ایک گھریلوجھگڑا

23 اگست 2014
لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔
لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔

یہ سب کچھ بس ایک گھریلوجھگڑا ہے- دونوں فریقین کی ان کہانیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ وہ مظلوم ہیں، قانون کے دائرے میں کام کررہے ہیں، انھوں نے قربانیاں دی ہیں، اسکی حیثیت ایک گھریلو جھگڑے سے زیادہ نہیں ہے جس میں بہت زیادہ غل غپاڑہ مچایا جارہا ہے- اور اس جھگڑے میں شمال اور وسطی پنجاب کی سیاسی اشرافیہ، اور جنوب کی چند علامتی شخصیات اور اس کے اراکین حصہ لے رہے ہیں-

پہلے اسکی وجوہات کا ذکر ہوجائے---دو مارچ ہورہے ہیں،دو مختلف قسم کے مبہم دعووں کی فہرست پیش کی جارہی ہے اور دو انقلابی ہیں جو اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں- تاہم، کینیڈا سے تشریف لانے والے صاحب کا علیحدہ تجزیہ کرنا مناسب ہوگا- میں نہ تو ان کی بیباکی کے ساتھ انصاف کرسکتا ہوں، نہ ہی ان کے مفسدانہ مقاصد کی وضاحت کرسکتا ہوں جس کے نتیجے میں ہم ایک عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہیں- بعض چیزوں اور بعض لوگوں کو کسی اور وقت کے لئے (یا کسی دوسرے سیاروں) کے لئے چھوڑ دیا جانا چاہیئے-

دوسری جانب پی ٹی آئی، ایک حقیقت ہے، جسکی طرف توجہ دینا ضروری ہے- گزشتہ ہفتہ کے واقعات کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ، گزشتہ انتخابات میں ناکامیوں کے باوجود پارٹی نے پنجاب کی سیاسی معیشت میں اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے- اسکا اندازہ ہجوم کے سائز، اس میں شریک لوگوں کے تنوع اور لانگ مارچ میں خرچ ہونیوالے پیسہ کی مقدار سے لگایا جاسکتا ہے-

ایک اور بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ پی ایم ایل-ن کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت جوسخت جھگڑا ہورہا ہے، اب جبکہ میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، فضاء میں بڑی تلخی اور عدم استحکام موجود ہے، اور اس کے تانے بانے ایک مصنوعی تقسیم کے گرد بنے گئے ہیں- دونوں پارٹیوں میں جو فرق ہے----اگرچہ دونوں اپنے کو ایک دوسرے سے مختلف ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں----اب اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ پنجاب کے شہری سیاستدانوں کے دونوں گروپوں کے درمیان، جس کی نمائندگی دو شخصیات کررہی ہیں، کسی ایک کاانتخاب کیا جائے اور دونوں کی یہ کوشش ہے کہ ایک صوبہ کو، جس کا پلڑا بھاری ہے، کنٹرول کریں-

آئیے تاریخ پر نظر ڈالیں: پاکستان مسلم لیگ کو آج جو زندگی ملی ہے وہ 80 کی دہائیوں میں پی پی پی کے متبادل کے طور پرشہری پنجاب میں بنائی گئی- صوبے میں ایک مختصر سی مدت کے لئے بیحد مقبول بھی ہوئی اور مختلف اسباب کی بناء پر یہ منظم بھی تھی----- اسکی ایک اور وجہ ایک قانونی ضرورت تھی کہ دائیں بازو کی آواز پیدا ہو جو وردی میں نہ ہو، اور دوسری وجہ اس زخم کو مندمل کرنا تھا جو زیڈ-اے-بھٹو کے سماجی-معاشی ایجنڈے کے نتیجے میں لگا تھا-

تاہم، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، جیسے جیسے پنجاب میں شہری آبادی بڑھتی گئی اور اس نے ترقی کی، اس کی سیاسی اشرافیہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا مشکل ہوگیا--سب کے سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی حرص میں مبتلا ہوگئے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں تھا- کچھ نے یہ محسوس کیا کہ انھیں اقتدار سے مکمل طور پر باہر کردیا گیا ہے، کچھ نے یہ محسوس کیا کہ انھیں وہ کچھ نہیں ملا جو وہ چاہتے تھے- بہت سے کبھی نہ کبھی اقتدار کے مزے چکھ چکے تھے- ان دراڑوں نے---- جو جزوی طور پرفوج نے پیدا کیے تھے، اور بعض بجائے خود ابھر رہے تھے اور خود کو نقصان پہنچا رہے تھے ------ مختلف وفاداریوں اور جانشینوں کے علیحدہ علیحدہ گروہ پیدا کئے- یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن میں واضح فرق نظر آتا ہے گرچہ دونوں کی حقیقی اور مادی جڑیں ایک ہیں-

نسلی طور پر ان کا مقابلہ کیا جائے---تو دونوں کی مرکزی قیادت اور ان کے رائےدہندگان کا مرکزی حصہ ان شہری اضلاع سے تعلق رکھتا ہے جو پنجاب میں جی ٹی روڈ اور ایم-2 روڈ کے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں- ان میں کوئی طبقاتی فرق بھی نہیں ہے- دونوں کی رہنمائی اور مالیاتی مصارف دولتمند(اور خوشحال)، قدامت پسند درمیانی طبقہ کے انٹیلیکچوئلز کررہے ہیں، اور انھیں غریب اور کچلے ہوئے عوام نے ووٹ دیا ہے- نظریاتی طور پر بھی، دونوں ہی نیو-لبرلزم کی مختلف شکلوں کی حمایت کرتے ہیں جنھیں عام طور پر پسند کیا جاتا ہے--- ایک تو ترقی اور اچھی حکمرانی کے تیز و تند کاک ٹیل کے وعدے کررہا ہے جس میں اچھی کارکردگی کا مصالحہ ملایا گیا ہے اور انصاف کی آمیزش کی گئی ہے-

لیکن شاید کوئی اور چیز انھیں ایک دوسرے کے اتنے قریب تر نہیں کرتی جتنا یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی پاکستان کو ایک وفاقی جمہوریہ کی نظر سے نہیں دیکھتا---جو شمال میں اٹک سے آگے اور جنوب میں رحیم یار خاں سے آگے ہے- حکمراں پارٹی کو اگرچہ تیسری مرتبہ اسلام آباد میں اقتدار ملا ہے، خود کو اندرونی طور پر منظم کرنے میں بہت کم دلچسپی لی ہے اور دوسرے صوبوں میں بھی خود کو پھیلانے کی کوشش نہیں کی- بلوچستان میں ان کی تنظیم ایک با اثر قبیلہ کے سردار اور ان کے خاندان پر مشتمل ہے- سندھ میں چند بے اثر شخصیات، اور کے پی میں، ہندکو بولنے والے ایک ڈویژن کی اشرافیہ پر مشتمل ہے جسے اقتدار سے محروم کردیا گیا ہے- ریاست کے ساتھ اس کے تعلقات میں آج بھی بے یقینی اور خودپسندی بھری ہے اور وفاق کے ساتھ ان کے تعلقات آج بھی، برسہا برس گزرنے کے باوجود، سرپرستی اور سردمہری کے درمیان جھول رہے ہیں-

پی ٹی آئی اس سوچ کے ساتھ کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائے، بدلے کی سیاست اختیار کرتی ہوئے بار بار یہ کہتی ہے کہ وہ ایک چھوٹے صوبے میں اپنی حکومت کو قربان کرنے کے لئے تیار ہےتاکہ اسے پنجاب کے مرکز میں اقتدار مل جائے- ایک آفت زدہ صوبہ میں ایک تھکی ہوئی، تشدد کی شکار آبادی سے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اسکی رشک آمیز نظریں لاہور پر گڑی ہیں-اور اگرچہ پشاور میں زندگی سیلاب اور موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے درہم برہم ہوگئی تھی، ان کا چیف منسٹر یہ سوچ رہا تھا کہ ان انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کیا جائے جس کے نتیجے میں وہ منتخب ہوئے تھے-

اسکی ایک سیدھی سادھی وجہ قومی انتخابات میں پنجاب کا حصہ ہے- آپ کو اقتدار اسی وقت مل سکتا ہے جب آپ پنجاب کے نو انتظامی ڈویژنوں میں سے سات میں کامیاب ہوں- لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ، یہ سفاک اعداد وشمار جن نتائج کو جنم دیتے اور انھیں قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں وہ ایک ایسا سیاسی کلچر ہے جو صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے اور دوسروں سے بالکل لاتعلق رہتا ہے، اور بار بار خود جمہوریت کے کمزور ڈھانچے کو گرانے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے- پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن، دونوں ہی، حالیہ ماضی میں مختلف وقتوں میں اس لاتعلقی اور استحقاق کے کلچر کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے ہیں-

سو ہم نے گزشتہ ہفتہ جو کچھ دیکھا وہ پنجاب کا طویل اور بھونڈا سیاسی سوپ آپیرا تھا- پی ایم ایل-ن کی جانب سے ٹھگوں اور ریاستی مشنری کا استعمال، اور سیاسی حل ڈھونڈنے کی اسکی عدم صلاحیت نے اس سوپ کا آدھا پلاٹ فراہم کردیا، اور پی ٹی آئی کی اقتدار کی ہوس اور انتخابات میں ہونیوالے نقصان (وقتی) سے نمٹنے میں ناکامی نے رہی سہی کسر پوری کردی- افسوس اس بات کا ہے کہ یہ دونوں بے حسی سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، جسکی وجہ سے فوجی اسٹبلیشمنٹ حرکت میں آرہی ہے، جس میں یقینی طور پر نقصان کمزور جمہوریت، سیویلین بالا دستی اور وفاق کو پہنچے گا-

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں