مسلم لیگ نواز کا پہلا بجٹ

شائع June 13, 2013

نیشنل اسمبلی آف پاکستان -- فائل  فوٹو
نیشنل اسمبلی آف پاکستان -- فائل فوٹو

ویسے تو شائد ہی کسی کو امید ہوگی کہ اس بار بجٹ ان کیلئے کوئی " نوید " لیکر آئیگا- ہمارا "تاریخی" ماضی توبقول شخصے بڑا "شاندار" ہے لیکن "ورثے" میں ہمیں ہمیشہ بدحال معیشت ہی ملی اور اس بار تو ایسا "بدترین" ورثہ کہ ناکوں چنے چبوا گیا-

توآج جو بجٹ تقریرہم نے سنی کیا پہلے سے مختلف تھی؟ اگر تھی تو کس طرح؟ کیا بجٹ میں"کچھ نیا" تھا؟ عوام کو کوئی ریلیف دیا گیا تو اسکی نوعیت کیا تھی؟ اگر انھیں کچھ دیا گیا تو کیا اس لئے کہ ان کے "حق" کو تسلیم کیا گیا تھا؟ یا پھر انھیں خیرات ملی- لیپ ٹاپ تقسیم کئے جائینگے، پچیس سال سے کم عمرنوجوانوں کو ایک سال تک دس ہزار روپیہ ماہانہ کا الاؤنس دیا جائیگا، بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم، جو پہلے ایک ہزار روپے ماہانہ تھی، اب بارہ سو روپے ماہانہ کردی گئی- اورغالبا اس اسکیم کا نام بھی تبدیل کردیا گیا- اوراسے تعمیروطن اسکیم کا نام دیا جائیگا- اس اسکیم سے "تعمیر وطن" کس طرح ہوگی؟ یہ بات غور طلب ہے!

بجٹ تقریر کے دوران ہم نے ایک "شاندار اعلان" بھی سنا، جس پر خوب ڈیسک بھی بجائے گئے- یہ کہ توانائی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے گردشی قرضے ساٹھ دنوں میں ختم کردئے جائینگے- اس پر ایک سابقہ وزیر کو ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے بھی سنا گیا کہ ہم نے گردشی قرضے دو مرتبہ ختم کر دئے تھے- لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے- عوام کو آم کھا نے سے مطلب ہے، پیڑ گننے سے نہیں-

کیا ساٹھ دنوں بعد لوڈشیڈنگ بالکل ختم ہو جائیگی؟ قابل لحاظ حد تک ختم ہوجائیگی؟ بہت زیادہ تو نہیں تھوڑی سی کم ہوجائیگی؟ پہلے ساٹھ دن تو ختم ہولیں پھرپتہ چل ہی جائیگا- پی پی پی کی حکومت کے آئے دن کے وعدوں اور ان وعدوں کی خلاف ورزیوں نے اب ن لیگ کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ کوئی ٹائم فریم دینا نہیں چاہتے- رہ گئے عوام تو وہ "گردشی قرضوں" کو کیا جانیں- سو وہ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آخر ہم کب تک اسی طرح "گردشوں" کا شکار رہینگے؟

ویسے تو اپوزیشن کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ حکومت وقت پرتنقیدی نظر رکھیں- چنانچہ مین اسٹریم کی تینوں پارٹیوں نے بجٹ کو عوام دشمن کہہ کر مسترد کر دیا- پی ٹی آئی کی "سونامی" کو ایم کیو ایم لے اڑی- ان کی جانب سے کہا گیا کہ مہنگائی کا "سونامی" آئیگا-

نون لیگ کو بزنس فرینڈلی سمجھا جاتا ہے- لیکن کاروباری طبقہ بھی ناخوش ہے کہ انھیں توقعات کے مطابق چھوٹ نہیں ملی- چھوٹے صنعت کار بھی ناخوش ہیں کہ ان کی حوصلہ افزائی کے اقدامات نظر نہیں آتے- حالانکہ چھوٹی صنعتیں ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں- بنگلہ دیش میں ہم اس کا کامیاب تجربہ دیکھ چکے ہیں- اس بار استنبول میں اپنے قیام کے دوران وہاں کی گھریلو صنعت کی اشیاء کی بازاروں میں فراوانی دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی- ہاتھ سے پینٹ کئے ہوئے خوبصورت برتن، مجسمے، آرائشی پلیٹیں، کی چینز، نقلی زیورات اور انواع و اقسام کی بے شماراشیاء، جنھیں سیاح یادگار کے طور پر ہاتھوں ہاتھ خریدتے ہیں اور اپنے ساتھ لے جاتے ہیں- ہمارے ملک میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص کوشش اس سمت میں نظر نہیں آتی البتہ این جی اوز اس سلسلہ میں تھوڑا بہت کام کر رہی ہیں-

ماہرین معاشیات گو کہ بارہا توجہ دلا چکے ہیں کہ جب تک ہم اپنے ٹیکس نیٹ ورک میں توسیع اور اصلاح نہیں کرینگے، ہمارے وسائل آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں- لیکن ہمارے ملک کا انتخابی ڈھانچہ کچھ اس نوعیت کا بن گیا ہے کہ سیاسی مصلحت کے پیش نظرجیتنے والی پارٹی، ان لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ڈرتی ہے جن کے بل بوتے پر وہ انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے-

پچھلے سال امریکہ میں انتخابات ہوئے تواصل مسئلہ تھا "ٹیکس" کا- ڈیموکریٹک پارٹی متوسط طبقے کی نمائندہ تھی اور ریپبلیکن پارٹی کو وہ ٹیپ ریکارڈنگ لے ڈوبی جس میں رومنی نے متوسط طبقے کا ذکر حقارت سے کیا تھا- پھر دوسرا مسئلہ تھا "صحت" کا- اوباما کی کامیابی کی وجہ صحت کے بارے میں اس کا منصوبہ تھا جس کا ایک عام انسان سے براہ راست تعلق ہے جسکا ذکر آج "اوباما کئیر" کے نام سے ہی ہوتا ہے- ہمارے یہاں تو"صحت" کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں-

تو پھر اس بجٹ سے خوش کون ہے؟

کیا وہ عوام جو اب سولہ فیصد کے بجائے سترہ فیصد ٹیکس دینگے؟ سیلز ٹیکس میں بھی جو بدعنوانی ہوتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں تو حکومت کو اس سے کس حد تک فائدہ پہنچےگا یہ تو وہی بتا سکتی ہے- سرکاری ملازمین کو لیں تو وہ بھی ناخوش ہیں کہ انکی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا- ویسے سچ پوچھیں اور عام لوگوں سے پوچھیں (سرکاری ملازمین سے نہیں) تو وہ یہی کہیں گے کہ بھائی آپ کام ہی کتنا کرتے ہیں اور آخر کب؟

بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوگا تو نتیجتاً ہر چیز کی قیمت بڑھ جائیگی- کھانے پینے کی تمام اشیاء مہنگی ہوجائینگی- ہاں، فی الحال تو رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے- یوٹیلیٹی اسٹور کا رخ کیجئے "سستی" چیزیں مل جائینگی- تو دل میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ رمضان شریف آتے ہیں توجاتے کیوں ہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کچھ روز "رک" جائیں، کم از کم عام آدمی کے خیال سے-

زراعت کا شعبہ اس بار پھر ٹیکسوں کے حملوں سے محفوظ رہا ویسے تو ہم زمیندار نہیں کہ اس خبر سے ہماری باچھیں کھل جائیں- صنعت کار تو خیر کہیں سے نہیں، ہم تو سیدھے سادے تنخواہ دار لوگ ہیں جو تنخواہ لینے سے پہلے ہی ٹیکس دہندہ بن جاتے ہیں- جن سے بے تکلف دوست پوچھ بیٹھتے ہیں بھائی "کیری ہوم" کیا ہے؟

بجٹ تقریر آدھی ہی سن پائے تھے کہ لوڈ شیڈنگ کا "شکار" ہوگئے- کچھ چینلوں کے تجزیہ کاروں سے پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ مزید کیا ہونے والا ہے- باقی اخباروں میں پڑھیں گے- اور سونچینگے اگر پانچ سال جھیل گئے تو آگے کیا ہوگا؟

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashan Kashif Jun 14, 2013 06:25am
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، ہم سب پاکستانی پاکستان کو پھلتا پھولتا تو دیکھنا چاہتے ہیں پھر اپنی جیب سے ایک دھیلا اس ملک کے لیے دینا نہیں‌چاہتے. جہاں اس بجٹ سے مایوسی کی خبریں گردش کر رہی ہیں وہی چند اچھی چیزیں بھی ہیں لیکن ہمارا ابلاغ کہاں اُن کو نمایاں کرے گا کیوں کہ جو بکتا ہے وہی دکھتا ہے. تنقید ہی گورنمنٹ پر کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی.کاش پی ایم ایل ن میں بھی پی پی پی جیسا حوصلہ ہو...

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025