افغانستان گندم برآمد کرنے کیلئے انڈیا نے راستہ مانگ لیا
ایک طرف جہاں ہندوستان پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے کئی ملین ٹن گندم کو افغانستان برآمد کرنے کی اجازت طلب کر رہا ہے، وہیں پاکستانی تاجروں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کے اس اقدام کا مقصد وفاقی وزارتوں پر ہر ممکن دباؤ ڈالنا ہے کیوںکہ صنعت کاروں کا خیال ہے کہ اس طرح ہندوستان کی سستی گندم انہیں افغانستان کی منڈیوں سے باہر دھکیل دے گی۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں نہ صرف پاکستان کے مقابلے میں کسانوں کو سبسڈی دی جاتی ہے، بلکہ ہندوستانی حکومت ایکسپورٹروں کو بھی ہر فی ٹن گندم پر 50 ڈالر کی اضافی سبسڈی دیتی ہے، جس کے باعث اس کی قیمت میں مزید کمی واقع ہو جاتی ہے۔
افغانستان میں فی ٹن ہندوستانی گندم کی قیمت پاکستانی روپوں میں 2900 ہوگی جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستانی گندم کی قیمت 3400 فی ٹن ہے۔
اس طرح پانچ سو روپوں کے فرق کے ساتھ ہندوستانی گندم کی افغانستان کی مارکیٹ میں برتری حاصل ہو جائے گی جس کی وجہ سے پاکستانی صنعت اپنی روایتی مارکیٹ کو کھو دے گی۔
تاجروں کا خیال ہے کہ ہندوستان کی سستی برآمدی مصنوعات پاکستان کی اس پوری صنعت کے بزنس سائیکل اور سابقہ ادائیگیوں کو متاثر کریں گی۔
ہندوستان کو گندم برآمد کرنے کی ممکنہ اجازت سے کسانوں کے پرانے خدشات نے بھی پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔
انڈین گندم میں کرنل برنٹ نامی بیماری پائی جاتی ہے اور اگر اس گندم کو پاکستانی زمینی راستے سے افغانستان بھیجنے کی اجازت دی گئی تو اس طرح اس بیماری کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔
اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ہندوستانی گندم میں پائی جانے والی یہ بیماری پاکستان منتقل ہو جائے گی اور یہاں کی گندم کو تباہ کردے گی، جس کی پوری دنیا میں مانگ ہے۔
تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ کسانوں نے کبھی بھی افغانستان کو گندم برآمد کرنے کے حوالے سے اعتراضات نہیں اٹھائے، تاہم ہندوستانی گندم کی پاکستان کے راستے ترسیل کے حوالے سے وہ ہمیشہ تحفظات کا شکار رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گندم کی صنعت نے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ اگرچہ حکومت ابھی تک اس معاملے پر خاموش ہے، لیکن آخر کب تک؟
پاکستان کو چاہیے کہ تجارت کے شعبے میں ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دے، خصوصاً خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ برآمدات کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں