خطروں کے سائے تلے صحافت

02 نومبر 2014
تیزی سے ترقی کرنے کے باوجود صحافت اب صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے — فوٹو بشکریہ free-media.ca
تیزی سے ترقی کرنے کے باوجود صحافت اب صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے — فوٹو بشکریہ free-media.ca

تیزی سے بدل رہی دنیا میں 'میڈیا' کے درجات بہت بلند ہو چکے ہیں۔ جس 'کشتہ' سے 200 برس قبل وطنی ریاستوں (Nation States) کا خمیر اٹھایا گیا تھا اس میں معاشی مفادات کے علاوہ جن تین ستونوں پر اس عمارت کو کھڑا کیا گیا تھا ان میں قانون اور تعلیم کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی شامل تھا۔ اب 21 ویں صدی میں تو میڈیا عروج کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اگر قانون سے 'وکیل'، تعلیم سے 'طالب علم' اور میڈیا سے 'صحافی' کو نکال دیا جائے تو بس 'دکانداری' ہی بچتی ہے۔

ایک طرف میڈیا عروج کی انتہاؤں کی طرف گامزن ہے تو دوسری طرف 'صحافی' عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے محض صحافیوں کو تگڑا نہیں کیا بلکہ صحافیوں کی خفیہ نگرانیاں بھی کچھ زیادہ ہو گئی ہیں۔ سنوڈن کی کہانی اس طلسم کے راز کھولنے میں معاون رہی۔ 23 نومبر 2009 وہ دن ہے جسے صحافیوں کے تحفظ کے حوالہ سے کلیدی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔

اس دن فلپائن کے ایک مقام امپاچواں (Ampatuan) میں 34 صحافیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ صحافی ڈپٹی میئر کے الیکشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے جانے والے اک سیاسی رہنما کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اس واقعہ میں کل 58 لوگوں کو درندوں نے قتل کر ڈالا کہ جن میں 34 صحافی شامل تھے۔

'کمیٹی برائے تحفظ صحافیاں' (Committee to Protect Journalists) یعنی سی پی جی نے اس واقعہ کو صحافیوں کے خلاف 'تاریخ میں ہونے والا بدترین واقعہ' قرار دیا تھا۔ بس اس واقعہ نے دنیا کو یہ باورکروا دیا کہ اب صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے پالیسی ساز، صحافی اور دانشور سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ اس ضمن میں صحافیوں میں بین القوامی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی تنظیم انٹرنیشنل فریڈم فار ایکسپریشن ایکسچینج (IFEX) نے کلیدی کردار ادا کیا۔

بس یہ کاوشیں رنگ لائیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تھرڈ کمیٹی نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک قرارداد تیار کی جسے جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2013 کو منظور کر لیا۔ اس اجلاس ہی میں 2 نومبر کے دن کو صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر میں منانے کا اعلان کیا گیا۔ یوں آج 2 نومبر 2014 کو صحافیوں کے تحفظ کے حوالہ سے منائے جانے والا 'پہلا دن' ہے۔

پاکستان میں تو اس دن کی اہمیت اپریل سے جاری ہنگامے نے پہلے ہی اجاگر کر رکھی ہے۔ سینئر صحافی حامد میر پر حملہ کے بعد سے تادم تحریر مختلف میڈیا ورکروں کو جلسوں، دھرنوں اور ریلیوں میں باربار مشکلات کا سامنا معمول کی بات بن چکی ہے۔ کل جب کوئی ضمیرنیازی 'صحافت پابند سلاسل' کا اگلا باب لکھے گا تو اس 'ست ماہی تاریخ' کے ذکر کے بغیر یہ باب مکمل نہ ہو سکے گا۔

آج صحافیوں کو محض سکیورٹی سے وابستہ اداروں سے تحفظ درکار نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں، انتہاپسند گروہوں اور خود صحافیوں میں موجود 'کالی بھیڑوں' سے بھی شدید خطرات کا سامنا ہے۔


پڑھیے: صحافیانہ ذمہ داری اورخطرات


تاہم یہ تاثر غلط ہے کہ صحافی صرف ہمارے جیسے ممالک ہی میں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ امریکا اور مغرب میں بھی صحافیوں کو بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے حوالے سے شکایات ہیں۔ اس کا ایک ثبوت تو سی پی جی کی طرف سے جاری کردہ پٹیشن ہے جس میں اوباما انتظامیہ کو کہا گیا ہے کہ

1- وہ ایک صدارتی فرمان جاری کریں جس کے ذریعہ صحافیوں اور میڈیا کی تنظیموں کی نگرانی اور ہیکنگ (hacking) کو ختم کیا جائے۔

2- صحافیوں کو ایسی تفتیش میں نہ الجھایا جائے جس کا مقصد خفیہ اہلکاروں کے اشاروں پر صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہو۔

3- امریکہ میں صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کا کام بند کیا جائے۔

پٹیشن میں بدنام زمانہ قانون 'پیٹریاٹ' (patriot) کے سیکشن 215 کا ذکر بھی ہے جس کے تحت 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی' (NSA) والوں کے پاس یہ اختیار بھی تھا کہ وہ عام امریکیوں کے فون اور کمپیوٹر ڈیٹا تک رسائی رکھتے تھے۔ گو کہ اپریل 2014 میں امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی نے عام امریکیوں کی سرعام جاسوسی کے بندوبست کو ختم کر دیا مگر امریکہ اور مغرب میں موجود صحافیوں کا اصرار ہے کہ ہماری حکومتیں کسی بھی وقت اس عمل کو دہرانے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی پی جی والے اب صحافیوں کے تحفظ کے حوالہ سے 'ابہام سے پاک' پالیسی جاری کرنے کے لیے ان حکومتوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

صحافیوں کے حوالے سے عدم تحفظ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بڑی طاقتوں کا اس حوالہ سے دہرا معیار بھی ہے۔ اکثروبیشتر صحافیوں کے حوالے سے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس دہرے معیار میں گرفتار نظر آتی ہیں۔ عراق، ایران، لیبیا اور شام کا ذکر تواتر سے ہوتا ہے مگر مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں صحافی کس عدم تحفظ کا شکار ہیں اس بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

دنیا بھر کے صحافی یہ بات مانتے ہیں کہ آج صحافی طاقت کی غلام گردشوں (Power Coridors) کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ یہی وہ 'سرخ لکیر' ہے جہاں سے گذر کر وہ صحافی ہی نہیں رہتا بلکہ 'طاقت کی سیاست (Power Politics) کا ایک کھلاڑی بن جاتا ہے۔


مزید پڑھیے: میرے ایماندار مبصر، آپ کے 'لفافہ' صحافی


طاقت کی سیاست میں بطور کھلاڑی شامل ہونے والے صحافیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہوتی البتہ اس کھیل میں شمولیت کے بعد صحافی برادری عدم تحفظ کا کچھ زیادہ شکار ہو چکی ہے۔ یہ ہے وہ سوال جس بارے میں ملکی و بین الاقوامی صحافی تنظیمیں بھی الجھنوں کا شکار نظر آتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں صحافی کی غیرجانبداری کی بات ہوتی ہے۔ صحافی کی غیرجانبداری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی خاص نقطہ نظر کی حمایت یا مخالفت میں دلائل نہ دے بلکہ صحافی کی غیرجانبداری یہی ہے کہ وہ طاقت کی سیاست میں بطورکھلاڑی نہ تو شامل ہو نہ ہی ایسا تاثر دے۔

آج دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کی تحفظ کے لیے منائے جانے والے 'پہلے دن' کی مناسبت سے یہی کہوں گا کہ صحافیوں، حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کو 'صحافیوں کے عدم تحفظ' کے مسئلہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اس مضمون میں خواتین صحافیوں کا ذکر نہیں کیا گیا کہ جو دہرے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جن معاشروں یا ممالک میں صحافی عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہوتے ہیں وہ بصیرت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں