میری بیٹی اور کائنات

05 اگست 2014
اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ بچی احمدی ماں باپ کی ہے، تب بھی انکا رویہ دوستانہ ہوتا؟ کیا وہ اسے زندہ رہنے دیتے یا .... ؟ -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ بچی احمدی ماں باپ کی ہے، تب بھی انکا رویہ دوستانہ ہوتا؟ کیا وہ اسے زندہ رہنے دیتے یا .... ؟ -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

وہ ان چند گنے چنے دنوں میں سے تھا جب سورج کی تیز روشنی کے ساتھ ساتھ ایک خنکی مائل باد نسیم بھی چہار سو پھیل جاتی ہے۔

آسمان سمندر کی طرح گہرا نیلا تھا، درخت اس سے پہلے کبھی اتنے سر سبز و شاداب محسوس نہیں ہوئے تھے۔ موسم گرما کی آمد آمد تھی، جس کے آنے سے تمام خوبصورتی جھلستی ہوئی لگتی ہے، لیکن اس سے ان لمحات کی شگفتگی پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا۔

میں اور میرے گھر والے ہفتہ وار تعطیلات گزارنے اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھے۔

بھیرہ کے مقام پر ہم سی این جی بھروانے کے لئے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار میں پھنس گئے، لیکن اس امید پر کے جلد ہی چار روزہ چھٹیاں اور گیس کا ایک بھرا ہوا سلنڈر ہمارا ہوگا۔

میری اہلیہ اور بیٹا ریسٹ ایریا کی جانب بڑھ گئے، ان وجوہات کی بنا پر جو چھوٹے بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ میری بیٹی نے سامنے والی سیٹ کے خالی ہوتے ہی موقع کا فائدہ اٹھایا، اور آگے آ کر اپنے ابّو کے ساتھ بیٹھ گئی۔ وہ اس وقت تقریباً ایک سال کی تھی۔

آگے آتے ہی اس نے گئیر سٹک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، جس پر میں نے اسکو منع کیا۔ گئیر سٹک کے بعد اسکی توجہ گلووز باکس پر مرکوز ہوگئی۔ میں نے اپنے زیر نظر اسکو گلووز باکس سے کھیلنے دیا۔

ہمارے آگے ایک سوزوکی مہران گاڑی کھڑی تھی۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ لوگوں کا بوجھ برداشت کئے ہوئے تھی. سی این جی کی قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی، کہ اچانک اگلی گاڑی کے دروازے کھلے، اور 6 مولوی حضرات گاڑی سے برآمد ہوئے۔

ان سب نے جی بھر کے انگڑائیاں لینی شروع کر دیں۔ ان میں سے ایک نے میری بیٹی کو دیکھا اور مسکرایا۔ میری بیٹی بھی جواباً مسکرائی، اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

پھر وہ میری جانب مڑی، اور پھر اسی دوستانہ چہرے کی جانب دیکھ کر وہ ایک بار پھر کھلکھلا اٹھی۔

میں نے بھی گردن کی جنبش سے ان صاحب کی خوش مزاجی کا جواب دیا۔ ایسے عارضی اور کم دورانئے کے تعلقات انسانی سرشت کا حصہ ہیں، ان کچھ مسکراہٹوں کے تبادلوں کے بعد یہ تعلق بھی ختم ہوگیا۔

پھر اچانک میرے ذہن کی گہرائیوں سے ایک خیال اٹھا۔

"اگر ان صاحب کو معلوم ہوتا کہ یہ بچی احمدی ماں باپ کی ہے، کیا تب بھی انکا رویہ ایسا ہی دوستانہ ہوتا؟"

کیا انکے چہرے کے تاثرات مسکراہٹ کے بجائے شدید غصّے میں بدل جاتے؟

کیا انھیں اسکی معصوم آنکھوں میں ارتداد کی جھلک نظر آتی؟

کیا پیار اور ہم دلی کے احساسات نفرت سے بدل جاتے؟ کیا وہ اسے زندہ رہنے دیتے یا اسے مرتے دیکھنا چاہتے؟

میں بذات خود کبھی گوجرانوالہ نہیں گیا۔ لیکن جتنا میں جانتا ہوں، اس کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا، پر زندہ دل شہر ہے، جہاں پہلوان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ گوجرانوالہ ایک طرح سے پاکستان کا غذائی دار الحکومت بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ بٹیر کھانے یا قدیم طرز کی کشتی دیکھنے ضرور جانا چاہیں گے۔

لیکن 28 اور 29 رمضان کی درمیانی رات یہ شہر ایک بھیانک المیے کا شاہد بنا۔

یہ سب تب شروع ہوا، جب ایک احمدی نوجوان پر خانہ کعبہ کی توہین آمیز تصویر فیس بک پر شائع کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس لڑکے کا الزامات کی حقانیت سے انکار عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی ثابت نہیں ہوا، اور اس لڑکے سے انتقام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

لوگ جمع ہونے شروع ہوئے۔

مقامی تاجر تنظیموں نے تمام قریبی دکانوں کو کاروبار جلدی بند کر دینے یا نتائج بھگتنے کا عندیہ دے دیا تھا۔

لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، اور آخر کار مشتعل افراد نے اس احمدی بستی پر دھاوا بول دیا، جس سے وہ لڑکا تعلق رکھتا تھا۔

پھر اچانک مظاہرین کی کرخت آوازوں کے ساتھ ایک آگ جل اٹھی۔

پھر ایک اور، پھر ایک اور۔

چند ہی لمحوں میں متعدد احمدی گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ آگ لگانے والے مظاہرین جلتے گھروں کو دیکھ کر خوشی سے ناچتے رہے، جبکہ پولیس خاموش تماشائی کی طرح دور کھڑی یہ تمام منظر دیکھتی رہی۔

مشتعل غول اب صرف آتش باز نہیں، بلکہ ایک قاتل بھی بن چکا تھا، انکی لگائی ہوئی آگ میں 3 معصوم جانیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے اقدامات کے نتائج پر خوشی سے رقص کرتے رہے۔

ایک دن بعد میں نے آٹھ ماہ کی کائنات کے جنازے میں شرکت کی۔ کائنات عوامی جذبات کا نشانہ بننے والے تینوں افراد میں سب سے کم عمرتھی۔ اسکو اس کی سات سالہ بہن اور دادی کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی آخری آرام گاہوں کے ساتھ ان دوسرے احمدیوں کی قبریں تھیں، جن سے ان کی زندگیاں ایسی ہی بے بےرحمی سے چھین لی گئیں تھیں۔

آٹھ ماہ کا عرصہ وہ عرصہ ہے، جس میں ایک بچے کی پیدائش کا عمل بھی مکمل نہیں ہوتا۔ اتنی عمر میں کائنات صرف اپنی ماں کی کوکھ سے ہی واقف تھی۔

خود غرضوں کی طرح میں نے اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ وہ تمام امیدیں، وہ تمام خواب جو میں نے اپنے بچوں کے بارے میں دیکھ رکھے تھے۔ کیسے میں نے ان کا خیال رکھنے میں کوتاہی برتی تھی، اور کیسے میں گھر جاتے ہی انھیں گلے سے لگا لینے والا تھا۔

پھر مجھے کائنات کی والدہ کا خیال آیا، جن کے پاس عید سے صرف ایک دن پہلے کوئی بیٹی نہ تھی جسے وہ کپڑے پہنا کر عید کے لئے تیار کرتیں۔

نہ بالوں کی وہ لٹیں جن کو سنوارا جائے، نہ وہ ہاتھ جن پر مہندی سجائی جائے۔

اپنے تمام تنہائی کے لمحات میں وہ یہ سب باتیں ایک کرب کے ساتھ یاد کرینگی. شاید اپنی معصوم بچوں کے کبھی نہ آنے والے مستقبل، انکے عروسی جوڑوں، اور دیگر خوشیوں کو سوچتے ہوئے سرگوشیوں میں ان سے باتیں کریں گی۔

ایک گرم آنسو میری آنکھ کی قید سے آزاد ہو کر گال پر بہہ گیا اور نہ صرف میں، بلکے میرے آس پاس موجود تمام افراد کی کم و بیش یہی حالت تھی۔

تمام لوگ غم و اندوہ سے نڈھال تھے

کائنات جا چکی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پوری کائنات اس کے ساتھ جا چکی ہے۔ کسی کے پاس اب اس لاوارث جگہ پر رہنے کے لئے کیا وجہ باقی رہی ہے۔

ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، میں اب یہ جان چکا تھا۔

کیونکہ ہم سبھی مردہ ہو چکے ہیں. مجھے جواب مل چکا ہے۔

کاش کہ مجھے جواب نہ ملا ہوتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

umair Aug 05, 2014 06:29pm
hmara sb se bara al;miya adm brdasht ka tezi se madoom hona he.or mazhab k muamale main tu hm itne intiha p chale jate hain k islam ki asl taleemat yksr framosh kr baithte hain. Har zeshoor musilman is sanihe p utna he dukhi he jitna aik ahmdy brodry.Allah hm sb main rwadari ka jzba aam frmaye aamin.
umair Aug 05, 2014 06:33pm
oor hm sb waqai murda hu chuke hain or aik aise murda muashare main tbdeel hain jahan insaniyet apna munh chupai phir rahi he
Imran Ahmad Aug 05, 2014 06:57pm
ناقابل بیان اذیت۔
لئیق احمد Aug 06, 2014 06:39am
اللہ تعالیٰ آپکی اور تمام کائناتوںں کو ایسے درندوں سے ہمیشہ محفوظ رکھیں. ان کا حساب تواب اسی زات باری کے پاس ھے. جس نے ھو سکتا ھے اسی دنیا میں میں کرنا ھے یا اگلی میں. مگر یہ یقین کامل ھے ھونا ضرور ھے. اسی طرع کی درندگی غزہ اور کشمیر میں جاری ھے.
qalam Aug 06, 2014 12:01pm
There is no words to say.This is dead society.In the early Islam Muslim give life for Islam and now these so celled Muslim take other,s life on the name of Islam.They are enemies of Islam.
adnan Aug 06, 2014 07:30pm
Dear asa Jazbati kalum bhi Ehmdiooon k bary ma koi naram gosha pada nai kr sky ga ek insan ka qatil pori insaniat ma katil u r right but ek mazhab (wh bhu islam) ma Naqab lagany waly ko app kia kahain gy I think best wors ia MUNAFIQ whos place is the deepest place in Jhanam
Rabbani Aug 07, 2014 09:09am
@adnan: بالفرض آپ کی بات درس بھی مان لی جائے تو اس میں آٹھ ماہ کی بچی کا کیا قصور ہے عدنان صاحب جب غزوات میں بچوں کو مارنا صحابہ کو منع کیا گیا تھا اور حضورﷺ نے ایک جنگ میں ایک بچے کو قتل ہوتے دیکھا تو کیا آپﷺ خوش ہوئے تھے کچھ خوف ۔خدا کریں معصوم جانوں کا کیا ْ قصور کیا انسانیت بھی ختم ہو گئی ہے۔
Renu Aug 07, 2014 12:11pm
It is one sided story so comments cannot be fair the publisher should also print the story of other side as well so people can make their decision if it was right or not, however killing an infant is a cruel act and no support for this but it would not have happened if people had trust on the Govt. and court of law.
Rabbani Aug 07, 2014 12:53pm
@Renu: i t really does not matter what the other side of the story turns out to be ;killing of an infant cannot be justified in any court of law. No religion in the world can agree to it lest Islam, which is a religion of peace . To call an eight months old girl a "munafiq" is absurd and ludicrous.