گھریلو تشدد: پاکستانی 'کلچر' - حقیقت کیا ہے؟

25 جولائ 2014
پاکستانی سماج میں عورت مرد کی جائداد اور اس سے کمتر ہے چناچہ اس کے ساتھ کسی قسم کا سلوک روا رکھنا مرد کا پیدائشی حق ہے-
پاکستانی سماج میں عورت مرد کی جائداد اور اس سے کمتر ہے چناچہ اس کے ساتھ کسی قسم کا سلوک روا رکھنا مرد کا پیدائشی حق ہے-

اس کی خطا بس یہ تھی کہ اس نے بکری کے گوشت کی بجاۓ کھانے میں دال پکا لی تھی، اس جرم کی پاداش میں اسے مار مار کر لہولہان کر دیا گیا اور اسی حالت میں اس نے جان دے دی-

یہ واقعہ امریکی ریاست نیویارک میں پیش آیا جہاں ایک پاکستانی امیگرنٹ پچھتر سالہ نور حسین نے اپنی چھیاسٹھ سالہ بیوی نظر حسین کو سر اور جسم کے مختلف حصّوں پر چھڑی کے وار کر کر کے قتل کردیا- اس بہیمانہ کارروائی کے دوران نور حسین کو ایک پل بھی نظر حسین کے ساتھ اکیس سالہ رفاقت کا خیال تک نہ آیا- بربریت کی انتہا کا اندازہ لگائیں کہ پولیس رپورٹ کے مطابق جاۓ واردات پر ہر جگہ خون پھیلا ہوا تھا-

اس پر ستم ظریفی ذرا قاتل کا موقف ملاحضہ فرمائیں کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈسپلن سکھانے کے لئے اس پر ہاتھ اٹھایا اور یہ کہ بیویوں پر تشدد 'پاکستانی کلچر' کا حصّہ ہے تاکہ انہیں مطیع و فرمانبردار بنا کر رکھا جاسکے- اپنی نشستوں سے اٹھنے کی زحمت نہ کریں، مجھے آپ کے اختلاف سے پورا اتفاق ہے یقیناً ایسا کوئی رواج پاکستانی 'کلچر' میں نہیں ہے- نور حسین کی وکیل نے نے اسے سزا سے بچانے کے لئے یہ قانونی پینترا کھیلا تھا، جس میں وہ ناکام رہیں اور قاتل کو اٹھارہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے-


نور حسین کو جتنی مرضی چاہے برا بھلا کہیں کہ اس نے بیرون ملک پاکستان کو بدنام کیا اس کے وقار کو ٹھیس پنہچائی وغیرہ وغیرہ، لیکن کیا واقعی نور حسین کا موقف غلط تھا؟

جس دن نور حسین کی سزایابی کی خبر پاکستانی اخبارات کی زینت بنی ٹھیک اسی دن ایک اور خبر بھی پڑھنے کو ملی- یہ خبر بلوچستان کے ضلع جعفرگڑھ سے تعلق رکھنے والی تیرہ سالہ بچی نور خاتون سے متعلق تھی جسکی ایک ماہ قبل ایک چالیس سالہ مرد سے زبردستی شادی کر دی گئی اور اب وہ شخص اور اس کے گھر والے مسلسل نور خاتون کے ساتھ مار پیٹ کرتے تھے، اس ظلم سے بچنے کے لئے بچی کو پولیس سٹیشن میں پناہ لینی پڑی- پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عورتوں پر تشدد، ان کا استحصال قبائلی رواج کا حصّہ سمجھا جاتا ہے- ان رواج میں گھریلو تشدد سے لے کر، جبری و کم عمری کی شادی، کارو کاری اور ریپ تک کے تمام جرائم شامل ہیں-

اس سے پہلے کہ آپ قبائلی رسم و رواج پر انگلیاں اٹھائیں آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ خواتین پر گھریلو تشدد اور دیگر جرائم صرف پاکستان کے قبائلی یا دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں، شہری علاقوں میں بھی خواتین کی اکثریت ان جرائم خصوصاً گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہیں-

افسوسناک بات یہ ہے کہ سماجی دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنا پر خواتین اس رویے کو برداشت کرتی ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھانے سے گھبراتی ہیں- اکثر ہمارے معاشرے میں ایسے معاملات کو ذاتی مسئلہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے (جس کا مطلب صرف اور صرف ایک مرد کا ذاتی مسئلہ ہے)-

اس کی ایک وجہ لوگوں کی طرف سے اس عمل کو جائز قرار دینا ہے ایسے افراد کے نزدیک عورت، مرد کی جائداد ہے اور اس سے کمتر درجہ رکھتی ہے چناچہ اس کے ساتھ کسی قسم کا سلوک روا رکھنا مرد کا پیدائشی حق ہے-

ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز کی ریسرچ کے مطابق اکثریت کے نزدیک مختلف حالات میں عورتوں خصوصاً بیویوں پر تشدد جائز ہے اور ساتھ ہی یہ کہ اس حوالے سے خواتین کو معاملات عدالت تک لیجانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے خاندان کا نام 'بدنام' ہوتا ہے-

اس طرح کی صورتحال میں خواتین کے گھر والے بھی انکو سپورٹ نہیں کرتے اور ان پر سمجھوتہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں یوں میکے کی طرف سے تنہا رہ جانے والی یہ عورتیں بدتر حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں- اس طرح کے کیسز مڈل کلاس میں زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں-

دوسری وجہ کسی قسم کے مؤثر قانون کا فقدان ہے- ملک کی کم و بیش نوے فیصد خواتین مختلف اقسام کے گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں اس کے باوجود اس حوالے سے کوئی مؤثر قانون ترتیب نہیں دیا گیا- اور اگر کوئی قانون موجود بھی ہے تو اس کا بھرپور اطلاق آج تک نہیں ہوسکا-

پاکستان میں اگر ایک قانون کسی طور عورت کو تحفظ فراہم کر رہا ہے تو دوسری طرف کوئی اور قانون پہلے کو غیر مؤثر کردیتا ہے- کاروکاری اور قتل کے کیسز میں اکثر مجرم قصاص کے ذریعہ سزا سے بچ جاتے ہیں- ریپ کیسز کا بھی یہی حال ہے- ایسے کیسز میں عدالت کا جانبدارانہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا ہے- یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ریپ جرائم پر سزا کی شرح صفر ہے-

اس کے علاوہ ملک میں خواتین کو معاشی استحکام میسر نہ ہونا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے- اکثریت لڑکیوں کے والدین انکی شادی دوران تعلیم یا تعلیم ختم ہونے کے فوراً بعد کردیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو کیریئر بنانے کے لئے استعمال نہیں کرپاتیں اور اپنی مالی اعانت کے لئے شوہر کی محتاج رہتی ہیں. بچّے ہوجانے کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے-

پاکستان میں خصوصاً مڈل کلاس طبقے میں یہ عام تاثر ہے کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم اس لئے دلائی جاۓ تاکہ ان کے لئے اچھے رشتے آسکیں چناچہ لڑکی تعلیم مکمل کر سکے یا نہیں، یا اس تعلیم کو بروۓ کار لاسکے یا نہیں اس پر بحث بیکار ہے-

اب سوچنے کی بات ہے کہ ایسی ریاست جہاں ستر سے نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد اور مختلف نوعیت کے دیگر جرائم کا شکار ہوتی ہیں وہاں انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے کسی قسم کی قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی یا موجودہ قوانین کو مزید مؤثر اور عدالتوں کو فعال کیوں نہیں بنایا جاتا؟

گزشتہ سالوں میں پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں کئی گنا تیزی آئی ہے- ایسے حالات میں عورتیں پاکستان کی ایک ایسی نئی اقلیت بن گئی ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں-

خواتین کے خلاف مختلف جرائم کے سدباب کے لئے؛

  1. مؤثر قانون کے اطلاق، فعال اور غیرجانبدار عدالتوں کے کردار کو لازمی بنایا جاۓ-

  2. لڑکیوں کو اپنے حقوق کے حوالے سے ایجوکیٹ کیا جاۓ، اپنے خلاف ہونے والے جرائم کے نتیجے میں ان کے پاس کیا آپشن ہیں اور ان آپشنز کو استعمال کرنے کے لئے ان میں اعتماد پیدا کیا جاۓ

  3. خواتین کی خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جاۓ-

  4. تعلیمی نصاب میں ترمیم کر کے ایسے اسباق ختم کیے جائیں جن سے جنسی تفریق کا تصور ملتا ہے-

