لاہور کی جدت پسندی

04 نومبر 2014
موجودہ عہد کی جدت کو لاہور کے تناظر سے دیکھیں تو یہ اقتصادی بنیاد اور کھانے پینے کی شرح میں اضافے کے گرد گھومتی ہے۔
موجودہ عہد کی جدت کو لاہور کے تناظر سے دیکھیں تو یہ اقتصادی بنیاد اور کھانے پینے کی شرح میں اضافے کے گرد گھومتی ہے۔

ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد کے عظیم شہر کی حیثیت سے پھلنے پھولنے کے برعکس لاہور چند ایسے کرداروں کو دکھاتا ہے جنھیں پنجاب کے دیگر قصبوں میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے، یعنی نسلی طور پر ایک جیسی خصلت، سماجی طور پر قدامت پسند اور وقت گزرنے کے ساتھ استحقاق کے احساس کے پیچھے پناہ لیے ہوئے۔

شہر کے اندر ہر قسم کے اقدام پر خاص مردہ دلی کا سلسلہ جاری ہے جو کسی بھی فرد کے لیے دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے حجم کے شہر میں تلاش کرنا بہت مشکل ثابت ہوسکتاہے۔

ایک چیز جس میں تبدیلی آئی اور شدت سے ایسے افراد میں نمایاں ہوئی جو چپ رہ کر چیزوں کو جذب کرنے سے متحرک مبصرین کی ٹرانزیکشن کا حصہ بنے، جدت پسندی کی یہ رفتار ماضی کی نسل میں انتہائی نامقبول ہے اور وہ کہتے ہیں'لاہور حالیہ برسوں میں بہت زیادہ ماڈرن ہوگیا ہے'۔

کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ شہر کے پیرس سے متاثرہ حکمرانوں نے اس کی ترقی کے لیے کچھ بھی تو نہیں کیا۔

موجودہ عہد کی جدت کو لاہور کے تناظر سے دیکھیں تو یہ اقتصادی بنیاد اور کھانے پینے کی شرح میں اضافے کی رفتار کے گرد گھومتی ہے اور اس میں نسلی، مذہبی یا شہر کے مذہبی کردار کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے، صدیوں پہلے تجارتی قصبے کی حیثیت سے اہم سمجھے جانے والا یہ شہر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سروسز سیکٹر کی ترقی کی بدولت اہم مرکز اور سب سے زیادہ مستفید ہونے والا بن چکا ہے۔

اس کے نتیجے میں یہاں مینوفیکچرنگ میں بڑے پیمانے پر روزگار دستیاب ہے، اور یہ سیکٹر شہر کی جی ڈی پی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے جو دو حصوں یعنی تعمیراتی کاروبار اور ریٹیل و ہول سیل اداروں پر مشتمل ہے۔

ایک سرسری نظر سے دیکھا جائے تو بھی صارفین سے متعلق حقائق فوری طور پر شہر کی تعمیر کردہ دیوار نکل کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، امیر برادریاں، شاپنگ ملاز جو اہم مقامی اور بین الاقوامی برانڈز کو ترقی دیتے ہیں، کار ڈیلرز جو پرتعیش گاڑیاں فروخت کرتے ہیں اور غیرملکی فاسٹ فوڈ فرنچائزز جو کافی مشہور اور کافی ورائٹی کے حامل ہیں، سب شہر کے مختلف کمرشل حصوں میں واقع ہیں۔

امیر علاقے اس 'مصدقہ' شہرت (کے ایف سی اور میکڈونلڈ)کی آب و تاب میں جگمگاتے ہیں جبکہ کم ڈویلپ علاقوں میں سستی جگہیں (ایچ ایف سی اور مکی ماﺅس برگر) موجود ہیں۔

شہر کی سروسز معیشت کی رفتار خود اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ سماجی زندگی کے دیگر پہلو اگرچہ جاری ہے تاہم وہ اس معاملے میں کسی قسم کی خاص مداخلت سے قاصر ہیں۔

سماجی معاشی اشرفیہ نے اپنی رکنیت کو بڑھا لیا ہے، بیوروکریسی، صنعتکاروں اور برطانوی عہد کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ اس میں تجارت اور جائیداد کے شعبوں سے متعلق افراد بھی شامل ہوگئے ہیں(یا جیسا کچھ کہتے ہیں نودولیتے شامل ہوگئے ہیں)۔

مہنگے نجی اسکول اب اپنی حیثیت کے اظہار کے مقصد کے طور پر بھی اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، یعنی ایسے مقامات جہاں حال ہی میں دولت مند ہونے والے افراد کے بچے اپنے مالی سرمائے کی بدولیت اشرافیہ کے طور طریقے(جیسے لباس زیب تن کرنے کا انداز، دیکھنا، خریدنا اور کھانا وغیرہ) سیکھ کر اشرافیہ کے سماجی رابطوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔

لاہور کی اس ابھرتی جدت میں سیاسی حلقے بھی مساوی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں، پی ٹی آئی بمقابلہ نواز لیگ کے درمیان شہری آبادی تقسیم ہوچکی ہے، مبصرین اور شرکاءکے تصورات کو چنکاچور کرتی ہوئی دو جماعتوں کی یہ شدید لڑائی جاری ہے جو اقتدار میں رہنے والے وقت کے معاملے پر ایک دوسرے کی مخالفت کرتی ہیں۔

آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ جماعتیں بالائی پنجاب کے اسی سماجی معاشی حلقوں سے اپنے امیدواروں اور سرمایہ کاروں کا انتخاب کرتے ہیں، ان کے رہنماﺅں میں بمشکل ہی کوئی سابق طالبعلم رہنماءہوگا اور یقیناً ان میں سے کوئی بھی مزدور یونینز یا ورکنگ کلاس کے طبقے سے تعلق نہیں رکھتا۔

دونوں میں واحد فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم امیدواروں میں تعلیم یافتہ متوسط طبقہ بھی شامل ہے اور وہ مسلم لیگ نواز کے معاون بیس سے غائب ہے، یہ تاریخی تناظر کے مقابلے میں جاری عمل کا حصہ ہے جس کے وژن یا ترجیح میں کوئی ساختی فرق کی کوئی گہری جڑیں موجود نہیں۔

آخر میں لاہور میں تمام تر جدت کو اخلاقی فریم ورک میں دیکھا جائے تو یہ سماجی اور سیاسی فہم کے لحاظ سے قدامت پسندی ہی نظر آئے گی اور اگر کوئی واضح اسراف کو جائز استحقاق قرار دے کر خوش ہو: یہ وہ نظریہ ہے جس سے لاہور (یا پورے شہری پنجاب) کو دیکھا جاتا ہے جس میں اعلیٰ طبقے کے اندر کفایت شعاری اور درویشی کا عنصر مکمل طور پر غائب ہے۔

یہ معاشی لحاظ سے واضح طور پر مسائل کا سبب ہے، جتنا کم آپ بچائیں گے اتنی ہی کم سرمایہ کاری بھی کریں گے اور رسمی روزگار کے مواقع بھی کم پیدا ہوں گے، اس کے برعکس آپ جتنا غیرپیدواری اشیاءپر بے تحاشہ خرچہ کریں گے تو آپ اپنے درآمدی بل میں اضافہ اور غیرملکی زرمبادلہ کی پوزیشن کمزور کریں گے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں تک پنجاب میں جب کاروباری اداروں نے دیگر کاروباری شعبوں میں سرمایہ کاری کی، اس دوران بھی ان کے اندر زیادہ ترجیح اشرافیہ کی مدد والے اقدامات جیسے ریسٹورنٹس، بوتیکس، کیک شاپس، ڈیزائنر کپڑوں، شادیوں، ایونٹ منیجمنٹ اور دیگر ٹیکس سے بچنے والے غیررسمی ادارے ہی رہے۔

یہ سیاسی ضابطہ اخلاق کی سطح پر زیادہ مسائل کا سبب بنتا ہے، جہاں اقتصادی بحالی، ثقافت اور سماجی انصاف کے لیے کسی قسم کا اضطراب یا بے چینی نہیں پائی جاتی، ماسوائے سکوں کی زبان اور بیچاروں کے لیے مذہب سے متاثرہ فلاحی کام کے۔

دولت کی نمود و نمائش لگ بھگ ایک اصول بن چکی ہے جس سے اعلیٰ طبقے کا کوئی حصہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ کوئی فرد کہاں سے دولت کماتا ہے اور وہ کس طرح بڑھ رہی ہے۔

مرکزی دھارے کی کوئی بھی سیاسی جماعت ،جن کے قائدین کے والد، بھائی اور دیگر رشتے دار اس ابھرتی اشرافیہ کو کنٹرول کررہے ہیں، کبھی بھی غریب کے سماجی تحفظ کے لیے بات کا مطالبہ نہیں کرتی یا اس صورتحال کو تبدیل کرنے والے اقدامات پر بات نہیں کرتی جس میں سب سے بہترین آئیڈیا بلدیاتی ترقی ہے۔

مراعات یافتہ لاہوری صوبہ پنجاب کے اپنے دیگر کزنز کے مقابلے میں زیادہ جدید شہر میں رہنے پر بے پناہ فخر کرتے ہیں ، جو ان کے خیال میں اسلام آباد کے ان کے دوستوں کے مقابلے میں زیادہ پرجوش شہر ہے اور کراچی میں رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ بھی۔

ایک اور چیز جو اس جدت میں واضح طور پر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ شہری اشرافیہ اور ان کی بلند رتبے کی تلاش میں سرگرداں موبائل لاٹ مکمل طور پر کنزیومر ازم اور زیبائشی سرمایہ کاری میں ضم ہوچکی ہے اور اس پراسیس کے دوران کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں