر لکھا بلکہ ان کے حل کیلئے عملی جدوجہد بھی کی اور اپنے عوام دوست نظریات کی بناء پر انہیں جیل بھی کاٹنا پڑی۔
انیس سو باسٹھ میں ان کی ایک مشہور ہونے والی نظم کے چند مصرعے کچھ یوں ہیں۔
ریت سے بت نہ بنا اے مِرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں
لیکن کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
انہیں اردو ادب کے لئے خدمات پر1968 میں تمغۂ حسنِ کاکردگی اور 1980 میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔
اردو ادب کی یہ ہمہ جہت شخصیت دس جولائی دو ہزار چھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن اپنی تخلیقات کی صورت میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔
ان ہی کے الفاظ میں:۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا











لائیو ٹی وی