  5. زیادتی کا شکار خواتین کے لئے ایسے سیل قائم کیے جائیں جو بروقت انہیں پناہ، قانونی تعاون، طبّی و معاشی امداد مہیا کر سکیں-

ملک میں ایسی پرائیویٹ آرگنائزیشن موجود ہیں جو استحصال کی شکار خواتین کی امداد کرتی ہیں مگر حکومتی سطح پر ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی-

گھریلو سطح پر بھی ضروری ہے کہ والدین خصوصاً مائیں اولاد کے درمیان تفریق کو ختم کریں- بیٹا اور بیٹی کو یکساں تعلیمی، تفریحی اور کیریئر کے مواقع دیں- بیٹیوں میں اپنی زندگی کے حوالے سے فیصلے کرنے کا اعتماد پیدا کریں اور بیٹوں کو صنف نازک کا احترام اور انکی مساوی حیثیت تسلیم کرنے کی تربیت دیں- یاد رکھیں کہ ایک خاندان ہی معاشرے کی اکائی ہے اگر یہ اکائی اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرے گی تو معاشرہ تباہی کے گڑھے میں مزید گرتا چلا جاۓ گا-

خواتین پر تشدد یا دیگر جرائم ہرگز پاکستانی کلچر کا حصّہ نہیں ہیں اس کے باوجود گزشتہ سالوں کے دوران یہ ایک رجحان بن گیا ہے- اپنے جرائم کو جائز قرار دینے کے لئے ایسے لوگ مذہبی توجیحات اور اخلاقی عذر کا استعمال کرتے ہیں-

میں جانتی ہوں آپ میں سے بہت سے لوگ دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیں گے جہاں سے خواتین کے خلاف جرائم کی اکثر خبریں ملتی رہتی ہیں لیکن یہاں میں آپ کی خدمت میں یہ بھی گوش گزار کردوں کہ یہ ممالک 'اسلام کا قلعہ' ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے-

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

آشیان علی Jul 25, 2014 03:39pm
ناہید جی گھریلو تشدد کی صورت حال آپ کی بیان کردہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے. اصل مسلہ یہ ہے کہ اس کو مسلہ سمجھا ہی نہیں جاتا. یہ مسلہ قانون کی کمزوری یا فلاحی تنظیموں کی عدم توجہ کی وجہ پیدا نہیں ہوا. بلکہ 1980 کے بعدپاکستانی معاشرے میں مذہب کی مخصوس تعلیم، نصابی کتب میں مھاشرے کی تخلیق کے بجائے جہادی کلچر پیدا کرنے کی سعی کے نتیجے میں ہے. اس کا خاتمہ ممکن ہے اگر اس کے خاتمہ کے ساتھ مذہب کے کاروبار سے وابستہ افراد کا مالی فائدہ منسلک کر دیا جائے. پھر دیکھیں دنوں میں گوادر سے گلگت تک گھریلو تشدد کا وجودختم ہو جائے گا .
Naheed Israr Jul 25, 2014 11:24pm
@آشیان علی: mere dost aap ki baat bilkul durust hey, qanoon saazi na hone ki ek waja ye bhi hey k isey kabhi masla naih samjha gaya, or na hi mazhab k thekedaaron ko is se koi ghrz hey kyun ke is se unki kamaai nahi bnti, ulta yahi hazraat aisi harkaton ki hosla afzai krte hein. child marriage ka issue humaare saamne hey
Abdul Hafeez Memon Jul 26, 2014 01:55pm
Dear Ms. Naheed, Excellent Article on the most critical of problem of our social life. Keep it up. I agree with Ashyan as well, after all that one of the reason is high illiteracy rate as well. Thank you.
Abid Mir Jul 27, 2014 01:16am
میرے خیال میں بلوچستان میں جعفرگڑھ کے نام سے کوئی ضلع نہیں، یہ جعفرآباد ہے، بلوچستان کا فیوڈل زرعی علاقہ۔ جو کاروکاری میں پاکستان کے اکثر ٹاپ اضلاع میں رہتا ہے۔ وہی ضلع جہاں سے ایک آمر کو باس کہنے والے ظفراللہ جمالی ایک ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوئے، اور جہاں کے سیاسی خانوادوں کو ہمیشہ ریاست کی مکمل سرپرستی حاصل رہی ہے۔